کشمیر کیلئے پارلیمانی وفد میں ہرپارٹی کی نمائندگی ضروری ہے،شبلی فراز

August 29, 2016

کراچی (جنگ نیوز)کشمیر کاز اجاگرکرنے کےلیے وزیراعظم نے 22ارکان کو بیرون ملک بھیجنے کا جوفیصلہ کیا ہے اس کا دفاع کرتے ہوئےحکمران جماعت کےسینیٹرعبدا لقیوم نے کہا ہے کہ کشمیر کاز کےلیے بہترین افراد کا چنائو کیا گیا ہے۔ہر پارٹی کی نمائندگی ضروری نہیں پیپلزپارٹی کےرکن سلیم مانڈوی والا کا کہنا ہے کہ فیصلہ اچھا ہے طریقہ صحیح نہیں اور اگر ان ارکان میں اہلیت نہ ہوئی تو پاکستان کو شرمندگی ہوگی۔ تحریک انصاف کے شبلی فراز کا کہنا ہے کہ بیرون ملک جانے والے وفود میں ہر پارٹی کی نمائندگی ضروری ہے۔ان خیالات کا اظہار ان رہمائوں نے جیو کے پروگرام ’’نیا پاکستان طلعت حسین کے ساتھ‘‘ میں گفتگو کرتے ہوئے کیا۔ اس موقع پر ایم کیو ایم چھوڑ کر پی ایس پی میں شامل ہونے والے آٓصف حسنین نے بھی وضاحت کے ساتھ اپنا موقف بیان کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان مخالف نعرے کے بعد مینڈیٹ پاس رکھنے کا جواز نہیں تھا۔جیو کے ’نیا پاکستان‘ میں گفتگو پی ٹی آئی کے رہنما سینیٹر شبلی فراز نے کہا ہے کہ مسئلہ کشمیر اجاگر کرنے کیلئے بیرون ملک جانے والے وفود میں پارلیمنٹرنیز کا چناؤ صحیح نہیں کیا گیا، حکومت اس کام کو بہتر طریقے سے بھی کرسکتی تھی، سینیٹ اور قومی اسمبلی کی خارجہ امور کمیٹیوں کے ارکان کشمیر دیگر ارکان کی نسبت بہتر جانتے ہیں، مسئلہ کشمیر اجاگر کرنے کیلئے مختلف ممالک جانے والے وفود میں ہر پارٹی کی نمائندگی ضروری ہے۔سلیم مانڈوی والا نے کہا کہ بیرون ملک بھیجے جانے والے وفد میں اہل لوگ شامل نہیں ہوئے تو پاکستان کو شرمندگی ہوگی ،کشمیر کاز کو نقصان پہنچے گا اور پارلیمنٹرینز کی ساکھ متاثر ہوگی۔آصف حسنین نے کہا کہ پاکستان کے خلاف تقریر اور نعروں کے بعد ایم کیو ایم کے ساتھ نہیں رہ سکتا تھا، رینجرز کی تحویل میں جانے سے قبل 23اگست کی رات مصطفی کمال سے بات چیت کرچکا تھا، مصطفی کمال کی دبئی روانگی کے باعث شمولیت میں تاخیر ہوئی۔سینیٹر عبدالقیوم نے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ حکومت پہلے دن سے کشمیر پر بھارتی مظالم کی مذمت کررہی ہے، پاکستانی مندوبین کا بیرون ملک جانا کشمیر کاز کیلئے اچھا ثابت ہوگا، حکومت پاکستا ن نے وفد کیلئے بہترین افراد کا چناؤ کیا ہے، مسئلہ کشمیراجاگر کرنے کیلئے بیرون ملک جانے والے وفد میں ہر پارٹی کی نمائندگی ضروری نہیں ہے، پاکستان سے باہر ہم پارٹی نہیں ملک کی نمائندگی کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ وفود میں شامل تمام پارلیمنٹرینز کو بریفنگ دینے کے بعد باہر بھیجا جائے گا جبکہ سفارتخانے بھی رہنمائی کریں گے، جو پارلیمنٹرینز وفود میں جارہے ہیں انہیں کم نہیں سمجھنا چاہئے۔سلیم مانڈوی والا نے کہا کہ مسئلہ کشمیر پر بیرون ممالک وفود بھیجنے کا فیصلہ اچھا ہے لیکن اس پر صحیح طریقے سے عمل نہیں کیا گیا، مسئلہ کشمیراجاگر کرنے کیلئے بھیجے جانے والے وفد میں ایسے لوگ بھی شامل ہیں جنہیں اس کا پتا ہی نہیں ہے، کئی لوگ ایسے ہیں جن کا خارجہ امور سے بھی کبھی تعلق نہیں رہا ہے، وفود میں ایسے لوگوں کو بھیجنا چاہئے جن کی مسئلہ کشمیر پر گرفت ہو، اہل لوگ وفد میں شامل نہیں ہوئے تو پاکستان کو شرمندگی ہوگی ،کشمیر کاز کو نقصان پہنچے گا اور پارلیمنٹرینز کی ساکھ متاثر ہوگی۔ آصف حسنین نے کہا کہ گزشتہ کچھ عرصہ سے میرے ایم کیو ایم سے متعلق تحفظات تھے، پاکستان کے خلاف تقریر اور نعروں کے بعد ایم کیو ایم کے ساتھ نہیں رہ سکتا تھا، 23اگست کو پریس کلب اس امید پر پہنچا تھا کہ ایم کیو ایم الطاف حسین سے اظہار لاتعلقی کرے گی ،جب ایسا نہیں ہوا تو رات میں مصطفی کمال سے رابطہ کر کے پی ایس پی میں شمولیت کی خواہش کا اظہار کیا، مصطفی کمال کی دبئی روانگی کے باعث شمولیت میں تاخیر ہوئی۔ انہوں نے کہا کہ مجھے 25اگست کو رینجرز نے تحویل میں لیا تھا، میں تین گھنٹے وہاں رہا اس کے بعد مجھے رہا کردیا گیا، پاک سرزمین پارٹی میں رینجرز تحویل کی وجہ سے شامل نہیں ہوا، رینجرز نے مجھے بلوایا تھا لیکن مجھے پیغام نہیں مل سکا تھا، میں پہلے بھی دو دفعہ رینجرز کے بلانے پر وہاں جاچکا ہوں، رینجرز کی تحویل میں جانے سے قبل 23اگست کی رات مصطفی کمال سے بات چیت کرچکا تھا۔ آصف حسنین کا کہنا تھا کہ رابطہ کمیٹی کی میٹنگوں میں ان معاملات پر تحفظات کا اظہار کیا، 22 اگست کے خطاب کے بعد فیصلہ کرنا ضروری ہوگیا تھا، میں کبھی رابطہ کمیٹی کا رکن نہیں رہا، پاکستان مخالف نعرے کے بعد مینڈیٹ پاس رکھنے کا جواز نہیں تھا، پاکستان کے جھنڈے کو دیکھ کر مصطفی کمال کے پاس آیا۔