ایک لائبریری جو میری درسگاہ بنی

July 30, 2016

امریکہ میں اپنی ایک مہینے کی چھٹی کے بعد میری پاکستان روانگی میںصرف تین دن باقی تھے جب کراچی میں نئی برٹش کونسل لائبریری کا افتتاح ہوا۔ نئی میںاس لئے کہہ رہا ہوںکہ یوںتو برٹش کونسل لائبریری پاکستان کے قیام کے ابتدائی سالوں میں قائم تھی مگر 15سال قبل اسے بند کردیا گیا تھا۔ اس طرحیہ نئی لائبریری اس پرانی لائبریری کی یاد دلانے کا سبب ہے۔ اور کم از کم میرے لئے اس پرانی لائبریری کی یادیں ان یادوں کی طرح ایک قیمتی اثاثہ ہیں کہ جن کا ذکر شاعری میںکیا جاتا ہے۔ اسی لئے مجھے کچھ عجیب سا محسوس ہوا کہ کراچی میںبرٹش کونسل لائبریری نے دوسرا جنم لیا ہے اور میںاس کی افتتاحی تقریب میںشریک نہ تھا۔ ایک اور احساس نے بھی اداس کیا کہ میرا اس نئی لائبریری سے وہ رشتہ کبھی قائم نہیںہوسکتا جو سن ساٹھ کی دہائی میں ایک ایسے ادارے سے تھا جسے میں مادر علمی کا درجہ دیتا ہوں۔ یہ وہ کہانی ہے جس کا ذکر میں اپنی تحریروں میں ایک سے زیادہ دفعہ کرچکا ہوں۔ یعنی یہ کہ میںنے کسی کالج یا یونیورسٹی سے تعلیم حاصل نہیں کی۔ لوگ جب پوچھتے ہیں تو میںکہتا ہوںکہ کراچی کی برٹش کونسل لائبریری ہی میری اوکسفورڈ اور میری ہارورڈ تھی۔ بات بڑھے تو میں اقرار کرلیتا ہوںکہ اس کے علاوہ ہالی وڈ کی اس زمانے کی فلموںنے بھی میری ذہنی اور جذباتی پرورش میںحصہ لیا۔ برٹش کونسل لائبریری تو تقریباً روز کا معمول بن گئی تھی۔ کتابیں مستعار لینے لی سہولت اپنی جگہ وہ لائبریری کراچی کی سڑکوں پر دور تک پیدل چلنے کے بعد میرے لئے ایک پناہ گاہ تھی۔ ٹھنڈی ، پرسکون اور کشادہ۔جس لائبریری کا میںذکر کررہا ہوںوہ پاکستان چوک میں، گلابی پتھروں سے بنی ایک خوبصورت عمارت کی پہلی منزل پر تھی۔ پڑھنے کی عادت تو مجھے پہلے سے تھی اور اردو کے افسانوی ادب سے کچھ شناسائی بھی تھی البتہ انگریزی میںنے خود، بیشتر برٹش کونسل کی لائبریری میں بیٹھ کر سیکھی۔ خواب دیکھنے اور سوچنے کی مشق کا آغاز بھی شاید وہیں سے ہوا۔
برٹش کونسل کی لائبریری سے اپنے ذاتی تعلق کے ضمن میں بہت کچھ کہنے کو جی چاہتا ہے ۔ بنیادی بات یہ ہے کہ میںنے اس لائبریری سے جو فیض حاصل کیا وہ میرے خیال میں آج کل کے نوجوانوں کے نصیب میں نہیں ہے۔ اور ظاہر ہے کہ میںپاکستان کی موجودہ صورت حال کی بات کررہا ہوں۔ آپ اس خیال کو ضرور ایک مبالغہ سمجھیں گے۔ کمال ہے۔ آج کل کے نوجوان تو پوری دنیا کو جیب میں رکھ کر گھومتے ہیں۔ کمپیوٹر ٹیکنالوجی کے جادو نے نوجوانوںہی کو نہیںبلکہ بچوں کو بھی اپنے سحر میں جکڑ لیا ہے۔ اور کسی نہ کسی حد تک اس انقلاب کا تعلق لفظوں اور تحریروں سے بھی ہے۔ یہ تمام حقائق اور دلیلیں اپنی جگہ، میرا دکھ یہ ہے کہ ہمارے نوجوانوںکو مطالعے کی عادت نہیںہےاور لائبریریاںیا کتابوں کی دکانیں ہماری معاشرتی اور تعلیمی زندگی میںکوئی نمایاں مقام نہیںرکھتیں۔ میںاسے اپنا مشن سمجھتا ہوںکہ مطالعے کے ذوق اور عادت کی اہمیت کو اجاگر کروں۔ میں یہ کہتا رہتا ہوںکہ کتابوں کے بغیر نہ افراد اپنی زندگی کو سنوار سکتے ہیںاور نہ معاشرے آگے بڑھ سکتے ہیں۔ ہاں، یہ جو تہذیبی، تعلیمی اور جذباتی پسماندگی ہمارے معاشرے میں سرایت کرتی جارہی ہے تو لائبریریوں اور کتابوں کی دکانوں کا فقدان اس کی محض ایک علامت ہے۔ اس پسماندگی کی وجوہات بہت گمبھیر ہیں۔ ان میںتعلیم اور زبان اور نظریاتی انتشار کے مسائل بھی شامل ہیں۔ پھر بھی، بچوں میںمطالعے کے شوق کو بیدار کرنے اور عام زندگیوں میںکتابوں سے تعلق کو بڑھانے سے معاشرے کو قوت حاصل ہوگی اور ہم انتہا پسندی اور عدم برداشت جیسی آفات کا بہتر انداز میںمقابلہ کرسکیں گے۔ میں تو یہ کہتا ہوں کہ ہمارے قومی مسائل کچھ بھی ہوں۔ باہر کی دنیا ہمیںکتنا ہی تنگ کیوں نہ کرتی ہو، کتابیں ذاتی زندگی میںدوستوں کی طرحہماری غم گسار بن سکتی ہیں۔ آخر کتابیںتفریح کے لئے دل بہلانے کے لئے بھی تو پڑھی جاتی ہیں۔ مطالعے کے شوق کا مطلب یہ نہیںہے کہ آپ فلسفہ تاریخ یا کلاسیکی ادب ہی پڑھیں۔ جاسوسی کہانیاں پڑھنے میںبھی کوئی مضائقہ نہیں۔ بلکہ اچھی بات ہے۔ عادت پڑجائے تو اگلی سیڑھیاں بھی چڑھی جاسکتی ہیں۔
ذکر تو لائبریریوں کا ہورہا ہے۔ اب دیکھئے کہ کراچی جیسے بڑے شہر میں کہ جہاںپڑھے لکھے افراد کا تناسب دوسرے شہروں سے زیادہ ہے کوئی ایسی پبلک لائبریری نہیںہے۔ جس سے عام شہری کتابیں چند دنوںکے لئے مستعار لے سکتے ہوں جو قومی لائبریریاں میںنے دیکھی ہیں ان کا ذکر تک کرنے کی مجھ میںہمت نہیںہے۔ ایک بات یہ بھی کہنے کی ہے کہ اب لائبریریوں کی ہیئت بدل چکی ہے۔ ان میں صرف کاغذ کی کتابیں نہیںہوتیں۔ کمپیوٹر بھی ہوتے ہیں۔ نئی ٹیکنالوجی نے پورے نظام کو تبدیل کردیا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ میری یادوںکی برٹش کونسل کی لائبریری نئی لائبریری سے بہت مختلف تھی۔ پھر نئی لائبریری کا مطلب اب بھی کتابیں ہے۔ اور کاغذ کی کتابوںکا رومانس نہ صرف زندہ ہے بلکہ اسے فروغ حاصل ہورہا ہے۔ لائبریری اور کتابوں کی دکان کی ایک خاص فضا ہوتی ہے۔ میںاسے اپنی خوش قسمتی سمجھتا ہوںکہ میںنے دنیا کے کئی ملکوںکی لائبریریاںاور کتابوںکی دکانیں دیکھی ہیں۔ ان کے درمیان ایک ایسا رشتہ ہے جس کو صرف کتابوں سے محبت کرنے والے ہی سمجھتے ہیں۔ وہ یہ کہ اب کتابوں کی دکانیں بھی ایک قسم کی لائبریری بن گئی ہیں۔ یعنی آپ وہاں کافی وقت گزار سکتے ہیں۔ بیشتر بڑی دکانوں میںکافی ہائوس بھی ہوتا ہے کہ آپ چاہیں تو وہاںبیٹھ کر کوئی بھی کتاب یا رسالہ پڑھتے رہیں اور کچھ خریدے بغیر بھی واپس آجائیں۔ ایسا نہیںہے کہ صرف امریکہ اور یورپ کے خوشحال، جمہوری ملکوںمیںلائبریریوں اورکتاب گھروںکی یہ شان ہو۔ مثال کے طورپر میںنے برازیل میں، اس ملک کی اپنی پرتگیزی زبان کی کتابوں کی ایسی بہار دیکھی کہ حیران ہوگیا۔ جو دو بڑے شہر ہیں ان کی لائبریریوں کی عمارتیں ایسی ہیںجیسی کراچی کی میونسپل کارپوریشن کی تاریخی عمارت اور سڑکوں پر جگہ جگہ مشروبات اور سینڈوچ کے ساتھ ساتھ کتابوں کے کھوکھے بھی موجود ہیں۔ میںکبھی روس نہیںگیا اتنا مجھے معلوم ہے کہ عام روسی اپنے ادب میںجو لگائو رکھتے ہیں اس کی شاید کوئی اور مثال نہ ہو۔ دوسرے ملکوں میںمجھے جن روسی شہریوں سے ملنے کا موقع ملا ہے ان کے ادبی ذوق نے مجھے متاثر کیا ہے۔ چین اور جنوبی کوریا میں میں نے کتابوں کی ایسی دکانیں دیکھی ہیںجو میری نظر میں ان کی غیر معمولی معاشی ترقی کی آئینہ دار ہیں۔ میرے پاس بے شمار قصے کہانیاں ہیںلائبریریوںکی اور کتابوں کی دکانوں کی۔ ماسکو میںکتابوں کی چند دکانیں چوبیس گھنٹے کھلی رہتی ہیں۔ تائیوان کے دارالحکومت میں قائم ایک کتاب گھر کے بارے میںمیںنے یہ پڑھا کہ کیسے وہاںرات کے دو تین بجے بھی نوجوانوں کا ہجوم رہتا ہے اور وہ کتابوں کے درمیان ہنستے گاتے ہیں۔ کتابیںکیسے افراد بلکہ پورے معاشروں کی زندگی پر اثر ڈالتی ہیںاس کی کہانی الگ ہے۔ جی تو بہت چاہتا ہے کہ میںچند مخصوص کتابوںکا ذکر کروںلیکن اس سے کیا حاصل۔ ہم تو بس اس بات سے خوش ہیں کہ کراچی میں برٹش کونسل لائبریری کا افتتاح ہوچکا ہے گو اس تک رسائی بہت محدود رہے گی اور یہ غیر ملکی سفارت خانوں کا کام تو نہیںہے کہ وہ ہمارے لئے لائبریریاں کھولیں۔ پھر بھی ان کا شکریہ۔ اور خاص طورپر اس لائبریری کے لئے جو میری درسگاہ بنی۔


.