ایم کیو ایم کی داستان ِحسرت

September 25, 2016

ایم کیو ایم جس کا اصلی نام مہاجر قومی موومنٹ تھا اس کے بانی الطاف حسین تھے ۔پاکستان ٹیلی وژن کی پالیسی کے تحت جب تک اس کا نام مہاجر قومی موومنٹ تھا۔ ٹیلی وژن سے ایم کیو ایم کا حوالہ دیا جاتا تھا کیونکہ مہاجر کا لفظ قومی ترجمانی نہیں کرتا تھا اس لفظ مہاجر کو زائل کرکے متحدہ قومی موومنٹ بنا دیا گیا تاکہ ایم کیوایم قومی دھارے میں شامل ہو جائے الغرض ایم کیو ایم صرف الطاف حسین کے نام سے پہچانی جاتی تھی۔ الطاف حسین کی اجارہ داری کو ختم کرنے کیلئے ہر 10بارہ سال بعد ایم کیو ایم پر عتاب آتا رہا اورایم کیو ایم اس کو جھیلتی رہی ہے ۔کبھی قائد کا غدار موت کا حقدار ٹھہرا، کبھی منزل نہیں قائد چاہئے اور آخر میں مائنس ون (الطاف حسین کے بغیر)کا فارمولا بھی اسی رابطہ کمیٹی نے مسترد کردیا تھا۔
ایم کیو ایم کو تقسیم کرنے کی کوششیں رائیگاں گئیں اور اردو بولنے والے مہاجرین کا ووٹ بینک 90فیصد ثابت قدم رہا اور الطاف حسین کی مرضی کا عمل دخل رہا ۔کہتے ہیں کہ ان کے حکم پر کراچی بند ہوتا تھا۔بھتے کی روایت بھی انہوں نے ڈالی۔عیدین پر فطرہ ،زکوٰۃ اور کھالوں کی چھینا جھپٹی میں بھی ان کا عمل دخل تھا ۔سب سے خطرناک عمل پارٹی میں دہشت گردوں کی شمولیت تھی جس سے بڑے بڑے مخالفین کو موت کے گھاٹ اتار دیا جاتا تھا اور کسی کو ان کے خلاف آواز اٹھانے کی جرات نہیں ہوتی تھی ۔خود ان کی اپنی پارٹی کے بانی عظیم طارق ، ڈاکٹر عمران فاروق وغیرہ بھی اس کا نشانہ بنے اور آج تک کوئی ثبوت نہ مل سکا۔البتہ میڈیا نشان دہی کرتا رہا۔1992ء کے فوج اور پولیس ایکشن میں حصہ لینے والے بیشتر پولیس اہلکاروں کو ایک ایک کر کے موت کے گھاٹ اتار دیا گیا ۔میڈیا کے لوگ بھی ان سے نہ بچے اور ہر مخالف لیڈر ، وکلا ء سب ان کے ہاتھوں مارے گئے۔12مئی جس میں پورا کراچی کشت و خون میں ڈوبا رہا جس کی سرپرستی میں خود صدر پرویز مشرف بھی ملوث تھے ۔صرف چیف جسٹس افتخار چوہدری کو سبق دینے کیلئے ان کو کراچی شہر میں داخل نہیں ہونے دیا گیا ۔ کراچی کے نو منتخب مئیر جو جیل سے نظامت چلا رہے ہیں اب وہ بھی قبول کررہے ہیں کہ لندن والوں کے حکم پر یہ خون کی ہولی کھیلی گئی تھی۔ عوام یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ اتنے پختہ الزامات کے باوجود الطاف حسین کا طلسم کیوں نہیں ٹوٹ سکا ؟؟
چند ماہ قبل بھی ان کی پارٹی کے مقبول ترین لیڈر کراچی کے سابق مئیر مصطفی کمال اور ایم کیو ایم کے چیدہ چیدہ افراد نے ایک نئی پارٹی تشکیل دے کر کراچی کے ووٹرز کو تقسیم کرنے کی پوری کوشش کی گئی ۔ رابطہ کمیٹی کے ارکان کو کام کرنے سے روکا گیا اور الطاف حسین کے خطابات پر پابندیاں لگیں ۔پھر اچانک الطاف حسین نے رینجرز ، پولیس کے خلاف بیان دیتے دیتے پاکستان کے خلاف کھل کر بغاوت کا اعلان کردیا۔اردو بولنے والے جنہوں نے پاکستان بنایا ، ہجرت کی اور ہر قسم کی مالی و جانی قربانیاں بھی دیں وہ سب کے سب اس حرکت پر نہ صرف دنگ رہ گئے بلکہ اظہار ِ ناراضی بھی کیا۔ڈاکٹر فاروق ستار اور ان کے رفقا نے سندھ اسمبلی میں الطاف حسین کے خلاف غداری کی قرارداد پیش کر کے کراچی والوں کے دل کی ترجمانی کردی۔ قوم حیران و پریشان ہے کہ الطاف حسین کو کیا ہو گیا ہے کہ وہ اس درجہ تک گرسکتے ہیں کہ اب جب کہ سب ایک طرف ہیں تو دوسری طرف لندن سے چند افراد بضد ہیں کہ متحدہ پاکستان کا الطاف حسین سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔دونوں ایک دوسرے کو پارٹی سے نکالنے کے احکامات دے رہے ہیں ۔لندن والوں کا کہنا ہے کہ اگر الطاف حسین کی مقبولیت کا امتحان لینا ہے تو قومی ،صوبائی اسمبلیوں سمیت تمام سینیٹرز مستعفی ہو جائیں ۔ پھراپنی نئی جماعت متحدہ پاکستان کے جھنڈے تلے عوام سے ووٹ لے کر دکھائیں تو دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی الگ ہو جائے گا کہ اردو بولنے والوں کی اکثریت پاکستان کی تو حامی ہے مگر الطاف حسین کے طلسم سے باہر نہیں آسکی ۔کیونکہ آج تک کسی دوسری جماعت نے کھل کر ان کا ساتھ نہیں دیا۔دیکھنے کو تو الطاف حسین نے بھی اپنی قوم کو کچھ نہیں دلوایا حتیٰ کہ کوٹہ سسٹم جس کی بدولت انہوں نے مہاجر نوجوانوں میں پذیرائی حاصل کی تھی نہ اس کے خلاف آج تک آواز بلند کی نہ ان کو نوکریاں دلوائیں ۔البتہ کتابوں کی جگہ اسلحے لینے کا سبق پڑھا کر ان کو بدنام کرایا۔ ان کے ووٹوں کی طاقت سے بار بار سندھ حکومت میں رہ کر فائدے حاصل کئے ۔ہردور میں اقتدار کا سودا کیا ۔
آج مہاجر بھی نہ مہاجر رہے نہ سندھی بن سکے ۔آج وہ ایک بند گلی میں جاچکے ہیں ۔اگلے الیکشن تک ان کے ووٹ تتر بتر ہو کر ضائع ہونے کا خطرہ منڈلا رہا ہے کہ وہ کس ایم کیو ایم کو ووٹ دیں ؟ ایک آخری راستہ الطاف حسین کیلئے بچا ہے کہ وہ قوم ،فو ج اور رینجرز سے آخری مرتبہ معافی مانگیں اور پاکستان کے خلاف کہے ہوئے اپنے برے الفاظ واپس لیں، بصورت دیگر ان کی سیاست کو بہت بڑا دھچکا لگے گا۔

.