افغانستان نے فضائی راستے بھارت سے تجارت شروع کردی

September 01, 2016

لاہور(صابر شاہ) پاکستان نے ڈیورنڈ لائن پر کشیدگی کی وجہ سے افغانستان کے ساتھ سرحد بند کردی ہے، جس کے بعد کابل حکومت نے بھارت کے ساتھ افغان مصنوعات بشمول پھلوں کو فضائی راستے سے بھیجنے کا معاہدہ کرلیا ہے۔ افغان چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹریز کے حکام نے بتایا کہ پاکستانی راستے کی بندش کی وجہ سے افغان تاجروں کو نقصان ہورہا تھا جس کے بعد یہ معاہدہ کیا گیا۔ انہوں نے بتایا کہ پھل سمیت بعض اجناس منگل کو بھارت روانہ کردی گئی ہیں اور بھارتی حکومت نے ان پر ٹیکس چھوٹ دینے پر اتفاق کیا ہے۔ افغان نیوز ایجنسی خامہ پریس کے مطابق ڈیورنڈ لائن پر چمن کے قریب ٹرانزٹ روٹ بند ہونے کی وجہ سے یہ پیش رفت ہوئی۔ افغان مظاہرین کے پاکستانی چیک پوسٹ پر حملے اور پرچم نذر آتش کرنے کی وجہ سے دوستی گیٹ بند ہوگیا تھا۔ دونوں ملکوں میں قبل ازیں گیٹ کی تنصیب کے مسئلے پر کشیدگی کافی بڑھ گئی تھی اور دونوں ملکوں کی افواج میں جون میں فائرنگ کا تبادلہ بھی ہوا تھا۔ بھارت و افغانستان کے تجارتی تعلقات۔ دونوں ملکوں کی 2014-15 میں تجارت کا حجم 684.47 ملین ڈالر رہا، جو ایک سال قبل کے حجم 683.10 ملین ڈالر سے 0.2 فیصد زیادہ جب کہ 2010-11 کے 568.44 ملین ڈالر سے 20.41 فیصد زیادہ ہے۔ 2014-15 میں بھارت کی افغانستان کو برآمدات 422.56 ملین ڈالر کی تھیں جب کہ درآمدات 261.91 ملین ڈالر تھیں۔ براہ راست زمینی رسائی نہ ہونے کے باوجود بھارت سب سے زیادہ افغان مصنوعات درآمد کرنے والا دوسرا بڑا ملک ہے۔ پاک افغان تجارتی تعلقات ۔ وزیر تجارت خرم دستگیر نے سینیٹ کو مطلع کیا تھا کہ دونوں ممالک کے درمیان تجارت کا موجودہ حجم 2.28 ارب ڈالر ہے۔ بھارت افغان تعلقات کے حقائق ۔بھارت 1980 کے عشرے میں سوویت حمایت یافتہ افغانستان جمہوریہ کو تسلیم کرنے والا واحد جنوب ایشیائی ملک تھا. بھارت نے طالبان حکومت کا تختہ الٹنے میں مدد کی۔ اور پھر افغانستان کو سب سے زیادہ انسانی بنیاد پر اور تعمیر نو کی مدد فراہم کرنے والا علاقائی ملک بن گیا۔ کابل میں 7 جولائی، 2008 کو بھارتی سفارتخانے پر بم حملے، جس میں 58 افراد ہلاک ہو گئے تھے کے بعد، افغان وزارت خارجہ نے بھارت کو "برادر ملک" قرار دیا۔ نیویارک ٹائمز کی رپورٹ میں اس حملے کا الزام بلواسطہ طور پر پاکستان پر عائد کیا گیا جس کی پاکستان نے تردید کی۔ برطانوی صحافی کرسٹینا لیمب نے بتایا کہ اس کے بعد امریکی صدر جارج ڈبلیو بش نے پاکستان کے وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی سے بات کی اور آئندہ حملے کی صورت میں سنگین کارروائی کی دھمکی دی۔ یہ کوئی راز نہیں ہے کہ 2001 ء میں افغانستان پر امریکی حملے کے دوران بھارت نے اتحادی افواج کو انٹیلی جنس اور دیگر طرح کی مدد کی پیشکش کی. طالبان حکومت کے خاتمے کے بعد بھارت نے نئی جمہوری حکومت کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کیے۔ بھارت نے اب تک افغانستان کو 650 سے 750 ملین ڈالر کی مدد فراہم کی ہے۔ بھارت وسطی اور جنوبی ایشیا کے ممالک کے ساتھ اقتصادی تعاون اور نقل و حمل کے رابطے کو بہتر بنانا چاہتا ہے. بھارت نے 2012 تک افغانستان میں 10.8 بلین ڈالر کی سرمایہ کاری کی ہوئی ہے. نیٹو کے انخلا کے بعد اس طرح کے مزید منصوبے شروع ہونے کا امکان ہے. ان میں لوہے کی کانیں بنانا، اسٹیل پلانٹ، 800 میگاواٹ پاور پلانٹ، پن بجلی پاور پروجیکٹس، ٹرانسمیشن لائنیں اور سڑکوں وغیرہ کا قیام شامل ہے۔ بھارت نے افغانستان کی ہرات میں سلمیٰ ڈیم بنانے میں بھی مدد کی ہے۔ بھارت اور ایران میں جلد افغانستان کو مصنوعات کی فراہمی کا ایک ٹرانزٹ معاہدہ بھی ہونے والا ہے۔ بھارتی حکومت ایران میں چابہار کی بندرگاہ میں بھی 10 کروڑ ڈالر سے زیادہ کی سرمایہ کاری کررہی ہے۔ 4 جنوری 2016 کو بزنس اسٹینڈرڈ کی رپورٹ میں کہا گیا کہ گزشتہ ڈیڑھ دہائی میں بھارت اور افغانستان میں مضبوط تعلقات استوار رہے۔ یہ سلسلہ طالبان حکومت کے ختم ہونے کے ساتھ شروع ہوا۔ بھارت نے افغانستان کو تین روسی ساختہ ایم آئی 25 ہیلی کاپٹر بھی دیے ہیں۔ 25 دسمبر 2015 ء کو بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی اور افغان صدر اشرف غنی نے مل کر نو تعمیر شدہ افغان پارلیمنٹ کی عمارت کا افتتاح کیا تھا. یہ عمارت بھارت نے 8 کروڑ ڈالر کی لاگت سے تعمیر کی۔ بھارت اب تک افغانستان کی 2 ارب ڈالر تک مالی امداد بھی کرچکا ہے۔ 23 مئی 2016 کو الجزیرہ کی رپورٹ میں کہا گیا کہ بھارت، ایران اور افغانستان نے پاکستان کو بائی پاس کرتے ہوئے چابہار کو ٹرانزٹ مرکز بنانے کا معاہدہ کیا ہے۔ یہ منصوبہ بھارت کو افغانستان اور وسطی ایشیا سے ملائے گا اور کابل کو بحر ہند جانے کےلیے متبادل راستہ مل جائے گا۔ مودی اور روحانی نے 50 کروڑ ڈالر سرمایہ کاری کی مفاہمت کی یادداشت پر دستخط کیے۔ اس طرح اب افغان حکام کی بظاہر پاکستان کے ساتھ تجارتی معاہدوں میں دلچسپی ختم ہوگئی ہے۔ 11 اپریل 2016 کو ایران، بھارت اور افغانستان نے اس معاہدے کی تفصیلات کو حتمی شکل دے دی تھی۔