اعتبار انقلابِ آسماں

October 03, 2014

پاکستان کے پہلے وزیراعظم نوابزادہ لیاقت علی خاں اپنی تقریروں میں یہ شعر اکثر پڑھا کرتے تھے 1؎
نہ تم بدلے نہ دل بدلا نہ دل کی آرزو بدلی
میں کیسے اعتبار انقلابِ آسماں کر لوں
یہ وہ زمانہ تھا جب پاکستان نیا نیا وجود میں آیا تھا اور اِس کی مخالفت کرنے والے عناصر معاشرے میں بڑے فعال اور طرح طرح کی ریشہ دوانیاں کر رہے تھے۔ روس بھی قیامِ پاکستان کا سخت مخالف تھا اور اشتراکیت پر ایمان لائے ہوئے ففتھ کالمسٹ نئی مملکت میں کمیونسٹ حکومت قائم کرنے کے درپے تھے۔ اُنہوں نے اپنا اثرورسوخ اِس قدر بڑھا لیا تھا کہ فوج کے اندر مارچ 1951ء میں بغاوت ہوئی جس کا مقصد قانون کے تحت قائم شدہ حکومت کو ختم کر کے اشتراکیوں کو برسراقتدار لانا تھا۔ بروقت علم ہو جانے پرسازش تو ناکام ہو گئی ،مگر پاکستان کے اندر مایوسی اور انتشار پھیلانے اور نت نئے مسائل پیدا کرنے کا عمل جاری رہا ، مگر بگاڑ کی قوتیں مسلسل یہ دعویٰ کرتی رہیں کہ وہ پاکستان کو مضبوط اور خوشحال دیکھنا چاہتی ہیں اور عوام کی فلاح و بہبود کے لئے کام کر رہی ہیں۔ قائد ملت لیاقت علی خاں اُنہی سے مخاطب ہو کر وہ شعر پڑھا کرتے تھے جو ہم نے اوپر درج کیا ہے۔
آج ہماری تاریخ ایک نئے منظر نامے سے گزر رہی ہے اور انقلاب کی باتیں دانش گاہوں کے بجائے برسرکنٹینر کی جا رہی ہیں جو عوام کے ذہنوں میں اُترنے لگی ہیں۔ عمران خاں اور علامہ قادری اِس اعتبار سے بڑے خوش قسمت رہے کہ اُنہیں مکمل ڈیڑھ ماہ تمام ٹی وی چینلز کے ذریعے اپنے لاکھوں بلکہ کروڑوں نوجوانوں اور درمیانے طبقے تک یہ پیغام پہنچا دینے کا موقع میسر آیا کہ اُن کی مشکلات اور مصائب میں ہولناک اضافہ ہو چکا ہے جبکہ اُن کے حکمران اپنے لئے بڑے بڑے محلات کی تعمیر اور دولت کے انبار لوٹ کر بیرون ملک بھیجنے کے گھناؤنے کاروبار میں شب و روز مصروف ہیں۔ دھرنوں کے یہ دونوں لیڈر خطابت کی ساحری اور اداکاری سے یہ احساس بیدار کرنے میں بڑے کامیاب نظر آتے ہیں کہ موجودہ نظام کے اندر بہت بڑی خرابیاں ہیں جن کی اصلاح کے لئے حکمراں سیاسی قیادت کو تبدیل کرنا پاکستان کے اوّلین مفاد میں ہے۔ یہ امر تسلیم کر لینا چاہیے کہ تبدیلی کی آرزو ایک شہر سے دوسرے شہر ، ایک قریے سے دوسرے قریے اور ایک گھر سے دوسرے گھر کی طرف محو سفر ہے۔ کراچی اور لاہور کے جلسوں میں بچوں ، جوانوں اور بوڑھوں نے جس والہانہ پن سے شرکت کی ہے ، وہ بدلتے ہوئے رجحان کی عکاسی کرتا ہے اور اربابِ اختیار کو عوام کے اندر سے اُٹھنے والے پیغام کو صحیح تناظر میں پڑھ لینے کا درس دیتا ہے۔ ’’گو نواز گو‘‘ کا نعرہ تعلیمی اداروں ، پارلیمانی کمیٹیوں اور عوامی تقریبات میں داخل ہو چکا ہے جسے اب خالی خولی باتوں سے روکا نہیں جا سکے گا۔ اِس کے لئے حکمرانوں کو سچ مچ اپنے آپ کو بدلنا ، ایک نئی طرزِ حکمرانی کو اپنانا اور شاہانہ زندگی کو خیرباد کہنا ہو گا۔
بلاشبہ عمران خاں اور اُن کے فرسٹ کزن علامہ قادری نے ملک میں تبدیلی کا صور پھونکنے کے لئے غیرجمہوری اور کسی حد تک غیر قانونی راستہ منتخب کیا ہے جس سے ریاست کو بہت ضعف پہنچا ہے اور ملک دشمنوں کی بن آئی ہے۔ چین کے تعاون سے پاکستان ایک مضبوط معاشی طاقت بننے کی پوزیشن میں آنے والا تھا اور چینی صدر ستمبر کے وسط میں اسلام آباد میں 32ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کے معاہدوں پر دستخط کرنے کا عندیہ دے چکے تھے ، مگر ہجوم جس طرح پارلیمنٹ ہاؤس کی جالیاں کاٹ کر اندر داخل ہو ا اور پارلیمان کے اندر جانے کے اُس نے راستے بند کر دیے ، وزیراعظم ہاؤس کی دیوار توڑنے کا مرحلہ قریب آن پہنچا تھا اور پی ٹی وی اسٹیشن پر نوکدار ڈنڈوں کے ساتھ قبضہ ہو گیا تھا ، اِس کے نتیجے میں اُن کا دورہ ملتوی ہو گیا اور ترقیاتی منصوبے فی الحال کھٹائی میں پڑ گئے ہیں۔ اِس دوران بھارت کی قیادت جاپان اور چین سے 55ارب ڈالر سرمایہ کاری کے معاہدے کر چکی ہے اور اِس کا اب ماٹو یہ ہے کہ ہر چیز بھارت میں تیار کی جائے۔ اِس زبردست داخلی طاقت کی بنیاد پر امریکی صدر اوباما نے بھارتی وزیراعظم نریندر مودی سے چوبیس گھنٹوں میں دوبار ملاقات کی ہے اور یہ عندیہ دیا ہے کہ وہ اقوامِ متحدہ کی سیکورٹی کونسل میں بھارت کو بڑا رول دینے کی حمایت کرتے ہیں ، مگر شاید وہ اپنے مقصد میں کامیاب نہ ہو سکیں کیونکہ چھوٹے ممالک اِس تجویز کے سخت مخالف ہیں۔
اسلام آباد کے دھرنوں میں جمہوریت اور پارلیمان پر خاصے جاں لیوا حملے ہوئے اور یہ بات بار بار دہرائی گئی کہ جس نظام سے غریب کو روزی میسر نہ آئے اور انسانوں کی حیثیت بھیڑ بکریوں کے برابر ہو ، اِس کا ایک ایک نقشِ کہن مٹا دینا چاہئے۔ اِسی طرح پارلیمان پر یہ الزام لگایا گیا کہ اِس میں خائن ، ٹیکس چور اور عوام کے حقوق پر ڈاکے ڈالنے والے جرائم پیشہ لوگ بیٹھے ہیں اور مشترکہ مفادات نے اُنہیں ایک زنجیر میں باندھ رکھا ہے۔ اُن کی یہ باتیں ایک حد تک حقیقت پسندانہ معلوم ہوتی ہیں ، کیونکہ ہم جس ادارے کو سب سے بالادست کہتے ہیں، اِس میں وزیراعظم اور وزرائے کرام جاتے ہوئے اپنی شان کے خلاف سمجھتے رہے۔ میاںشہبازشریف کا بھی یہی وتیرہ چلا آ رہا ہے۔ دوسرے صوبوں میں بھی اسمبلیوں نے عوام کی زندگی میں سہولتیں پیدا کرنے کے لئے شاذونادر ہی قانون سازی کی ہے۔ اِس تلخ حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا کہ ایم این ایز اور ایم پی ایز وفاق اور پنجاب میں وزیراعظم اور وزیراعلیٰ سے ملاقات نہیں کر سکتے ، کیونکہ اُن کے لئے خودسر سیکرٹریوں کے لگائے ہوئے ناقابلِ عبور بیریئر سے گزرنا محال ہے۔ عام شنید ہے کہ وزیراعظم آفس میں سیاسی اور اسٹرٹیجک فیصلے بھی من پسند بیورو کریٹس ہی کرتے ہیں۔ مشاورت کا عمل انتہائی محدود ہو جانے سے عام آدمی اِس نظام کے اندر اپنی آنر شپ محسوس نہیں کرتا اور سیاسی عمل سے کٹا رہتا ہے۔حکمرانوں کو یہ نہیں سمجھ لینا چاہیے کہ بحران ٹل گیا ہے اور حالات بہتر ہونے لگے ہیں۔ اُنہیں اگر انجامِ بد سے محفوظ رہنا ہے ، تو عوام کے اندر اُٹھنے والی لہروں کی شدت کا صحیح اندازہ لگانا، صحیح کام کے لئے صحیح افراد کا انتخاب کرنا اور اپنے دفتروں اور گھروں کے دروازے عوام کے لئے کھول دینا ہوں گے اور سرکاری اداروں کو جمود سے باہر لانا ہو گا۔ اِس وقت اہم ترین ضرورت یہ ہے کہ عوام جس ناقابلِ برداشت بوجھ کے تلے ہانپ رہے ہیں ، اِس میں فوری کمی لائی جائے۔ حکومت کی پوری مشینری کو ایک ہی ہدف دیا جائے کہ پسے ہوئے شہریوں کو کہاں کہاں ریلیف دیا جا سکتا ہے۔ بڑے منصوبے قومی معیشت کے لئے یقیناً ضروری ہیں ، مگر اُن سے زیادہ ضروری عوام کو معاشی طور پر اپنے پاؤں پر کھڑا کرنا اور مہنگائی ، بدامنی اور لاقانونیت کے عذاب سے نجات دلانا ہے۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ حکومت کا ڈلیوری سسٹم کرپشن اور اقربا پروری کے باعث مفلوج ہو چکا ہے اور کڑے احتساب کے فقدان سے بیوروکریٹس اور بااثر سیاسی خاندان فرعون بنے بیٹھے ہیں۔ شہری حکومتوں کے نہ ہونے سے نچلی سطح تک اختیارات منتقل ہوتے ہیں نہ مالی وسائل۔ اِس طرح عوامی مسائل کے انبار ہر طرف دکھائی دے رہے ہیں۔اِس بدلی ہوئی فضا میں اب حکمرانوں کو اپنے ایک ایک عمل کا حساب دینا ہو گا۔ لوگ سرعام پوچھ رہے ہیں کہ جناب نوازشریف نے جنرل اسمبلی میں بہت اچھی تقریر کی اور کشمیر کا مسئلہ بڑی حکمت اور قوت سے اُٹھایا ہے ، مگر اُنہوں نے مہنگے ترین ہوٹل میں کیوں قیام کیا جبکہ بھارتی وزیراعظم درمیانے درجے کے ہوٹل میں ٹھہرے تھے۔ اب ’’کیوں‘‘ ہر آن اہلِ اقتدار کا تعاقب کرے گا۔امن عامہ کی صورتِ حال بہتر بنانے اور مقامی سطح پر عوام کے مسائل حل کرنے کے لئے بلدیاتی ادارے جلد سے جلد قائم کیے جائیں۔ اِس ضمن میں حکومتوں اور الیکشن کمیشن کو فوری انتظامات کرنا اور قانونی دقتوں پر قابو پانا ہو گا۔ الیکٹرانک ووٹنگ مشینیں ایک ڈیڑھ ماہ کے اندر درآمد کی جا سکتی ہیں اور حلقہ بندیوں کا ایک آسان راستہ دریافت کر لینا بھی ممکن ہے۔ شہری حکومتوں کے قیام سے دل کی آرزو بھی بدل سکتی ہے اور عوام اسلام آباد پر لشکر کشی کرنے والوں کو بالآخر مسترد کر دیں گے اور قانون کے راستے پر چلنے کا عہد کریں گے۔ یہی اصل انقلاب ہو گا۔