ایم کیو ایم سے ڈاکٹر عاصم حسین تک!

August 31, 2016

ایم کیو ایم کی کہانی جاری ہے، اس پر ابھی گفتگو کی ضرورت محسوس ہوتی ہے۔ دو گروہ بھی حسب ِ روایت پیدا ہوچکے ہیں۔ حب الوطنی کا عدم توازن بھی اپنی زیاں کاریوں کی پرورش میں مصروف ہے۔ اس سے پہلے البتہ پاکستان پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کا اچانک ایک ایسا بیان سامنے آن پڑا ہے جس کی حساسیت میں کلام شاید مشکل ہو۔ چیئرمین نے ڈاکٹر عاصم حسین کو سندھ کا ’’سیاسی قیدی‘‘قرار دیدیاہے۔ وہ پاکستان کی سب سے تاریخی جماعت پاکستان پیپلزپارٹی کے چیئرمین اوراپنے پس منظر کے حوالوں سے اس نوعمری میں ایک تسلیم شدہ بین الاقوامی شخصیت ہیں۔ عالمی برادری اور انسانی حقوق کے ملکی اورغیرملکی ادارے ان کے اس بیان کو انسان کے بنیادی حقوق کی نفی کے تناظر میں پاکستان کی موجودہ منتخب حکومت کو آزمائش میں ڈال سکتے ہیں۔ ڈاکٹرعاصم حسین کی گرفتاری کو آغاز میں نہایت ’’اسکینڈلائز‘‘ کرنے کی کوشش کی گئی۔ ایسا لگتا تھا پاکستان ہی نہیں جنوبی ایشیا بلکہ چاروں براعظموں میں جتنے مالیاتی اسکینڈلوں نے جنم لیا وہ ڈاکٹرعاصم حسین کے ذہن رسا اور بداعمال کے شاہکار ہیں۔ شروع میں ڈاکٹر عاصم حسین کے بارے میں ’’لجلجہ‘‘ سا آدمی ہے، ایک آدھ دن میں چت ہوجائے گا، کی افواہ بازیوں کا اسٹریٹجی سیل بھی شب و روز مصروف رہا۔ اِدھر ’’لجلجہ آدمی‘‘ اپنی جگہ اوراپنے موقف سے ایک انچ بھی ابھی تک دستبردار نہیں ہوا۔ الٹا اس کا یہ بیان ریکارڈ پر ہے کہ ’’یہ لوگ مجھے طوطے کی طرح بلوانا چاہتے ہیں‘‘ چیئرمین بلاول بھٹو کا پہلی بار ڈاکٹر عاصم حسین کو ’’سیاسی قیدی‘‘ ڈکلیئر کرنا منتخب حکومت اورریاستی اداروں کو آسانی سے ہضم نہیں ہوگا جیسے آصف علی زرداری کی سیاست ان لوگوں کو ہضم کرنا مشکل ہوتی ہے جنہیں اپنے منصوبے آسانی سے کامیاب کرنے کی عادت ہے۔ طالب علم کو ابھی گزشتہ دنوں ایک جواں سال کالم نگار کے الفاظ نہیں بھولتے۔ اس نے لکھا تھا ’’تاریخ بتائے گی 2016 کے ان مہینوں میں آصف علی زرداری نے ملک سے باہر رہ کر کس کس طرح جمہوری نظام کے تسلسل کو بچایا۔‘‘
شروعات کی طرف پلٹتے ہیں۔ تو ایم کیو ایم کی کہانی میں ابھرنے والے دو گروہوں میں سے ایک ایم کیو ایم کو قومی دھارے میں شامل رکھنے پر ڈٹا ہواہے، اسے آج کے عصر میں فکری اور سیاسی تحریکوں کو پابند کرنے کے اجتماعی نقصانات بلکہ متوقع انارکی کااندازہ ہے۔ اس قبیلے کو پاکستان کا دولخت ہونا بھی نہیں بھولتا۔ ان دنوں بھی ’’مشرقی پاکستان‘‘ کی اکثریت کو جبر اً بے دخل کرنے یااس پہ اپنی مرضی مسلط کرنے کا جنون سوار تھا۔ دوسرے گروہ کی ایم کیو ایم کے سلسلے میں بھی یہی اپروچ کام کر رہی ہے۔ جو لوگ اس پر پابندی، اس کے ارکان اسمبلیوںکو مستعفی ہوجانے کا حکم دے رہے ہیں، وہ بنیادی طور پر ’’مشرقی پاکستان‘‘ کو علیحدہ کرنے جیسی سوچ ہی کے نمائندہ ہیں۔ انہیں ایک الطاف حسین کو جواز بنا کر ان اردو بولنے والے جانثار پاکستانیوں کو بھی الطاف کی طرح ’’غداروں‘‘ کے زمرے میں لانے پر خوف ِ خدا سے کام لینا چاہئے۔ اس کبیرہ گناہ جیسی جسارت پر چاہے ان کا ضمیر نہ کانپے پاکستان کی دھرتی ضرور کانپ جاتی ہے! تاریخی لحاظ سے اس گروہ کو اجتماعی طور پر ’’دایاں بازو‘‘ کہا جاتا ہے۔ یہ اسباب کے فطری قانون کو پیش نظر رکھنے کا کبھی عادی نہیں رہا۔ موجود ’’وقوعے‘‘پر شور و غوغا، چیخم دھاڑ، لپاڈگی اور نفرین و استحقار کی طوفان خیزی برپا کرنے کا ماسٹر ہے۔ اسے کبھی ’’وقوعے‘‘ کاپس منظر جاننے، سمجھنے اور برتنے کی توفیق نہیں ہوئی۔ چنانچہ ’’اس کائنات میں ہر وقوعے کا ایک سبب ہے‘‘ کا قدرتی قانون ہمیشہ اس کی منجمد کھوپڑی کے اوپرسے گزر جاتا ہے، یہی عادت ہے جس کے غلغلے سے پتہ نہیں کتنی ہزارویں بار الطاف حسین کے حصے میں یہ لوگ عوام کو دھیرج اور ادراک سے ایم کیو ایم کا مسئلہ جذب کرنے کا موقع ہی نہیں دے رہے۔ ان سے پوچھا جاسکتاہے۔ اچھا بھائی! الطاف کے ساتھ یہ تمام اردو بولنے والے، یہ سارے قومی اورصوبائی اسمبلیوں کے ارکان ’’غدار‘‘ کیسے ہوگئے؟ اگر ایسا ہی ہے تب بقول شخصے ’’ریاست اور ایجنسیوں نے 30برس تک ایم کیو ایم کی پرورش کی‘‘ کے سوال کا کیاجواب دو گے؟ کیا یہ پورا سچ نہیں ہے؟ ہر مہاجر اگر آخری پیڑھی تک غدار تھا تب ’’ن‘‘ لیگ اور پیپلزپارٹی دونوں نےایم کیو ایم کے ساتھ اشتراک ِ اقتدار کیونکر کیا؟جو ذمہ دارہے جس نے وطن پر حرف زنی کی، جس نے تقسیم کو سوالیہ نشان بنایا، جس نے جھنڈا جلایا، اس کے ساتھ ا ن د ونوں جماعتوں کے اشتراک ِ اقتدار کے فعل کو ان کی ’’غداری‘‘ پر کیوں محمول نہیںکرتے؟ قومیں اپنے ذہنی گنبد میں بیٹھ کر فیصلہ نہیں کیاکرتیں، پہاڑ جیسی بلندی اور سمندر جیسی وسعت جیسا وژن درکار ہوتاہے۔ الطاف کی سوچ نے پاکستان کی بے ادبی کی ہے؟ مہاجر قومیت کی باقی قیادت، تمام گروپوں اور مہاجر عوام سمیت اس سے لاتعلقی اور نفی کا انگوٹھا لگا چکے، اس لئے ہمارے ان کروڑ دو کروڑ پاکستانی بھائیوں کو ہم سے جدا کرنے کی ’’وطن دشمنی‘‘ سے باز آئو۔ ایم کیو ایم کے تمام ارکان اسمبلی کو الطاف کی ’’غداری‘‘میں تسلسل کرکے انہیں مستعفی ہونے کی دھمکی دینا، انہیں بھی اس کے ساتھ نتھی کرنا پورے مہاجر عوا م پر ’’غداری‘‘کی ناقابل معافی تہمت لگانے کے مترادف ہے۔ اس پر ضدکرنےسے پہلے پھر اس صف میں ’’ن‘‘لیگ اور پیپلزپارٹی کو بھی شامل کرو جنہوں نےایم کیو ایم کو ملک کی حکمرانی کا حصہ بنائے رکھا۔ یہ کروڑ دو کروڑ پاکستانی ہمارے ساتھ یک جان دو قالب ہیں۔ تم ایک ناقابل قبول شخص کو جواز بنا کرانہیں ہم سے علیحدہ کرناچاہتے ہو، تف ہے تمہاری سوچ پر!
سندھ کے وزیراعلیٰ مراد علی شاہ نے پاکستان کی اس ایک اور بڑی سیاسی آزمائش کے لمحے میں حب الوطنی کے اس ضمیر کااظہار کیا جو واقعی حب الوطنی ہوتی ہے۔ جس سے ملک قائم رہتے، قومیتیں جڑتیں اور دھرتی کا سینہ فخر سے پھول جاتاہے۔ جب وہ آئی جی سندھ کو ایم کیوایم کی ’’خواتین کی ضمانت کے کیس میں آسانی پیدا کریں‘‘ کی ہدایت دیتے ہیں۔ وہ الطاف حسین کی تائید نہیں پاکستان کی سالمیت کا عَلم سنبھالتے ہیں۔ ’’ن‘‘ لیگ اور پیپلزپارٹی کے اشتراک ِاقتدار کی بھی اصل تعبیر و تفسیر یہی ہے۔ دونوں قومی جماعتوں نے ایم کیو ایم کو ساتھ ملا کر اصل میں الطاف کی اصل نیت پوری نہیں ہونے دی یعنی مہاجر قومیت کو پاکستان سے قطعاً علیحدہ نہیں ہونے دیا۔آج الطاف پاکستان سے ’’باہر‘‘ کھڑا ہے اورمہاجر قومیت نے پاکستان کو سائبان کی طرح اپنے اوپرتان لیاہے۔ جو لوگ اس گھڑی ایم کیو ایم کو قومی دھارے سے باہر رکھنے کا سبب والا کوئی بھی فارمولا پیش کرتے ہیں کسی بھی ایسی ’’عظیم پاکستانیت‘‘ کامظاہرہ کرتے ہیں اصلاً وہ الطاف کا مقصدپورا کریں گے۔ نوازشریف اورآصف علی زرداری جیسے رہنمااس ذہنی مفلسی سے کوسوں دور براجمان ہیں۔تحریک انصاف اور چند دوسرے عناصر کے علاوہ پوری قوم ان جیسے رہنمائوں کی فکر کے ہمرکاب ہے!
پنجاب میں قومی میڈیا کے فیصلہ کن اکثریتی حصے نےایسے ہی انداز ِ نظر کااظہار کیاہے۔ دانشوروں، کالم نگاروں اور اداریہ نویسوں کی اس فیصلہ کن اکثریت نے الطاف کو مستردکرنے میں ایک لحظہ کے لئے توقف نہیں کیا۔ ساتھ ہی ایک لحظہ کے لئے باقی ایم کیو ایم اور مہاجر قومیت کی پاکستانیت پر کسی قسم کے نظریاتی تردد کو اپنے ہاں جگہ نہیں دی۔ مشرقی پاکستان کے تجربے سے پنجاب کے اہل فکر و نظر نے سیکھا ہے۔ وہ بدقسمتی ان کے افکار کی جڑیں تبدیل کرچکی، تحریک انصاف ہو بالخصوص مذہبی عناصر یا ان کے پیروکاروں کو بھی ایسی ہی پاکستانیت کا دامن وا کرناچاہئے جن میں وہ سب سما سکیں جنہیں کسی نےاپنی لیڈری کے نام پر ’’گمراہ‘‘کیا، حقوق کے نام پر ان کی وطن پرستی کو امتحان میں ڈالا!

.