ہم سب بھکاری ہیں۔۔۔۔۔۔؟

October 05, 2016

بچپن سےہم یہ سنتےآئےہیںکہ ’’جنیں لاہور نئیں ویکھیا اوجمیا ای نیئں‘‘ (جس نے لاہور نہیں دیکھا وہ پیدا ہی نہیں ہوا)۔ اس لیے پاکستان کی آبادی جو بہت تیزی سے بڑھ رہی ہے پیدائش اور ہوش سنبھالنےکےبعدلگتاہے کہ ہر کوئی اپنے’’لاہوری جنم‘‘کوثابت کرنےکی خاطرلاہوریاتراکےلیے ضرورآتاہےاسی لیےآپ کہیںچلےجائیںلوگوںکاہجوم اور رش دیکھ کر یہ محسوس ہوتا ہے کہ ہر کوئی لاہور دیکھنےآیاہے،حالانکہ خود لاہور کے مکین خود بڑی تعداد میں گھومنے پھرنے کے شوقین ہیں اس لیے اپنی زندہ دلی لیے وہ بھی پارکس اور دیگر تفریح مقامات کے ساتھ ساتھ کھانے پینے کی جگہوں اور شاپنگ پلازوں میں بھی خوب انجوائے کرتے نظر آتے ہیں، لیکن اس رش اور بے ہنگم ٹریفک کے باوجود لاہور ایک زبردست شہر اور ذائقہ دار کھانوں کا مرکز ہے، چاہے آپ لکشمی کے چکڑچھولے کھالیں یا کسی دیسی مرغ کی کڑاہی کسی بار کیو کے تکے کباب یا فٹ پاتھ پر رکھے دیگچے کی حلیم، سب میں ہی آپ کو ایک چٹخارے دارذائقہ ملےگا،چند روز پہلے مجھے لاہورجانےکااتفاق ہواتو میرے دوست ذوالفقار نے مجھے خوب گھمایا خاص طور پر ہم لگاتار دو روز ریگل چوک جاتے رہے، وہاں گہما گہمی کے ساتھ ڈرائی فروٹ، آئس کریم اور تازہ جوس کی دکانیں خوب سجی ہوتی ہیں، بے ہنگم اور جام ٹریفک نہ جانے کب پھنس جاتی ہے اور نہ جانے پھر کیسے خود ہی بحال ہوجاتی ہے، ریگل چوک آپ جتنی دیر کھڑے ہوں کبھی موتیے کے پھولوں والا تو کبھی غباروں والا، کبھی دھوپ کے چشمے بیچنے والا، تو کبھی آئس کریم کی ٹرے اٹھائے آرڈر لینے والا آپ کو موجودگی کا احساس دلاتےرہتے ہیں، مانگنے والی عورتیںجو بچہ اٹھائےآپ کو بھوکےبچے کا واسطہ دیتی بھیک مانگتی نظر آتی ہے،آپکو آپ کے عزیز ترین رشتوںکاواسطہ دیتی ہے یہ خواتین حج اور عمرے کی دعا دیتے ہوئے مانگنے کا خوب ڈھنگ رکھتی ہیں، اسی گہما گہمی اور ریگل چوک کی رش میں پینٹ شرٹ پہنے ایک بھکاری نےخوب ڈرامہ رچایا وہ ہمارےپاس آیااور انگریزی میں معذرت کرتےہوئے انگریزی ہی میں کہنے لگا میںبھکاری نہیںہوںلیکن ضرورت مندہوں،حیرت کی بات یہ ہے کہ وہ بڑےاچھے لہجے میں انگلش بول رہا تھا،میرے دوست ذوالفقار نے اس سے گفتگو شروع کردی اور اس کے دلچسپ جوابات پر اس سے مزید سوالات کرنے شروع کردیے، سوال کچھ بھی ہو وہ اس کا جواب دینےسے پہلے یہ ضرورکہتا ہے کہ میں پیشہ ور بھکاری نہیں ہوںضرورت مندہوںمیری مددکیجئے، میرے دوست نے اُسے دس روپے دیتے ہوئےایک مزید سوال بھی کردیا، انگلش بولنےکےماہر بھکاری نےدس روپےکےنوٹ کو حقارت سےدیکھتے ہوئےکہاکہ میں دس روپے والابھکاری نہیںہوں اگر میری مدد کرناچاہتے ہیں تو کم ازکم ایک ہزار روپےکانوٹ دیں ، شاہد ہم اُسے ایک ہزارروپے کا نوٹ بھی دے دیتے لیکن میردوست کا کہنا تھا کہ یہ شکل سے مجھے نشے کا عادی لگتا ہے،تو میرےدوست نے جان چھڑانےکےلیے اسےسوروپےکا نوٹ دیتے ہوئے کہاکہ بھیک مانگنا اچھی بات نہیں جس پر ’’دیسی انگریز بھکاری ‘‘بھڑک اٹھا اس نے کہاکہ کیا آپ بھکاری نہیں ہیں؟ ہم ایک دوسرے کامنہ دیکھنے لگے تھوڑے توقف کے بعد وہ پھر کہنے لگا میں تو ضرورت مند ہوں لیکن ہم سب بھکاری ہیں پورا پاکستان بھکاری ہے، فرق صرف اتنا ہے کہ بڑے لوگ ملنے والی بھیک پر عیاشی کرتے ہیں اور ہم غریب اور ضرورت مند لوگ آپ جیسے لوگوں کے آگے ہاتھ پھیلاتے رہتے ہیں، میرے دوست نے کہاکہ پورا پاکستان کیسے بھکاری ہوگیاہم تو محنت کرتے ہیں، کام کرتے ہیں،بھکاری کا لہجہ کرخت ہوگیا اور کہنے لگا ہماری کونسی ایسی حکومت گزری ہے جس نے ملک کی معیشت کو چلانےکےلیے عالمی اداروں سے بھیک نہ مانگی ہو۔ آپ، میں، ہر بچہ، بلکہ ہم سب ایک ایک لاکھ روپے کے مقروض ہیں اور سوٹ اور ٹائیاں باندھ کے عالمی اداروں کے سامنے جھوٹ بول کر بھیک مانگتے ہیں اوربھیک ملنے پر اخبارات اور چینلز پرخوشی کے شادیانے بجاتے ہیںکہ ہمیں قرضے کی بھیک ملی گئی ہے اور مجھ جیسے ضرورت مندکو دس روپے دے کر آپ بڑے آدمی بننا چاہتےہیں اور پھر اس نے دوست کا دیا ہوا سو روپے کا نوٹ بھی گاڑی میں پھینکتے ہوئے غصےسے اور منہ بگاڑتےہوئے ہمیں کہا ’’انٹرنیشنل بھکاری‘‘اور چل دیا میرا دوست غصےسے اس کی طرف بڑھنا چاہ رہا تھا لیکن میںنے اسے روک دیا کیونکہ وہ سچ کہہ رہا تھا ہم سب بھکاری ہیں اورملنے والی بھیک سے ہم کرپشن اور عیاشیاں کرتےہیں،۔ہاں ۔۔۔!ہم سب بھکاری ہیں۔


.