قومی ترقی کا بنیادی خاکہ

September 01, 2016

قیام پاکستان سے اب تک جتنی بھی حکومتوں نے اقتدار سنبھالا ہے سب ہی نے ملک کی سماجی اور اقتصادی ترقی کے چار وں اہم ترین ستونوں کو نظر انداز کیا ہے یعنی1۔تعلیم 2 ۔ سائنس ٹیکنالوجی اور جدت طرازی 3 ۔فوری اور مؤثر نظام عدل کا قیام 4۔ایک با بصیرت ، ایماندار اور تکنیک کی ماہر حکومتی کابینہ کا قیام۔اب بھی اگر ان چاروں ستونوں پر عملدرآمد کیا جائے تو ہمارا ملک ترقی پزیر سے ترقی یافتہ ملک بن سکتا ہے۔ سائنس اور ٹیکنالوجی کو ملک کی ترقی کے لئے بھر پور استعمال کرنے کے لئے حکومتی پالیسیوں کی مکمل تشکیل نو کی ضرورت ہے تاکہ ایک مضبوط علم پر مبنی معیشت قائم ہو سکے اس کے لئے نجی کاروباری حضرات اور سرمایہ کاروں کی حوصلہ افزائی کرنا ہوگی تاکہ تعلیمی و تحقیقی ادارے ان کے تعاون سے کام کر سکیں اور نجی صنعتوں میں تحقیقی ادارے قائم ہوں۔ آج ہم جس دور میں ہیں اسے عالمی اقتصادی فورم کے تحت’’ تکنیکی انقلاب‘‘ یا ’’چوتھا صنعتی انقلاب‘‘ قرار دیا گیا ہے۔ یہ دور تیزی سے ہماری زندگی کے ہر شعبے پر اثر انداز ہو رہاہے ۔ نئی ٹیکنالوجیوں کی آمد نے ننھی، چھوٹی اور درمیانے درجے کی کمپنیوںکو عالمی منڈی تک رسائی میں کافی مدد دی ہے۔ جس کی بدولت ابھرتی ہوئی معیشتوں کو فروغ حاصل ہو رہا ہے۔
مستقبل کی اہم دولت ، علوم تک رسائی اور ان کثیر معلومات کے بل بوتے پر منڈیوں کے رجحانات کی درست پیشں گوئی کی صلاحیت ہوگی۔ اعلیٰ ٹیکنالوجی کی صنعتیں دولت کے حصول کا سب سے اہم ذریعہ ہیں۔ موجودہ دہائی میں ایک اور ا ہم عنصرجدت طرازی ہے۔ اس کے تحت نئی صنعتوں کے لئے سہولتوں کی فراہمی ، کاروبار کے لئے قرضوں کی سہولت اور ایسی حکومتی پالیسی شامل ہیں جو کہ کاروبار کے ساتھ نجی شعبے میں تحقیق و ترقی کو فروغ دے سکیں ۔ ڈیجیٹل ٹیکنالوجی بھی اب اس ترقی کا اہم حصّہ ہیں۔ 2001ء میں اسی اہمیت کو مد نظر رکھتے ہوئے میںنے بحیثیت وفاقی وزیر برائے سائنس و ٹیکنالوجی (جس میں اس وقت انفارمیشن ٹیکنالوجی اور ٹیلی مواصلات کا شعبہ بھی شامل تھا ) پاکستان کے آئی ٹی کے شعبے پر توجہ مرکوز کرنے کا فیصلہ کیا اور اس شعبے میں پاکستان کی صلاحیتوں کو بروئے کار لانے کے لئے آئی ٹی کی صنعت کو پندرہ سالہ ٹیکس کی چھوٹ دی گئی جو اس سال ختم ہوگی۔ہم نے ہزاروں طلبہ کو پی ایچ ڈی کی سطح پر تربیت کے لئے بیرون ملک بھیجا تا کہ یہ ہونہار طلبا آئی ٹی کے مختلف شعبوں میں معیاری تعلیم حاصل کرکے پاکستان میں آئی ٹی کی تعلیم دے سکیںاور کاروبار شروع کر سکیں۔اس کے ساتھ کافی تعداد میں آئی ٹی کے تعلیمی ادارے قائم کئے تاکہ آئی ٹی کی معیاری تعلیم کو فروغ دیا جاسکے۔ ان اقدامات کے نتائج نہایت شاندار نکلے۔ اس کا اندازہ 10اگست 2015ء میں ایک مشہور امریکی اخبار ’’نیو یارک ٹائمز‘‘ میں شائع اس رپورٹ سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے جس میں لکھا گیا ہے کہ ـ’’ پاکستان میں شعبہ آئی ٹی کا کاروبار 2.8ارب ڈالر سالانہ تک پہنچ گیا ہے (جبکہ 2001 ء میں یہ کاروبار صرف 30 لاکھ ڈالر سالانہ تھا)۔ آج آزاد پیشہ ور پروگرامنگ کی منڈی میں پاکستان دنیا میں تیسرے نمبر پر آچکاہے جس سے سافٹ وئیر برآمدات 850 لاکھ امریکی ڈالر سالانہ ہیں یعنی صرف امریکہ اور بھارت کے بعدپاکستان کا شمار ہوتا ہے‘‘۔
پاکستان کو ایک مضبوط علمی معیشت بنانے کے لئے ہمیں سائنس ، ٹیکنالوجی اور جدت طرازی پر بھر پور توجہ مرکوز کرنی ہوگی اور انہیں ہی ترقی کا ذریعہ بنانا ہوگا۔ ذیل میں کچھ اہم اقدامات کا ذکر کرہا ہوں ان میں سے چند اقدامات کے بارے میں میں پہلے ہی اقوام متحدہ کی سائنس، ٹیکنالوجی اور جدت طرازی کی کمیٹی کی صدارت کے دوران اپنی ترجیحات کے طور پر پیش کر چکا ہوں:
1 ۔ سائنس ، ٹیکنالوجی اور جدت طرازی کی حکمت عملی اور ان کا عملی منصوبہ:
قلیل مدتی، درمیانہ مدتی اور طویل مدتی نہایت واضح اور شفاف حکمت عملی پر مبنی عملی منصوبے تشکیل دئیے جائیں تاکہ سائنس، ٹیکنالوجی اور جدت طرازی کو تمام سرکاری شعبوں ، صنعت و زراعت سے لے کر صحت ، مواصلات اور سماجی سرگرمیوں میں شامل کیا جاسکے ۔
2۔موزوںقیادت کی فراہمی:
سائنس، ٹیکنالوجی اور جدت طرازی نظرئیے کی حمایت کے لئے اسے وزیر اعظم کی سطح پر مؤثر قیادت کی ضرورت ہے اور اس پر عملدرآمد کو یقینی بنانے کے لئے اس کے آفس کو وزیر اعظم کے دفتر ہی میں قائم کیا جائے۔
3۔ مشقیں:
پائیدار ترقیاتی اہداف کو مد نظر رکھتے ہوئے پیش بین مشقیں باقاعدگی سےکی جائیں اس میں ہر مخصوص شعبے سے متعلق وزارتوں کو اور نجی شعبوں میں سرمایہ کاروں کی مربوط مشاورت سے علم پر مبنی معیشت میں منتقلی کے لئے ایک فعال جدت طرازی نظام تشکیل دینے میں مدد مل سکے گی۔
4۔ منصوبے کے لئے سرمایہ کاری:
اس پالیسی کے نفاذ کے لئے مناسب فنڈز مختص کرنے کی ضرورت ہے جس میں تحقیق وترقی کےلئے GDP کا کم از کم 4% حصہ مختص کیاجائے جسے بتدریج بڑھاکر کا6% پر لے جایا جائے۔
5۔ ادارتی اصلاحات:
ادارتی اصلاحات اور ان کے تحت ادارتی تنظیم نو ترتیب کرتے وقت اعلیٰ تعلیم اور تحقیق کے وہ ادارے جوپہلے ہی سے سائنس، ٹیکنالوجی اور جدت طرازی میں اعلیٰ و معیاری خدمات انجام دے رہے ہوں انہیں’’ قومی تحقیقی ادارے‘‘ کا درجہ دے کر دنیا کے چوٹی کے اداروں کے مقابلے میں لے جانے کا مربوط منصوبہ بنایا جائے تاکہ ہم مختلف شعبوں میں بہترین ادارہ قائم کر سکیں ۔
6۔ نجی صنعت کی معا ونت اور ترقی کی حمایت کی جائے تاکہ ملک میں علم پر مبنی معیشت کے قیام کے لئے نجی صنعت کی بامقصد شراکت داری شامل ہو:
انتہائی ہنرمند افراد کی بھرتی اور چھوٹی اور بڑی صنعتوں کے لئے سرکاری فنڈز کی فراہمی کےذریعے ہم نجی صنعت کی (absorptive capacity) بڑھا سکتے ہیں تاکہ وہ اندرونی اور بیرونی علوم کو اعلیٰ تکنیکی مصنوعات کی بر آمدات اور تیاری کے لئے منافع بخش انداز سے استعمال کر سکیں۔
7۔ اعلیٰ تکنیکی مصنوعات کی تیاری اور بر آمدات کو فروغ دیا جائے :
اعلی تکنیکی صنعتوں کو ـ’’خصوصی درجہ ‘‘ دیکرطویل معیاد کی ٹیکس چھوٹ دی جائے تاکہ اعلیٰ تکنیکی شعبوں میں مصنوعات کی تیاری اور برآمدات کو فروغ حاصل ہو، نئی اعلیٰ تکنیکی صنعتوں کو مالی نقصان کی صورت میں سرکاری بیمے کا تحفظ فراہم کیا جائے۔ اور جدت طرازی فنڈ قائم کیا جائے جو کہ اندرون ملک نجی و سرکاری اعلیٰ تکنیکی صنعتوں کو فروغ دے سکے۔
8 ۔ قومی تعلیمی ایمرجنسی کا نفاذ:
پاکستان میں تعلیم کی ابتر حالت کو قابو کرنے کے لئے قومی تعلیمی ایمرجنسی کا نفاذ کیا جائے اور حکومت کو اپنی GDP کا 10%حصہ تعلیم تک رسائی او ر معیاری بنیادی ، ثانوی ، ٹتکنیکی ، فنی اور اعلیٰ تعلیم کی بہتری کے لئے مختص کرنالازمی قرار دیا جائے۔
9۔عالمی معیار کی تحقیق:
قومی اداروں میں تحقیق کا معیار بہتر بنانے کے لئے انہیں بہترین بین الاقوامی اداروں سے منسلک کیاجائے۔ عالمی معیار کے تحقیقی ادارے قائم کئے جائیں جن کو صنعت و زراعت کے شعبوں سے منسلک کیا جائے۔
10۔انتہائی مستند افرادی قوت:
اعلیٰ و معیاری پیشہ ور افراد اور تکنیکی تربیت یافتہ افرادی قوت کی 6 لاکھ افراد پر مشتمل ایک طاقتور قو می علمی فوج قائم کی جائے (یعنی تحقیق و ترقی میں مصروف تقریباً 3000 اعلیٰ مستند پیشہ ور افراد فی دس لاکھ کی آبادی کے تناسب سے ہوں)۔ اس صورتحال کے حصول کے لئے تنخواہوں اور دیگر مراعات میں انقلابی تبدیلی لانے کی ضرورت ہے۔ اس طرح قابل افراد کی بیرون ملک روانگی کا سلسلہ کم ہو گا، اور قابل تارکین وطن افرادبھی وطن کی جانب راغب ہونگے اس طرح مستقبل میں پیشہ ور افراد کے دائرے میں توسیع و ترقی ہو گی۔
11۔ صنعتی و علمی حلقے:
تکنیکی تربیتی اداروں کے باہمی تعاون سے علاقائی صنعتی حلقے قائم کئے جائیں ۔جہاں اعلیٰ تکنیکی صنعتی پیدا وا ر کو یقینی بنایا جا سکے۔ چین پاک اقتصادی راہداری کو ایسی تمام صنعتیںجو انجینئرنگ کا سامان،دفاعی مصنوعات،بائیوٹیکنالوجی مصنوعات ،اور ادویات وغیرہ کی تیاری اور برآمدات کرتی ہیں ان کو صنعتی اور علمی حلقہ بنا یا جائے۔
12۔پیمائش، معیا ر اور جانچ کے ادارے :
مسلسل اعلیٰ مصنوعات کی تیاری اور برآمدات کو آسان بنانے کے لئے ٹھوس پیمائش کے بین الاقوامی معیار اور جانچ کے ادارے قائم کئے جائیں۔
13۔غیر ملکی براہ راست سرمایہ کاری کو ٹیکنالوجی کی منتقلی کا ذریعہ بنایا جائے:
ہمارے ترقیاتی منصوبہ بندی ڈویژن کو تمام غیر ملکی امداد اور براہ راست سرمایہ کاری منصوبوں کی منظوری کے لئے ٹیکنالوجی کی منتقلی کو لازمی قرار دینا چاہئے ۔ ان منصوبوں کے کم از کم 5% حصے کو افرادی تربیت کے لئے علیحدہ کیا جا ئے تاکہ قوم خود انحصار ی کی جانب بڑھ سکے۔ مندرجہ بالا اقدامات کے نفاذ کے لئے نہایت ضروری ہے کہ ہماری حکومت کے وزراء اعلیٰ درجے کے ٹیکنوکریٹس ہوں جو کہ آج کی علم پر مبنی معیشت کی اہمیت کو سمجھتے ہوں اور پاکستان کو اس راستے پر گامزن کر سکیں جس پر کوریا اور سنگاپور گامزن ہیں۔



.