امریکہ ،چین عالمی ماحولیاتی معاہدہ

September 05, 2016

کاربن ڈائی آکسائیڈ کے غیر معمولی اخراج کی وجہ سے کرۂ ارض کی بقاء اور سلامتی کو جو شدید خطرات لاحق ہوتے جارہے ہیں اس سے دنیا کے تمام مہذب ممالک میں تیزی سے یہ احساس پیدا ہورہا ہے کہ اگر گرین ہائوس گیسزکے اخراج پر قابو پانے کے لئے ٹھوس اقدامات نہ کئے گئے تو اس سے سطح زمین پر درجہ حرارت میں اتنا زیادہ اضافہ ہوتا جائے گا جس سے آئندہ چند ہی عشروں کے اندر اندر دنیا کے متعدد ممالک میں لوگوں کی زندگی گرمی کی شدت اور پانی کی کمی کی وجہ سے اتنے شدید خطرات سے دوچار ہوجائیں گی کہ جس سے ماحولیات پر ایسے منفی اثرات مرتب ہوں گے جو انسانی زندگی کو معدومیت کی سرحدوں تک لے جاسکتے ہیں، جبکہ بڑے پیمانے پر گلیشیرز کے پگھلنے کے باعث کئی سمندر کی سطح میں اتنا اضافہ ہوجائے گا کہ کئی ساحلی شہروں کے معدوم ہوجانے کا خطرہ پیدا ہوسکتا ہے جبکہ سمندروں کے درجہ حرارت میں اضافے سے آبی حیات کے لئے بھی شدید خطرات پیدا ہوسکتے ہیں۔ اس صورتحال سے نمٹنے کیلئے احساس تو عرصہ سے موجود تھا اور گرین ہائوس گیسز کے اخراج کو کم کرنے کیلئے اقدامات بھی کئے جارہے ہیں لیکن جس سطح کے یہ خطرات ہیں اور جس تیزی سے ان میں اضافہ ہورہا ہے ان سے نمنٹے کے لئے جو کچھ کیا جانا چاہئے وہ ابھی تک نہیں ہوسکا ۔اسی تناظر میں ہفتہ کے روز چین کے شہر بانژدا میں جی 20گروپ کے رکن ممالک کے اجلاس میں امریکہ اور چین دو بڑے ممالک کے درمیان جس عالمی ماحولیاتی معاہدہ کی توثیق کی گئی ہے اسے اس ضمن میں ہونے والی پیش رفت کے حوالے سے ایک نہایت اہم سنگ میل قرار دیا جاسکتا ہے اور صدر اوباما کا یہ کہنا بالکل درست ہے کہ انہوں نے یہ معاہدہ کرکے بالآخر اس سیارے کو تباہی سے بچانے کا فیصلہ کرلیا ہے۔ توقع کی جانی چاہئے کہ پاکستان اور جنوبی ایشیاء کے دوسرے ممالک بھی اس سلسلے میں اپنی ذمہ داریاں پوری کرنے کے لئے ضروری اقدامات کرنے میں کوئی وقیقہ فروگزاشت نہیں کریں گے۔