فردِجرم

September 20, 2014

پاکستان اور جمہوریت کا ایک ایسا تعلق ہے جو ہمیشہ سے مباحث کی لپیٹ میں رہا ہے دنیا کا مسلمہ کلیہ ہے کے جمہوریت بہترین طرزِ حکمرانی ہے لیکن پاکستان میں ابھی تک یا تو حقیقی جمہوریت نہ آ سکی یا پھر وہ ناکا م ہوگئی؟ ہمیں اس سوال کاجواب تلاش کرنا ہوگا کہ آیا جمہوریت ناکام ہوئی یا سرے سے نافذ ہی نہ ہوسکی کیونکہ آج نئی نسل اس اضطراب کا شکار ہے کہ جمہوریت ہمارے ملک کیلئے مناسب ہے یا کوئی دوسرا نظامِ حکومت رائج کیا جائے۔ جمہوریت کے دلدادہ اسی طرزِ حکومت کو تمام مسائل کا حل گردانتے ہوئے پارلیمنٹ کی بالادستی اور عدلیہ کی آزادی کو ترقی کا راز سمجھتے ہیں لیکن خود ان کا قول و فعل اس کلئیے پر پورا اترتا نظر نہیں آتا جب اسلام آباد میں دھرنوں کا آغازہوا تو وزیر اعظم سمیت تمام حکومتی نمائندوں کو پارلیمنٹ یاد آئی، پہلے یہ ادارہ بے توقیر نظرآیا بالکل اسی طرح عدلیہ اپنے متفقہ فیصلوں پر عمل درآمد کرانے میں بے بس نظر آئی، این آر او کیس اور اصغر خان کیس اس کی بڑی مثالیں ہیں ۔آج ہم اس فرد جرم کا جائزہ لیں گے جو گاہے بگاہے اس نظام پر پاکستان میں عائد کی جاتی ہے ۔ پہلا الزام یہ ہے کہ جب جب جمہوریت اس ملک کو نصیب ہوئی تو وطنِ عزیز بلدیاتی نظام سے محروم رہا وعدے کئے جاتے رہے کہ 90دن میں یا چھ ماہ میں بلدیاتی انتخابات کرادئیے جائیں گے لیکن 65سالہ تاریخ میں جمہوریت کے علمبردار یہ معجزہ نہ کرسکے البتہ جنھیں آمر کہا جاتا تھا وہ اس نظام کو متعارف کرانے میں کامیاب رہے ۔آج پورا ملک سیلاب کی لپیٹ میں ہے سینکڑوں انسانوں کی جانیں جاچکی ہیں مال مویشی بہہ گئے، لاکھوں انسان کھلے آسمان تلے آچکے ہیں جو بے یارو مدد گارہیں۔ حکومت اور فلاحی ادارے ان کی مدد کے دعوے کررہے ہیں لیکن انسانیت بے سروساماں ہے، یہ صورتحال پہلی بار نہیں پیدا ہوئی بلکہ بارہا ہوچکی ہے بااثر افراد اپنے فارم ہاوس بچانے کیلئے پوری پوری آبادیاں غرق آب کرچکے ہیں۔ سوال یہ بھی ہے کہ آخر جمہوریت کے کرتا دھرتا آبی ذخائر تعمیر کرنے میں کیوں ناکام رہے۔ اگر دھرنوں کے خلاف اتفاق رائے پیدا کیا جاسکتا ہے تو کالا باغ ڈیم سمیت دیگر آبی ذخائر کی تعمیر پر اختلاف کیوں؟ اگر اس ڈیم پر اختلاف تھا تو چھوٹے چھوٹے ڈیم کیوں نہ بنائے جاسکے ؟ اسکے برعکس وقت کے جابر حکمراں کہلانے والوں نے تربیلا، منگلا ،کرم تنگی ڈیم سمیت متعدد ڈیم کیسے تعمیر کئے؟ انصاف کی فراہمی جمہوریت کی اساس سمجھی جاتی ہے ایک جانب بے پناہ دولت کے حامل افراد چند دنوں میں عدالتوں سے انصاف حاصل کرنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں دوسری جانب غریب ذرائع آمد ورفت کی عدم دستیابی کے باعث عدالت تک پہنچنے سے قاصر ہے ۔ اربوں روپے کے قرضے معاف کرانے والے اتنے معزز ٹھہرے کے اقتدار ان کا مقدر بنا اور اگرایک عام اور غریب آدمی ایک لاکھ کا قرض واپس نہ کر سکے تو اس کا گھر قرق کرلیا جاتا ہے۔ یہاں سوال یہ بھی اٹھتا ہے کے انصاف غریب اور امیر کیلئے یکساں کیوں نہیں؟کسی بھی سیاسی جماعت کی انتخابی مہم کا مشاہدہ کرکے دیکھ لیں تو ہر جماعت وی وی آئی پی کلچر کی مخالفت کرتی نظرآتی ہے لیکن اگرعملی طور پر دیکھا جائے تو ہر جماعت نے اس کلچر کو اپنایا ہوا ہے تو ہم کس طرح اس بات کے دعویدار ہیں کہ ہمارے روئیے جمہوری ہیں بڑے بڑے کانوائے سڑکوں پر نظر آتے ہے اورکہیں مریض ایمبولینس میں وفات پاجاتا ہے توکہیں طالب علم اپنا پرچہ دینے سے رہ جاتاہے۔ کیا سیاسی جماعتوں کے پاس ایسے لوگ نہیں جنھیں خطرات یا تو لاحق نہ ہوں یا وہ کم خطرات میں گھرے ہوں۔جمہوریت کے طالب علم وقت کے ساتھ ساتھ وفاق کے اندر رہتے ہوئے نئی انتظامی اکائیوں کے قیام کو وسائل کی منصفانہ تقسیم کا ذریعہ سمجھتے ہیں مگرافسوس ہمارے وطن کے جمہوری لوگ ابھی تک اس سمت میں کوئی اقدام نہ اٹھاسکے کیونکہ سارے قانون ساز فراہمی ونکاسی آب اور سڑکوں کی تعمیر میں دلچسپی لیتے نظرآتے ہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ ایسے منصوبوں پر خطیر رقم خرچ ہوتی ہے کہا جاتا ہے کہ اس رقم کے استعمال میں بڑے پیمانے پر ہیر پھیر کی جا تی ہے یہی وجہ ہے کہ جمہوریت کے دلدادہ نہ تو بلدیاتی انتخابات کرانے کے خواہاں ہیں اور نہ ہی نئی انتظامی اکائیاں قائم کرنا چاہتے ہیں ۔اسی لئے اٹھارویں ترمیم کے ذریعے نئے صوبوں کے قیام کو صوبائی اسمبلی کی قرارداد سے مشروط کرکے کم بیش نئے صوبوں کے قیام کا راستہ روکا گیا ہے اور بلدیاتی انتخابات نہ کراکے وسائل کو نچلی سطح تک منتقل ہونے کا راستہ بھی مسدود کردیا گیا ہے۔ جب جب محروم طبقات کی جانب سے نئے صوبوں کے قیام کا مطالبہ سامنے آیا تو اسے غداری اور ملک دشمنی سے تعبیر کیا گیا نئی نسل کے نمائندہ ہونے کےایک دعویدار جنھوں نے مغرب کے ترقی یافتہ معاشرے میں نہ صرف تعلیم حاصل کی بلکہ ایک بڑے سیاسی خانوادے کے سیاسی وارث ہونے کے دعویدار بھی ہیں صوبوں کے مطالبے پر گویا ہیں کہـ مرسوں مرسوں سندھ نہ ڈیسوں ۔اب نئی نسل کو یہ سوچنا ہوگا کہ ہم کس طرح اصل جمہوریت تک پہنچ سکتے ہیں اسکے لئے ضروری ہے کہ اس سوچ کا محاسبہ کیا جائے جو جمہوریت کی محافظ بن کر اس کے عملی نفاذ کاراستہ روک رہی ہے۔ یہی وہ فرد جرم ہے جسے ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین نے گزشتہ روز اپنے کارکنان کے بڑے اجتماع سے ویڈیو لنک کے ذریعے خطاب کرتے ہوئے پاکستان کی نام نہاد جمہوریت پر عائد کی اس میں دو رائے نہیں کہ جن خرابیوں کی جانب انہوں نے اشارہ کیا وہ پاکستان کے نظام میں موجود ہیں آج سیاست کا طالب علم یہ بھی سوچ رہا ہے کہ اس ملک میں نئی انتظامی اکائیوں کا قیام ناگزیر ہے لہٰذ اب عوام کے حقوق کو نام کی جمہوریت کے ہتھیار سے غصب نہیں کیا جا سکے گا۔
ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین کی توانا آوازنے تاثر چھوڑا ہے وہ اب اس فرسودہ نظام کے خاتمے کیلئے آخری حد تک اپنی کوششوں کو تیز کریں گے یہی وجہ ہے کہ وہ تنظیم سازی کے ذریعے اپنی صف بندی کررہے ہیں اور تاریخ بتاتی ہے کہ تنظیم سازی کے فن میں انہیں ملکہ حاصل ہے۔ امید ہے کہ ہم رائج الوقت معاہدہ عمرانی میں رہتے ہوئے نئے انتظامی یونٹس سمیت اپنے مسائل حل کرلیں گے۔