ٹینڈر یا کنٹریکٹ والا سیاسی بحران

July 20, 2014

پاکستان پیپلزپارٹی کی قیادت مسلسل کچھ دنوں سے اس بات پر زور دے رہی ہے کہ وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف پاکستان تحریک انصاف کی طرف سے چار حلقوں میں دوبارہ گنتی کا مطالبہ مان لیں ۔ پاکستان پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین اور سابق صدر آصف علی زرداری کا کہنا ہے کہ دوبارہ گنتی سے کوئی قیامت نہیں ٹوٹ پڑے گی ۔ پیپلز پارٹی کے رہنما اور سابق وزیر داخلہ رحمٰن ملک کا بھی یہی کہنا ہے کہ دوبارہ گنتی میں کوئی حرج نہیں ہے لیکن دوبارہ گنتی کا مطالبہ کرنے والے تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان اب صرف چار حلقوں کی نہیں بلکہ پورے الیکشن کا آڈٹ کرنے کی بات کر رہے ہیں ۔ وہ اس بات پر تو ضرور خوش ہیں کہ پیپلز پارٹی نے ان کے مؤقف کی حمایت کی ہے لیکن وہ اس درمیانی راستے پر چلنے کے لئے تیار نہیں ہیں ، جو پیپلز پارٹی کی قیادت نے تجویز کیا ہے ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ کسی اور راستے پر چلنا چاہتے ہیں۔
یہ تو وقت ہی بتائے گا کہ عمران خان اپنی منزل پر پہنچتے ہیں یا نہیں لیکن انہیں پتہ ہونا چاہئے کہ الیکشن کو متنازع بنانے سے انہیں کوئی فائدہ نہیں ہوگا اور ان لوگوں کو بھی کوئی فائدہ نہیں ہو گا ، جو اس صورتحال کو اپنے مقاصد کے لئےاستعمال کرنا چاہتے ہیں۔پاکستان جیسے ملک میں اگر شفاف اور منصفانہ انتخابات کا کوئی نظام وضع ہو جاتا ہے تو پاکستان کا سیاسی نقشہ ہی تبدیل ہو جائے گا اور بہت سے لوگوں کی سیاست بھی ہمیشہ کے لئے ختم ہو جائے گی ۔ ویسے بھی پاکستان کےبعض حلقے اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ پہلے شفاف انتخابات سے ملک ٹوٹ گیا تھا اور اب بھی شفاف انتخابات ملک کے لئے مفید نہیں ہیں ۔ یہ اور بات ہے کہ 1970 ء کے انتخابات کے بعد پاکستان کے طاقتور حلقوں کو چاہئے تھا کہ وہ انتخابات کو متنازع نہ بناتے لیکن انہوں نے 1977ء کے عام انتخابات کو متنازع بنایا اور اپنے مقاصد کے لئے ’’ دھاندلی ‘‘ کے خلاف ایک تحریک چلوائی ۔ اس تحریک کے نتیجے میں ایک فوجی آمر 11 سال تک قوم پر مسلط رہا ۔ 1988 ء میں جنرل ضیاء الحق کے طیارے کے حادثے کے بعد جو انتخابات منعقد ہوئے ، اس میں ’’ پاکستان کو بچانے ‘‘ کی غرض سے طاقتور حلقوں نے اپنی مرضی کی دھاندلی کی اور پیپلز پارٹی کو اتنی نشستوں تک محدود رکھا کہ وہ مخلوط حکومت بنانے پر مجبور ہوں اور کمزور مینڈیٹ کے ساتھ مقتدر حلقوں کے اشاروں پر چلتی رہے ۔ 1988ء کے بعد بھی کوئی عام انتخابات ایسے نہیں ہوئے ، جنہیں پوری قوم منصفانہ اور شفاف قرار دے سکے ۔ انتخابات میں انجینئرنگ کو پاکستان کی سلامتی کے لئے ضروری قرار دیا گیا ۔ ان انتخابات کے ذریعہ پاکستان کے مقتدر حلقوں اور غیر سیاسی قوتوں نے جمہوریت میں بھی اپنی مرضی کی حکومتیں بنائیں اور ان حکومتوں کو اپنے مقاصد کے لئے استعمال کیا ۔ ایک زمانے میں یہ پروپیگنڈا کیا جاتا تھا کہ آئین کا آرٹیکل 58 (2 ) ( بی ) مارشل لا کو روکنے کے لئے ضروری ہے کیونکہ اس آرٹیکل کے تحت صدر کو یہ اختیار حاصل ہو تا ہے کہ وہ جمہوری حکومت کو چلتا کر دے اورپارلیمنٹ کو تحلیل کر دے ۔ اس آرٹیکل کے حق میں جو لوگ مہم چلاتے تھے ، ان کی دلیل یہ ہوتی تھی کہ اگر صدر سے یہ اختیار واپس لے لیا جائے گا تو حکومت اور پارلیمنٹ تحلیل نہیں ہو سکے گی ، جس کی وجہ سےفوج مجبوراً اقتدار پر قابض ہو جائے گی۔طویل عرصے تک سیاسی قوتیں اس آرٹیکل کے خلاف جدوجہد کرتی رہیں لیکن بعض لوگ یہ رٹ لگاتے رہے کہ یہ آرٹیکل مارشل لا روکنے کے لئے بند کا کردار ادا کرتا ہے ۔ آرٹیکل 58 (2 ) (بی ) کی طرح انتخابات میں دھاندلی کو بھی پاکستان کی سلامتی اور مارشل لا کو روکنے کا ذریعہ تصور کیا جاتا رہا ہے ۔ آرٹیکل 58 ( 2) ( بی ) سے جان چھوٹ گئی ہے لیکن دھاندلی والے انتخابات کا ’’ سیفٹی والو ‘‘ اب بھی موجود ہے ۔ یہ ’’ سیفٹی والو ‘‘ ان سیاست دانوں کے فائدے میں ہے ، جو کچھ حلقوں کے منظور نظر ہوتے ہیں یا ان کے اشاروں پر چلتے رہتے ہیں ۔ عمران خان اگر یہ ’’ سیفٹی والو ‘‘ بند نہ کرائیں تو ان کے حق میں بہتر ہو گا۔
1988ء سے لے کر آج تک ہونے والے تمام انتخابات کو طاقتور حلقوں نے خود متنازع نہیں بنایا کیونکہ انہیں علم ہے کہ شفاف اور منصفانہ انتخابات ان کے حق میں نہیں ہوں گے ۔ انتخابات میں دھاندلی سے سب سے زیادہ نقصان پیپلز پارٹی کا ہو ا اور فائدہ بہت سے لوگوں کا ہوا ۔ اس کے باوجود پیپلز پارٹی نے انتخابات کو متنازع بنانے کی کوشش نہیں کی ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ پیپلز پارٹی کی قیادت کو اس بات کا ادراک ہے کہ اگر اس کی طرف سے انتخابات کو متنازع بنایا گیا تو غیر سیاسی قوتیں مداخلت میںایک سیکنڈ بھی نہیں لگائیں گی ۔ اب اگر انتخابات کو خود بعض حلقے 1977ء کی طرح متنازع بنانا چاہتے ہیں تو اس سے ان کے ارادوں کی نشاندہی ہوتی ہے کیونکہ یہ قوتیں اب بھی شفاف انتخابات کی متحمل نہیں ہیں اور وہ یہ تاثر بھی دیتی ہیں کہ پاکستان ٹوٹ جائے گا ۔ عمران خان کو سیاست میں آئے ہوئے اب کافی عرصہ گزر چکا ہے۔ انہیں یہ بات سمجھ لینی چاہئے کہ دھاندلی کے لئےبعض حلقے انتخابات سے پہلے اپنے کٹھ پتلی سیاست دانوں کا قد کاٹھ بناتے ہیں اور بڑے سیاسی ڈرامے کیے جاتے ہیں تاکہ انتخابات میں بڑا فراڈ کیا جا سکے ۔ اگر ان ڈراموں میں کوئی سیاستدان اپنے آپ کو واقعی بڑا سیاست دان سمجھنے لگے تو یہ حلقے اس کی غلط فہمی دور بھی کر دیتے ہیں ۔ اس وقت ملک میں شاید اسی طرز کا سیاسی بحران ہے ۔جسے کچھ لوگ ٹینڈر یا کنٹریکٹ والے سیاسی بحران کا نام دے رہے ہیں ۔ پاکستان کے مقتدر حلقے آج تک وفاقی اکائیوں کی الگ الگ ’’ پولٹیکل ڈائنا مکس ‘‘ کو نہیں سمجھ سکے ہیں ۔ اگر ملک میں شفاف انتخابات کا کوئی نظام رائج ہو گیا تو بہت سے لوگوں کو نقصان ہو گا ، جنہیں بڑے قد کا سیاست دان بنا دیا گیا ہے ۔
طاقتور حلقوںکو بھی یہ سمجھنا چاہئے کہ وہ انتخابات کو زیادہ متنازع نہ بنائیں کیونکہ اب 1977ء نہیں ہے ۔ اب جمہوری حکومت کو چلتا کرنا آسان نہیں رہا ہے اور نہ ہی کسی طالع آزما کے لئے پہلے جیسے مواقع موجود ہیں۔ شفاف انتخابات کا نظام رائج کرنے کی خواہش اگر کسی میں موجود ہے تو وہ الیکشن کمیشن کو زیادہ مضبوط کریں اور اسے نئی ٹیکنالوجی فراہم کریں تاکہ دھاندلی کی گنجائش کم سے کم یا بالکل ختم ہو جائے ۔