بھارتی میڈیا کی خواہش کے برعکس مودی نے فوج کو سخت حکم نہیں دیا

September 27, 2016

لاہور (تجزیہ:امتیاز عالم)اڑی حملے کے بعد بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے ایک عوامی ریلی سے خطاب کرتے ہوئے اپنی فوج کو وہ انتقامی اور سخت حکم نہیں دیا جس کی جنگ کا رسیا بھارتی میڈیا خواہش کر رہا تھا۔ کیا اڑی حملے کے بعد کی صورتحال میں ہمارا روایتی حریف ہمیں سفارتی سطح پر تنہا کرنے کے علاوہ دیگر ذرا ئع بھی دریافت کر رہا ہے، پرسرار اور ہندتوا کے پر چار ک بھارتی سپریم لیڈر اب ایک نیا موقف لے کر سامنے آئے ہیں جو بیک وقت متاثر کن بھی اور عجیب و غریب بھی۔ انہوں نے یہ کہہ کر کہ وہ پاکستان کو اپنی زبان میں جواب دے گی حیران کن طور پر پاکستان سے متعلق بھارت کابیانیہ تبدیل کر دیا ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو کے بھارت کے ساتھ ہزار سال تک جنگ کرنے کے مشہور مقولے کو مدنظر رکھتے ہوئے بھارتی وزیراعظم نریندر مودی سے یہ امید نہیں کی جا سکتی تھی کہ وہ انسانی ترقی اور معاشی بالادستی میں مقابلہ کرنے کا چیلنج دیں گے۔ انہوں نے اپنے عوام کی پاکستان سے بدلہ لینے کی خواہش کو یہ کہہ کر تسکین پہنچا دی کہ بھارت ساری دنیا میں سوفٹ ویئر برآمد کرنے والا جبکہ پاکستان دہشت گردی برآمد کرنے والا ملک ہے۔ ایک ایسے موقع پر جب بھارت میں ہرطرف پاکستان پر حملہ کرنے کی بات ہو رہی تھی اور سیاستدان انتقام لینے کا اعادہ کر رہے تھے۔ مودی نے غصے اور انتقام کی بھاپ کو خارج کر دیا ہے تاہم انہوں نے نفرت کے دلدادہ ارنب گوسوامی کو کچھ لالی پوپ بھی تھما دیئے ہیں۔ مودی کے مطابق دہشت گردی کے خاتمہ کیلئے کئے گئے بھارتی سکیورٹی فورسز کے 17 حملوں میں 110 دہشت گرد مارے گئے (اگر اس میں 107 نہتے شہریوں کی ہلاکت شامل نہ کی گئی ہو)مودی نے اس عزم کا بھی اعادہ کیا کہ وہ اپنے 18 فوجیوں کی ہلاکت کو کبھی فراموش نہیں کریں گے شاید اس کا یہ مطلب ہے کہ مناسب وقت پر وہ یہ حساب چکتا کر دیں گے۔ پاکستان کی معاشی اور لسانی کمزوریوں کا ذکر کرکے حکمرانوں اور عوام کے درمیان واضح لکیر کھینچ دی تاہم اس موقع پر وزیراعظم مودی یہ بھول گئے کہ بھارتی عوام کیا کیا مصیبتیں جھیل رہے ہیں۔ دانشمندی کا جو بظاہر اس وقت مظاہرہ دیکھنے میں آیا ہے اس سے کشمیر کے مسئلہ پر دونوں ملکوں کی افواج ٹکراتے ٹکراتے رہ گئی ہے تاہم ابھی مزید سنجیدگی دکھانے کی ضرورت ہے۔سفارتی سطح پر بھارت اس یہ واویلا کرے گا کہ دہشت گردی کے خاتمہ کے سوال پر پا کستا ن آئیں بائیں شائیں کرے گا کیونکہ وہ اس ضمن میں غیر سنجیدہ ہے اور کشمیر میں اپنے مظالم چھپانے کیلئے سرحد پار دہشت گردی کا شور مچائے گا، تاہم اس صور تحا ل سے ہمارے پالیسی سازوں کو ناجائز فائدہ نہیں اٹھانا چاہئے اور تزویراتی فائدہ اٹھانے کی کوشش نہیں ہونی چاہئے۔ یہ امر بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کہ بھارتی سکیورٹی اسٹیبلشمنٹ نے افغانستان میں اپنا اثر و رسوخ بڑھا لیا ہے۔ یہ صورتحال پراکسی وار کا باعث بن رہی ہے۔ بھارت افغانستان کے ذریعے چھوٹی سطح پر سردجنگ میں ملوث ہے ردعمل کے طور پر پراکسی وار کا کھیل کھیلنے والوں کو موقع مل رہا ہے۔ اس سارے کھیل میں اچھائی کہیں کھو جاتی ہے اور پاکستان سے بہتر کون جانتا ہے کہ ایسی صورتحال کی کیا قیمت چکانا پڑتی ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے پاکستان کو بعض عسکر ی معاملات میں تبدیلی کا اشارہ دینا ہوگا۔ تشویش ناک بات یہ ہے کہ پاکستان تا حال اپنے بعض سکیورٹی معا ملا ت کے ضمن میں نظرثانی کیلئے تیار نہیں ہے۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں خطاب سے قبل بعض اہم سفارت کاروں اور سکیورٹی پنڈت نے پاکستان کو ممکنہ طور پر کہا کہ دینے کے حوالے سے متنبہ کر دیا تھا اور یہ مشورہ دیا تھا کہ پاکستان افغان طالبان پالیسی پر نظرثانی کرے۔ انہوں نے خبردار کیا کہ اگر ایسا نہ کیا گیا تو کشمیریوں کی جدوجہد کو دہشت گردی سے تعبیر کر کے بھارت اپنے مظالم کو چھپائے گا۔ سرتاج عزیز نے اڑی حملے کی عالمی تحقیقات کا مطالبہ تاخیر سے کیا یہی مطالبہ وزیراعظم نے اقوام متحدہ میں بھی کیا۔ اب وقت آ گیا ہے کہ ہم اپنا غیر ضروری بوجھ اتار دیں تا کہ بھارت کی ہمیں عالمی طور پر تنہا کرنے کی کوشش کامیاب نہ ہو سکے۔وزیراعظم نواز شریف کو سارک کانفرنس کو ملتوی نہیں کرنا چاہیے اور پاک بھارت مذاکرات دوبارہ شروع کرنے کے ا قدامات تلاش کرنے چاہیں۔ علاقائی صورتحال پر پارلیمنٹ کو اعتماد میں لیں اور پارلیمنٹ کو ہماری سمت متعین کرنے کا موقع ملنا چاہیے۔