قومی ایکشن پلان۔تشنہ تکمیل

August 27, 2016

16 دسمبر 2014میں سانحہ پشاور اور 148معصوموں کی شہادت نے ہماری قومی سیاسی قیادت کو انسداد دہشت گردی کے حوالے سے یکجا کر دیا ۔ سب اپنے اختلافات فراموش کیے مل بیٹھے۔عمران خان صاحب نے بھی چار ماہ سے جاری دھرنا سمیٹا اور قومی اجتماع کا حصہ بن گئے۔ عسکری قیادت بھی اس عمل میں شریک تھی۔ سیاسی اور عسکری قیادت کی اجتماعی بصیرت اور بالغ نظری بروئے کار آئی اور بیس نکاتی قومی ایکشن پلان تشکیل پایا۔سچی بات ہے ہماری سیاسی تاریخ میں ایسے اتفاق رائے کے مراحل کم کم ہی آئے ۔ فوجی عدالتوں کے قیام کے حوالے سے کچھ اختلاف رائے ضرور سامنے آیا۔مگر پارلیمنٹ نے قومی مفاد کی خاطر اس اقدام پر اپنی حمایت کی مہر ثبت کی۔ دینی مدارس سے متعلق شق بھی وجہ نزاع بنی رہی۔تاہم اس پر بھی کسی قدر مفاہمت ہو گئی۔ جس قدر جوش و جذبہ سے سیاسی اور عسکری قیادت اکھٹی ہوئی، بیس نکات وضع ہوئے، اکیسویں آئینی ترمیم منظور ہوئی،اور حکومتی سطح پر عملدرآمد کی ذیلی کمیٹیاں تشکیل پائیں، قوم کو یقین ہو گیا کہ تاخیر ہی سے سہی ،مگر ہم دہشت گردی کے ناسور سے نجات کی راہ پر گامزن ہوگئے ہیں۔امید تھی کہ یہ عفریت جلد قابو آجائے گا۔ یہ امیدیں مگر پوری نہ ہو سکیں۔
ایسانہیں کہ اس ایکشن پلان پر سرے سے عملدرآمد ہی نہیں ہوایا معاملات میں کوئی بہتری نہیں آئی۔بلاشبہ مثبت تبدیلی دکھائی دیتی ہے۔مگر جس قدر تیز رفتار اور نتیجہ خیز کامیابی متوقع تھی،اسکا حصول مگر ممکن نہ ہو سکا۔لازم تھا کہ ان گزرے ماہ و سال میں اس ایکشن پلان پر عملدرآمد کا باقاعدگی سے جائزہ لیا جاتا۔مگر کوتاہی برتی گئی۔ نہ صرف حکومتی سطح پر بلکہ میڈیا اور اپوزیشن کی جانب سے بھی۔ جنکااولین فریضہ ہی حکومتوں کا محاسبہ ہوا کرتا ہے۔
سانحہ کوئٹہ اور ستر قیمتی جانوں کے ضیاع نے قومی قیادت کو نیشنل ایکشن پلان کی اب تک کی کارگزاری کے جائزہ پر مائل کیا۔ سو گزشتہ دنوں وزیر اعظم صاحب کی زیر صدارت اعلیٰ سطحی اجلاس ہوا۔جس میں متعلقہ حکومتی نمائندے، فوج اور دیگر اداروں کے سربراہان بھی شریک تھے۔وزیر اعظم صاحب کوقومی ایکشن پلان کے حوالے سے ہونے والی پیش رفت سے آگاہ کیا گیا۔ قابل تذکرہ بات یہ ہے کہ رپورٹ میں بتایا گیا کہ بیس نکات میں سے آٹھ پر تو سرے سے عملدرآمد ہی نہیں ہو سکا۔ حکومتی رپورٹ سے قطع نظر، یہ بات وثوق سے کہی جا سکتی ہے کہ ایکشن پلان کی کسی ایک شق پر بھی کامل عملدر آمد نہیں ہو سکا۔ غور کیجیے ۔ کیا مدارس کی اصلاح ہوئی،نیکٹا فعال ہوا ، میڈیا کا قبلہ درست ہوا، نفرت انگیز مواد پر پابندی لگی، فاٹا اصلاحات، پولیس کی استعداد کار میں اضافہ۔غرض تمام شقوں پر نگاہ ڈالیں۔کسی ایک معاملے میں بھی مثالی صورتحال نہیں۔ اب قومی ایکشن پلان پر عملدرآمد کی مانیٹرنگ کیلئے ایک ٹاسک فورس قائم کر دی گئی ہے ۔ قومی سلامتی کے مشیر جنرل(ر) ناصر جنجوعہ اسکی سربراہی کریں گے۔ بلا شبہ جنرل صاحب ان معاملات سے آگہی رکھتے ہیں ۔ وہ سدرن کمان کے سربراہ رہ چکے ہیں۔ بلوچستان میں بحالی امن اور عسکریت پسندوں کو قومی دھارے میںشامل کرنے میں انہوں نے اہم کردار ادا کیا۔ تاہم اس پہلو پر ضرور بحث ہونی چاہیے کہ اس فیصلے کے ملکی سطح پر کیا اثرات مرتب ہوں گے۔ جواب طلب سوال ہے کہ یہ اہم ذمہ داری تو جنرل جنجوعہ کو سونپ دی گئی ہے ، کیا وہ اختیارات بھی انکو تفویض کیے جائیں گے جو اس ذمہ داری کو بخوبی نبھانے کے لئے درکار ہیں۔ کیونکہ نتیجہ خیز اقدامات اسی صورت ممکن ہیں جب ذمہ داری اور اتھارٹی (اختیارات) میں توازن ہو۔
ایکشن پلان کو وضع ہوئے دو برس کا عرصہ ہونے کو ہے۔ اب ہمیں بیانات کی دنیا سے نکل کر عملی اقدامات اٹھاناہوں گے۔ ستم ظریفی یہ ہے قوم کو ایک طرف دہشت گردوں اور انتہا پسندوں کی بہیمانہ کارروائیوں کا سامنا ہے۔ دوسری طرف ایک فکری انتہا پسندی کی یلغار ہے جو ہمارے بیانات، تبصروں ، تجزیوں، جائزوں اورمذاکروں میں غالب نظر آتی ہے۔ ہر کوئی اس میں اپنا اپنا حصہ ڈالنے میں مصروف ہے۔ خود حکومتی ترجمان اور اراکین بھی۔ یا تو قوم کو نہایت پر امید اور خوش گمانی کی حدوں کو چھوتا منظرنامہ دکھایا جاتا ہے یا پھر مایوسی اور بے یقینی سے بھرپور۔ ان دونوں انتہائوں کے مابین زمینی حقیقتوں پر مبنی ،منطقی انداز فکر مفقود ہے۔ یہی کچھ نیشنل ایکشن پلان کیساتھ ہوا۔ حکومت کی جانب سے بیس نکات پر اتفاق رائے کو کچھ اس ا نداز میں پیش کیا گیا گویا دہشت گردی سے نجات کا پروانہ ہاتھ لگ گیا ہو۔ حالانکہ یہ فقط روڈ میپ تھا۔ جس پر عمل درآمد کے بعد ہی مطلوب مقاصد کا حصول ممکن تھا۔ اپوزیشن جماعتیں ا ور میڈیا بھی نفاذ سے ذیادہ نقشہ کار کی بحث میں الجھے رہے ۔ ایک وقت وہ تھا جب ہم انیس نکات کو فراموش کیے، فوجی عدالتوں کے قیام پر توجہ مرکوز کر بیٹھے تھے۔ جس سے اس تاثر کو تقویت ملتی تھی کہ غالبا یہی ایک نکتہ قابل غور اور قابل بحث ہے۔ کچھ حلقے یہ باور کروانے میں مصروف تھے کہ فوجی عدالتوں کا قیام ہی دہشت گردی کے خاتمہ کاضامن ہے۔ دینی مدارس سے متعلق شق پر بھی ہم ا لجھائو کا شکار رہے۔
ہر معاملے کو سیاست کی نذر کرنا اور خلط مبحث میں مبتلا رہنا ہمارے قومی مزاج کا حصہ بنتا جا رہا ہے۔ عملی اقدامات کے بجائے زبانی جمع خرچ پر ہمارا زوررہتاہے۔ یہ طرز فکر بھی رواج پا گیا ہے کہ کسی بھی کار گزاری کی کامیابی کا سہرا یا ناکامی کا ملبہ کسی فرد واحد یا ادارے سے منسوب کر دیں۔قومی ایکشن پلان کے معاملے میں بھی ہم نے یہی طرز عمل اختیار کر رکھا ہے۔حالانکہ کیا یہ ممکن ہے کہ نوازشریف یا جنرل راحیل تن تنہا دہشت گردی جیسے معاملے کو حل کرنے کی طاقت رکھتے ہوں۔ یا فقط حکومت یا فوج اس ذمہ داری کا بار گراں سہار سکے۔ حقیقت یہ ہے کہ کوئی ایک فرد یا ادارہ اسقدر جناتی استعداد کار کا حامل نہیں ہو سکتا۔ یوں بھی قومی معاملات کا حل باہمی اتفاق رائے اور اجتماعی جدوجہد سے ہی ممکن ہوتا ہے۔اب جبکہ موجودہ عسکری قیادت اپنی مدت منصب کی تکمیل کے قریب ترہے اور موجودہ حکومت بھی ڈھلوان کے سفر کی جانب گامزن ، مطلوب مقاصد کا حصول کامل یکسوئی اوریکجہتی کا متقاضی ہے ۔ ایسے فیصلہ کن مرحلے میں قومی سلامتی سے متعلق معاملات پر غیر ضروری قیاس آرائیوں اور غیر محتاط تبصروں سے گریز لازم ہے۔
درحقیقت نیشنل ایکشن پلان پر عملدرآمد ایک قومی معاملہ ہے اور ایک مشترکہ ذمہ داری بھی۔ صرف وفاقی حکومت اور فوج ہی جواب دہ کیوں؟ عمران خان صاحب، زرداری صاحب اور شہباز شریف صاحب سے بھی سوال ہونا چاہئے کہ اپنے اپنے صوبے میں انہوں نے ایکشن پلان کی کن شقوں پر عملدرآمد یقینی بنایا۔ بالکل اسی طرح کیا میڈیا پر اس ایکشن پلان کے نفاذ کی ذمہ داری عائد نہیں ہوتی، کیا نامور علمائے کرام اور کسی گمنام محلے کی مسجد کا خطیب اس ذمہ داری سے مستثنیٰ ہیں، کیا نوجوان نسل کی ذہن سازی کے ذمہ دار ہماری جامعات کے اساتذہ کو اس معاملے سے لاتعلق رہنا چاہیے ؟۔ہر گز نہیں۔ یہ واقعتاََ ایک اجتماعی ذمہ داری ہے۔ مجھے ہنگو کا رہائشی نویں جماعت کا طالب علم اعتزاز احسن یا د آ گیا۔جس نے اپنے اسکول کی طرف آنے والے ایک خود کش بمبار کو دبوچ لیا ۔خود جام شہادت نوش کر گیا مگر اپنے اسکول کے سینکڑوں بچوں کی جانیں بچا گیا۔ جب ایک بچہ ایسی ذمہ داری کا مظاہرہ کر کے انسداد دہشت گردی میں اپنا حصہ ڈال سکتا ہے تو میں اور آپ کیوں نہیں۔ اس بات میں مگر کوئی دو رائے نہیں کہ سب سے اولیں ذمہ داری نوازشریف صاحب پر عائد ہوتی ہے۔ بطور وزیر اعظم وہ ریاست کے سربراہ ہیں اور اٹھارہ کروڑ عوام کے تحفظ کے ذمہ داربھی۔ وقت آگیا ہے کہ ہم عملی اقدامات کی جانب اپنی توجہ مرکوز کریں۔ایک دوسرے کو ذمہ دار ٹھہرانے سے کہیں بہتر ہے کہ اپنے حصے کی ذمہ داری پر نگاہ ڈالیں۔


.