’’فرشتے ‘‘ اور انقلاب

May 16, 2014

غور کیا جائے کہ ان دنوں وطن عزیز میں اختیار مندوں نے ہیجان کا جو طوفان برپا کیا ہے اس میں غریب عوام کی فلاح کا کتنا سامان دستیاب ہے۔ اس سارے شور و غوغا سے مہنگائی کتنی کم ہو رہی، روزگار کتنا مل رہا ہے اور ملک کتنی ترقی کر رہا ہے؟ باالفاظ دیگر ان سارے ڈراموں سے عوام کے حال و مستقبل کا کتنا تعلق ہے۔ عمران خان صاحب سمیت جن جماعتوں کو 2013ء کے انتخابات میں عوام نے یا پھر عوام کے نام پر جن اختیار مندوں نے اختیار ودیعت کیا ہے، آخر وہ اس اختیار کو عوامی فلاح کیلئے بروئے کار لانے کے بجائے ایسے ہتھکنڈوں کا سہارا لینے پر کیوں بضد ہیں، جن سے جو کچھ عوام کے پاس ہے وہ بھی چھن جانے کا خدشہ ہو۔ ظاہر ہے دھکا اسٹارٹ معیشت کسی دھینگا مشتی کی متحمل نہیں ہو سکتی اور چونکہ اس کا اثر صرف عوام پر پڑے گا اس لئے ہمارے سیاسی و مذہبی اشرافیہ مہم جوئی کے اپنے شوق کو پورا کرنے پر برابر اصرار کئے ہوئے ہیں۔
یہ درست ہے کہ میاں نواز شریف کی حکومت بہ وجوہ ایک سال میں یہ طے ہی نہیں کر سکی ہے کہ اسے کرنا کیا ہے، ڈیلیور کیا کرتی لیکن جھوٹ یہ بھی نہیں ہے کہ مخالفین کی تحریک کا چونکہ عوامی حقوق سے کوئی تعلق نہیں اور یہ کہ اخلاص سے عاری تحریکیں کبھی منزل مراد نہیں پا سکتیں اس لئے احمد فراز کی یہ بات لکھ کر رکھنے کے قابل ہے
میں نے آغاز سے انجامِ سفر جانا ہے
سب کو دو چار قدم چل کے ٹھہر جانا ہے
جو احباب ’’فرشتوں‘‘ کی مدد سے کسی تحریک کی کامیابی کا مژدہ سنا رہے ہیں وہ چونکہ ’’قریبی‘‘ ہوتے ہیں اس لئے ان کی کسی اطلاع کو ہم جیسے رد کرنے کی استطاعت یوں نہیں رکھتے کہ اطلاعات تک رسائی کے اس آسمان تک پہنچتے پہنچتے ہمارے جیسوں کے پَر ہی جل جاتے ہیں، البتہ خیال کے گھوڑے دوڑاتے دوڑاتے ہم اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ اب فرشتوں کا مقصد معروضی عالمی صورت حال کے تناظر میں کسی حکومت کے خاتمے سے زیادہ یہ ہوتا ہے کہ حکومت کو تابع مہمل رکھنے کیلئے مسلسل پریشان کرتے ہوئے دبائو میں رکھا جائے۔ یہی کچھ پیپلز پارٹی کی حکومت کے ساتھ ہوا کہ اپنی مرضی سے ماسوائے لوٹ مار کے کچھ بھی نہ کر سکی اور یہی کچھ مسلم لیگی حکومت کے ساتھ کیا جا رہا ہے!
ہراساں اور دائرے میں رکھنے کیلئے عوامی حقوق کے نام پر ایسے ایسے ڈرامے اسٹیج ہوں گے کہ عوام جوق در جوق پردہ اسکرین کے سامنے براجمان رہیں گے، جب عوام بور ہوں گے، دوسرا شوشا چھوڑ دیا جائے گا۔ یوں تبدیلی کے خواب کے بہانے عوامی شوق کو ہر صورت مہمیز ملتی رہے گی اور شو ہائوس فل ہوں گے۔ بعد میں پتہ چلے گا کہ عوام کی جیب میں جو کچھ تھا وہ بھی ان ڈراموں کی نذر ہو گیا، لیکن مقصد بہر صورت ایسے شعبدے بازوں کی ڈور ہلانے والوں کے ہاتھ ہی آئے گا۔ ہمارے سرمایہ دار و جاگیردار سیاستدان جب تک بیعت کر کے اقتدار میں آتے رہیں گے اصل اختیار بیعت لینے والوں کے پاس ہی رہے گا اور وہ میاں صاحب کی طرح محض یہ کہتے ہوئے پائے جائیں گے
خود کو محصور کر بیٹھا ہوں اپنی ذات میں
منزلیں چاروں طرف ہیں راستہ کوئی نہیں
جہاں تک علامہ طاہر القادری صاحب کے انقلاب کی بات ہے، تو ان کی قیادت اور منظم، متحرک اور نظریاتی کارکنوں کی جماعت اس طرح کے کسی دعویٰ میں حق بجانب ہو سکتی ہے، پھر فکری حوالوں سے ان کی جماعت کے کام کا ثانی نہیں۔ لیکن سوال یہ ہے کہ انقلاب کے جمہوری مراحل کو پھلانگتے ہوئے قومی جدوجہد کو عوامی انقلاب میں کس طرح تبدیل کیا جا سکتا ہے!؟ جو معاشرہ ناخواندہ، مذہبی جنونیت اور رجعت پسند سیاسی نظریات کے زیر اثر ہو، وہاں غیر مستقل مزاج تحریک کی کامیابی کے کیا امکانات ہو سکتے ہیں؟ پھر جب تاثر بھی یہ ہو کہ نراجیت پسندوں کی باقیات کیخلاف نراجیت پسندوں ہی کی لڑائی لڑی جا رہی ہے تو پھر اسے ہر قسم کے قومی و طبقاتی استحصال سے نجات کی تحریک کیونکر قرار دیا جا سکتا ہے۔ تجزیہ کاروں کی ایک بڑی تعداد کو حضرت علامہ صاحب کی ڈور بھی کسی اور کے ہاتھ میں ملتی نظر آتی ہے لیکن راقم یہ سمجھتا ہے کہ پاکستان عوامی تحریک نظریاتی عناصر کا ایک ایسا مرکب ہے جو اپنے ترکیب میں خالص ہے۔ راقم کو ان کے نظریات سے اختلاف ہو سکتا ہے لیکن اس سے اختلاف نہیں کہ اس جماعت کے نظریات اچھے برے جیسے بھی ہیں، لیکن یہ اپنے نظریات پر قائم ہے۔ قابل مذمت وہ مذہبی و سیاسی جماعتیں ہیں جو جن نظریات کی داعی ہیں ان کا عمل اس کے برعکس ہوتا ہے۔ اسی دو عملی ہی کا نتیجہ ہے کہ آج جمہوریت کو جمہوریت نوازوں سے خطرہ ہے۔ اسلام کو دین کا لبادہ اوڑھے دین فروش نقصان پہنچا رہے ہیں اور وطن کو ان نام نہاد محب وطنوں نے دوزخ بنا رکھا ہے جو اپنے ماسوا ہر کسی کو اس دوزخ کا ایندھن بنانے کو اپنا فرضِ منصبی جانتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ گزشتہ 6دہائیوں سے پاکستان پر حکمرانی کرنے والے سیاسی و فوجی اشرافیہ جو کچھ کہتے رہے ہیں اس پر اگر عمل کرتے تو کیا ملک دو ٹکڑے ہوتا!؟ اور کیا باقی ماندہ ملک غربت، بدامنی اور انتہا پسندی کا اس طرح شکار ہوتا جس طرح آج ہے۔ کیا حضرت علامہ اقبال نے اس طرح کے کسی پاکستان کا خواب دیکھا تھا! حضرت علامہ اگر آج اپنے اس پاکستان کو اکر دیکھ لیں تو کیا ان کے احساسات اس کے ماسوا کوئی اور ہوں گے!
اب دیکھ یہ حسرت بھری اجڑی ہوئی آنکھیں
دنیا ترے بارے میں مرے خواب بہت تھے
المیہ یہ نہیں ہے کہ ملک مسائل و مصائب کی دلدل میں دھنسا ہوا ہے۔ المیہ یہ ہے کہ تمام اختیار مند اپنی دنیا میں مست صرف اپنی ہی فکر کی چادر اوڑھے ہوئے ہیں۔ احمد فراز نے شاید ایسے ہی کسی منظر کی تصویر کشی کی ہے۔
اک فقیہہ شہر کو کیا دوش دیجئے جب سب ہی
میکدے کے دشمنوں میں ہوں، قدح خواراں سمیت
ہم سے ایک دن بعد آزاد ہونے والا بھارت ترقی کی نئی راہوں پر گامزن ہے۔ یہاں تک کہ وہاں اب تک دل میں سوراخ کے حامل متعددپاکستانی بچوں کا کامیاب علاج کیا جا چکا ہے، جگر کی پیوند کاری (ٹرانسٹ پلانٹ) میں مہارت اور کم خرچ میں وہ چین سے آگے نکل چکا ہے۔ ایک ارب سے زائد آبادی والا یہ ملک غربت کے عفریت سے فتح یاب پنجہ آزمائی کر رہا ہے۔ مقام افسوس یہ ہے کہ وسائل سے مالا مال پاکستان میں غربت، بے روزگاری اور بیماری نے عوام کو زندہ درگور کر دیا ہے۔ ہم کیسے اسلام اور جمہوریت کے علمبردار ہیں کہ پاکستان کی غالب اکثریت کے ارمانوں کا خون ہوتا دیکھ کر بھی اپنی خرمستیوں سے باز نہیں آتے! کاش ہر آسائش سے مالا مال محبانِ وطن ان کروڑوں غریب والدین کی محرومیوں پر بھی توجہ دیں جو اپنے بچوں کے لئے کھلونا تک خریدنے کی سکت نہیں رکھتے، اہل ِدرد کے لئے زیرنظر شعر اس درد کی کیا عکاسی لئے ہوئے ہے۔
کھلونے بیچنے والے کو آتا دیکھ کر زاہد
مرے بچے گلی میں کھیلنا بھی بھول جاتے ہیں