ترکی میں بغاوت گولن ہی نے کروائی

August 04, 2016

15جولائی 2016 کی رات ترک بھائیوں کے لئے خوفناک اور بھیانک سپنے سے کم نہ تھی ترک فوج کے ایک حصے نے جس طرح ترک جمہوریت پر شب خون مارا خدانخواستہ اگر یہ کامیاب ہو جاتا تو نہ صرف یہ کہ ترکوں کو جمہوریت سے ہاتھ دھونے پڑتے بلکہ جو خون خرابہ ہوتا اس کے نتائج کئی نسلوں کو بھگتنے پڑتے لیکن عظیم ترک قوم نے اس رات آئین اور جمہوریت کے حق میں سڑکوں پر نکل کر جس طرح باغی فوجیوں کو بے بس کردیا اس پر پوری جمہوری دنیا انہیں خراج تحسین پیش کرتی ہے بلاشبہ ترک قوم نے ایک نئی تاریخ رقم کردی ہے ترکوں کا یہ کارنامہ پوری دنیا بالخصوص پاکستانی قوم کے لئے عزم و ہمت کی ایک زندہ داستان ہی نہیں درخشاں مثال بھی ہے۔
اپنی تمام تر خوبیوں، صلاحیتوں، خدمات اور عوامی حمایت حاصل ہونے کے باوجود یہ حقیقت بھی اپنی جگہ پر موجود ہے کہ اردوان آئیڈیل ترک لیڈر نہیں ہیں۔ ترکی میں ایسے خواتین و حضرات کی کمی نہیں ہے جو طیب اردوان کو کھلے بندوں جمہوری ڈکٹیٹر قرار دیتے ہیں۔ اس سب کے باوجود ترک قوم اور ان کی سیاسی قیادت کی بالغ نظری کو سلام ہے کہ سب سے بڑے سیکولر ترک لیڈر قلج دار اوغلو یا جمہوری خلق پارٹی کے قائدین سب نے فوج یا فوج کے کسی حصے کی مداخلت کو مسترد کرتے ہوئے منتخب جمہوریت قیادت کا نہ صرف کھلے بندوں ساتھ دیا بلکہ بغاوت کی رات کوئی سیکولر تھا یا مذہبی یا قوم پرست سب باغی فوجیوں کے خلاف سیسہ پلائی دیوار بنے سڑکوں پر موجود تھے جب ایف 16 طیارے نچلی پروازیں بھرتے انقرہ اور استنبول کے عوام کودھمکا رہے تھے پارلیمینٹ پر حملے ہو رہے تھے عین اس وقت پارلیمینٹ میں موجود خلق پارٹی کے قوم پرست ممبران اورسیکولر طبقات فوجی بغاوت یا مارشل لاء کی مخالفت میں تقاریر کر رہے تھے۔ اس خطرناک ترین لمحے اگر کسی کو راحت محسوس ہو رہی تھی تو وہ پنسلوینیا میں خود ساختہ جلاوطنی کی زندگی گزارنے والے فتح اللہ گولن تھے یا ان کی ہزمت تحریک سے منسلک صالحین۔
75 سالہ فتح اللہ گولن کی ایک بزرگ مبلغ رہنما، دینی و روحانی شخصیت اور چار دہائیوں پر مشتمل خدمات سے شاید ہی کسی کو انکار ہو، اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ خودصدر طیب اردوان بھی ان کےفکری متاثرین میں رہے ہیں ۔ نجم الدین اربکان سے لے کر اردوان کے میئر استنبول بننے اور کامیاب ہونے میں بھی گولن کی ہزمت پارٹی کی معاونت انہیں حاصل رہی۔ انہوں نے نہ صرف ترکی بلکہ دنیا بھر میں تعلیمی اداروں کا جو جال پھیلایا نیز جس طرح ہسپتالوں اور ڈسپنسریوں کوقائم کیا اس کے ترک سوسائٹی پر اثرات کا انکار نہیں کیا جاسکتا یہ اثرات کتنے مثبت رہے اور کتنے منفی اس حوالے سے بحث کی جا سکتی ہے اور ہم پوری دیانتداری سے یہ سمجھتے ہیں کہ حالیہ ناکام فوجی بغاوت بھی گولن کی ہزمت پارٹی کے متاثرین کا کرشمہ ہے کیونکہ ان کے اداروں سے منسلک لوگ نہ صرف یہ کہ خاصے پرعزم اور منظم ہیں بلکہ انہوںنے ترکی کے ریاستی اداروں میں بھی عمل دخل اس قدر بڑھایا ہے کہ شاید ہی کوئی شعبہ ہو جہاں ہزمت پارٹی یا اس کے متاثرین براجمان نہ ہوں۔ بالخصوص فوج، عدلیہ، میڈیا اور بڑےبڑے تعلیمی اداروں یا یونیورسٹیوں میں گولن تحریک کے اثر ورسوخ کا خاصا چرچا رہا ہے۔ 15 جولائی کی فوجی بغاوت کو اگرچہ براہ راست انہوں نے قبول کرنے سے انکار کیا لیکن ساتھ ہی اردوان حکومت پر مختلف النوع الزامات عائد کرنے سے بھی باز نہیں رہے جن میں سب سے بڑا الزام یہ تھا کہ یہ ناکام فوجی بغاوت اردوان کا اپنا خودساختہ ڈرامہ تھا تاکہ اس طرح وہ اپنی اور جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی کی آمریت قائم کر سکیں اس ڈرامے کی آڑ میں وہ فوج، عدلیہ اور اعلیٰ تعلیمی ادارورں سے گولن کی ہزمت تحریک کے وابستگان کو چن چن کر نکال سکیں ، ان کی تضاد بیانی کا یہ بھی ایک ثبوت ہے کہ ایک طرف انہوں نے باغیوں سے لاتعلقی ظاہر کی ہے لیکن پھر خود ہی یہ بھی کہا کہ میری تحریک کے زیر اثر لوگوں نے میری مرضی کے بغیر ازخود یہ انتہائی اقدام اٹھایا ہے اس بات کا بھی رونا رویا کہ میرے لوگوں کے گھروں کو جلایا جا رہا ہے اور انہیں ذبح کیا جا رہا ہے حالانکہ حقائق اس کے برعکس ہیں جس پارٹی کو وہ احمقوں کا گروہ قرار دے رہے ہیں انہوں نے خود آگے بڑھ کر پکڑے جانے والے باغی فوجی نوجوانوں کو عوامی غیظ و غضب سے یہ کہتے ہوئے بچایا کہ یہ تو ماتحت تھے یہ تو اپنے افسران کے بھکاوے میں آ کر اتنے خطرناک پروگرام کا حصہ بنے اگر ترک عوام جنہیں گولن صاحب ’’ بھیڑوں کا ریوڑ‘‘ کہہ رہے ہیں حوصلے سے کام نہ لیتے تو موقع پر ہی ان باغیوں کی تکا بوٹی کردیتے۔ ایسے بلوئوں میں اگر کہیں بداعتدالی ہوئی بھی تو یہ کوئی انہونی بات نہیں لیکن جو اعداد و شمار میڈیا میں آئے ہیں ان کے مطابق مرنے والے باغیوں کی تعداد اگر ساٹھ ستر کے قریب ہے تو ان باغیوں کانشانہ بننے والے عوام یا پولیس اہلکاروں کی تعداد ڈھائی تین سو بیان کی جا رہی ہے اور زخمی ہونے والوں کی تعداد دو سے ڈھائی ہزار بتائی جا رہی ہے ۔ ہم سمجھتے ہیں کہ یہ سب ڈرامہ ہرگز نہیں تھا البتہ بغاوت کرنے والے فوجیوں کی منصوبہ بندی خوش قسمتی سے بہت گھٹیا ثابت ہوئی ۔ناکامی کی بڑی وجہ یہ بھی تھی کہ بغاوت فوج کی طرف سے نہیں بلکہ فوج کے ایک طبقے یا حصے کی طرف سے تھی جس کے اب تک سامنے آنے والے شواہد گولن تحریک کی طرف جاتے صاف دکھائی دے رہے ہیں البتہ اس میں صدر اردوان یا ان کی AK پارٹی کے ذمہ داران کا امریکا یا دیگر مغربی ممالک کی آشیر باد کو شامل کرنا نہ تو حقائق کی مطابقت میں ہے اور نہ ہی جمہوریہ ترکی اور اس کے عوام کے مفاد یا خدمت میں ہے۔
ترک آرمی کے چیف آف سٹاف جنرل حلوسی آکار نے اپنی تمام تر سیکولر اپروچ کے ساتھ نہ صرف یہ کہ جمہوری حکومت اور ترک آئین کے ساتھ اپنی وابستگی ویکجہتی کا اظہار کیا ہے بلکہ اس حقیقت کو بھی راز نہیں رکھا ہے کہ باغیوں نے ان کی حمایت حاصل کرنے کے لئے کیا کیا ہتھکنڈے استعمال کئے۔ باغیوں نے فتح اللہ گولن سے اپنی وابستگی کو بھی نہ چھپایا بلکہ یہ زور دیا گیا کہ آپ ان سے بات کریں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ بغاوت کی ناکامی کا سہرا جہاں ترک عوام کے شعور کو جاتا ہے وہیں ترک آرمی چیف کی آئین اور جمہوریت سےوابستگی کا بھی آئینہ دار ہے انہی کی نگرانی میں ترک فوج اپنے باغیوں پر قابو پانے میں کامیاب ہوئی۔ باغیوں کی اپنی نااہلیت اور بہتر منصوبہ بندی کا فقدان بھی لمحہ بہ لمحہ نوٹ کیا جاسکتا ہے۔
تمام ترک قوم بالخصوص کمالین سیکولر اپنی اس شعوری پختگی اور جمہوریت و آئین سے وابستگی پر مبارکباد کے مستحق ہیں۔ ایسے حالات میں جہاں جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی کو تحمل بردباری حکمت و دانائی سے اقدامات کرنے مطلوب ہیں وہیں ان کا امریکی حکومت سے یہ مطالبہ بھی جائز ہے کہ گولن کی ہزمت تحریک کو دہشت گرد تحریک قرار دیتے ہوئے ان کی امریکا بدری کرے۔ اطلاعات ہیں کہ فتح اللہ گولن مصری صدر عبدالفتح السیسی سے روابط کرتے ہوئے ایسے حالات میں مصر منتقل ہونے کی خواہش رکھتے ہیں جن کے ترکی حکومت کے ساتھ اخوان کی حمایت کے تناظر میں تعلقات سرد مہری کا شکارہیں۔ فتح اللہ گولن جس طرح داعش کی حمایت یا دہشت گردوں کی تربیت کے حوالے سے ترک حکومت پر گھٹیا الزام تراشی کرتے ہوئے مغرب میں اسے بدنام کرنے کے لئے کوشاں ہیں اس سے ان کی سچائی، پاک بازی اور ترک قوم سے اپنائیت کا ادراک کیا جاسکتا ہے۔ یہ بہترین موقع ہے کہ ترک حکومت ان کے تما م تعلیمی اداروں کو اپنے محکمہ تعلیم کی تحویل میں دیتے ہوئے تمام ہسپتالوں اور ڈسپنسریوں کو بھی محکمہ صحت کے حوالے کرے۔حکومت پاکستان کو بھی چاہیے کہ وہ ترک بھائیوں سے اظہار یکجہتی کرتے ہوئے پاک ترک سکولوں کا انتظام و انصرام سرکاری یا بہتر پرائیویٹ ہاتھوں میں دے تاکہ انتہاپسندانہ نظریات و خیالات کو پر پرزے نکالنے کےمواقع کا قلع قمع ہوسکے۔