ہم کس سوچ میں ہیں؟

October 08, 2016

ہماری جوشیلی، زمین و آسمان کے قلابلے ملادینے والی خطیبانہ تقریریں نہیں، بلکہ ہماری ٹھوس اور جاندار پالیسیاں ہیںجو پاکستان کو تنہائی کا شکار ہونے سے بچائیں گی۔ہمارے ہاں ایک مرتبہ حب الوطنی کی اسناد بانٹنے یا اس کے برعکس القاب سے نوازنے کے موسم نے ڈیرے ڈال لئے ہیں۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان تنائو پر بات کرتے ہوئے معقولیت ، استدلال اور محاسبے کی حدود کافی سمٹ جاتی ہیں۔ جارحانہ رویوں اور کھولتے ہوئے جوشیلے جذبات کے اس بھرے میلے میں ٹھنڈے دماغ سے تنقید ی سوال اٹھانے والوں کو وقت ضائع کیے بغیر ’دشمن کا ایجنٹ ‘ قرار دے کر ثواب کمایا جاتا ہے ۔ حب الوطنی کے جذبات ریاست کی موجودہ پالیسیوں، چاہے جتنی بھی ناقص کیوں نہ ہوں، کے غیر متزلزل بازو شمشیر زن دکھائی دیتے ہیں۔
ہماری قومی سیکورٹی پالیسی کا رخ بھارت دشمنی کی جانب ہے ۔ یہ انڈیا ہے جس کے ساتھ ہم نے جنگیں کی ہیں، اور یہ مشرقی سرحد کی سیکورٹی اور تقدس کی حفاظت کا جذبہ ہے جو ہماری سیکورٹی فورسز کو رات بھر چوکنا رکھتا ہے ۔ اگرچہ ہمارے موجودہ جنرلز مقامی دہشت گرد گروہوں کے خلاف لڑی جانے والی طویل جنگ کا تجربہ رکھتے ہیں لیکن ہماری سیکورٹی سوچ پر بھارت دشمنی کا نقش بہت گہرا ہے۔ آرمی پبلک اسکول پر حملے سے پہلے، جب دہشت گردی کے حوالے سے ہماری سوچ تبدیل ہونا باقی تھی، تحریک ِ طالبان پاکستان اور اس طرح کے دیگر گروہوں کی موجودگی کا جواز بھارت کے پراکسی لشکروں کے مقابلے میں ایک جاندار تاویل کے طور پر پیش کیا جاتا تھا۔
ہماری ایٹمی پالیسی کا محور بھی بھارتی خوف کا ہیولا ہے ۔ ہم نے دنیا سے کہہ رکھا ہے کہ ہم ایٹمی ہتھیاروں پر پابندی کے معاہدوں کا احترام کرتے ہیں لیکن ہم اُس وقت تک ان کی توثیق نہیں کریں گے جب تک بھارت ایسا نہیںکرتا۔ ہمارا ایٹمی ڈیٹرنس ’پہل کرنے‘ کی پالیسی رکھتاہے ۔ گویا اگر بھارت ہم پر روایتی جنگ مسلط کرتا ہے تو ہم ایٹمی حملہ کرنے میں پہل کریں گے ۔ جب انڈیا نے ’کولڈا سٹارٹ ‘ پالیسی پر کام شروع کیا تو ہم نے ٹیکٹیکل جوہری بم( میدان جنگ میں استعمال ہونے والے چھوٹے ایٹمی ہتھیار )بنا لئے ۔ دوسرے الفاظ میں، ہم دنیا کو بتارہے ہیں کہ محدود جنگ کی صورت میں بھی ہم جوہری ہتھیار استعمال کرنے سے گریز نہیں کریں گے ۔
اس سوال میں الجھے بغیر کہ کیا انڈیا نے، جیسا کہ وہ دعویٰ کررہا ہے، کشمیر میں ’سرجیکل اسٹرائیک‘ کی، سوال یہ ہے کہ اگر اُس نے مرید کے میں جماعت الدعوۃ یا بہاول پور میں جیش محمد کے مراکز کو نشانہ بنایا تو کیا ہوگا؟جماعت الدعوۃ اور جیش ِ محمد کو عالمی سطح پر دہشت گرد تنظیمیں تسلیم کیا جاتا ہے ۔ ان پر پاکستان میں بھی ’پابندی‘ ہے ۔ تو کیا اُس صورت میں جب انڈیا الزام لگا کرکہ پاکستان کی سرزمین پر موجود گروہ اُس پر حملہ کرنے کی تیار ی کررہے ہیں،ان پرا سٹرائیک کردے تو کیا پاکستان پھر بھی انڈیا پر ٹیکٹیکل بم پھینک دے گا؟جنگی ہسٹریا میں مبتلا انسان بھول جاتے ہیں کہ ایٹمی ہتھیاروں کے استعمال کی بات کرنا پاکستان اور اس کے مستقبل کے لئے کتنا خطرناک ہے ۔ کیا یہ بھارتی جارحیت کا خدشہ اور ہماری اس سے نفرت ہے جو ہمیں منطقی طور پر تجزیہ کرنے سے روکتی ہے کہ ان کالعدم تنظیموں کی موجودگی کا ہمیں کیا نقصان ہے ؟اسامہ بن لادن کا پاکستان سے ملنا، اور پھر ملا منصور کا پاکستانی علاقے میں ڈرون حملے سے ہلاک ہونا یا د ہوگا۔ کیا اُن جہادیوں کی ہماری سرزمین پر موجودگی نے ہماری سیکورٹی کو توانا کردیا تھا؟کیا اُن کے امریکہ کے ہاتھوں ہلاک ہونے نے ہماری خودمختاری کو تقویت پہنچائی تھی؟اگر چہ انڈیا امریکہ نہیں کہ ایسا کرگزرے، لیکن کیا جماعت الدعوۃ یا جیش ِ محمد ہماری ریاست کی سیکورٹی کو بڑھا رہی ہے ؟ کیا ان کی موجودگی پاکستان کے مفادات کو تحفظ فراہم کررہی ہے ؟
کشمیر پر توجہ مرکوز کرنے والے جہادی گروہوں کے بارے میں ہماری کیا پالیسی ہے؟کیا یہ گروہ ریاست کے اثاثے ہیں ؟اگر ایسا ہے تو کس لئے ؟ کیا ہم یہ سوچتے رہے ہیں کہ ان کے حملوں کی وجہ سے ایک دن بھارت کشمیر کو آزاد کرنے کا اعلان کردے گا؟کیا معروضی انداز میں کیا گیا غیر جذباتی تجزیہ اس خوش فہمی کو تسلیم کرسکتا ہے ؟کیا بلوچ علیحد گی پسندوںکے حملے ہماری ریاست کو بھی ان کے مطالبے پر سوچنے کی تحریک دیں گے؟ جواب نفی میں ہوگا، تو پھر سوچ کو متواز ن رہنے دیں۔ ریاستیںایسے علیحدگی پسندوں کے خلاف بھرپور طاقت کا استعمال ہی کرتی ہیں۔فی الحال سرحد پار جہادی سرگرمیاں کشمیر کاز کو فائدہ نہیں، نقصان پہنچا رہی ہیں۔ کیا ہم ان غیر ریاستی عناصر کے ذریعے انڈیا کو زخم لگانا ایک ’کم قیمت ‘ تزویراتی کاوش سمجھتے ہیں؟ اگر ایسا ہے تو ہمیں اس پر ایک مرتبہ پھر سوچنے کی ضرورت ہے ۔ غیر ریاستی عناصر کے استعمال کا زمانہ لد چکا۔اب چونکہ غیر ریاستی عناصر طاقت ور ریاستوں کی سیکورٹی کے لئے خطرہ بن چکے ہیں،اس لئے انہیں پالنا ایک گناہ کے زمرے میں آتا ہے ۔
اب کم و بیش عالمی سطح پر اتفاق ِ رائے پایا جاتا ہے کہ نیشنل سیکورٹی کے لئے غیر ریاستی عناصر کا استعمال غلط ہے ۔ دوسری بات یہ کہ اگرچہ غیر ریاستی عناصر نے بھارت کو زخم لگائے ، لیکن انھوں نے ہمیں تو لہو لہان کردیا ۔مزید ستم یہ کہ ان کی وجہ سے بھارت کو عالمی برادری کے سامنے ہمیں بدنام کرنے کا موقع مل جاتا ہے ۔ ہمارا ان جہادی تنظیموں کی وجہ سے لگنے والے الزام پر جواب یہ ہوتا تھا کہ امریکہ نے 80 کی دہائی میں خود ان جہادی تنظیموں کی ہمارے ہاں آبیاری کی ، اورپھر اپنا کام نکال کر چلتا بنا، اور ہمیں مصیبت میں ڈال دیا۔ تاہم جب ہم نے امریکہ کی دہشت گردی کے خلاف جنگ میں تعاون کی حامی بھرتے ہوئے وعدہ کیا کہ ان گروہوں کو جڑ سے اکھاڑ پھینکا جائے گا، لیکن ہم نے عملی طور پر ایسا نہ کیا۔چنانچہ دنیا نے ہمیں مشکوک نظروںسے دیکھنا شروع کردیا۔ گزشتہ چند برسوں سے ہمارا سب سے بڑابیانیہ یہ تھا کہ ہم ہی دہشت گردی کا سب سے بڑا شکار ہیں۔ اگرچہ ہم نے اے پی ایس کے بعد دہشت گردی کے خلاف کارروائی شروع کردی لیکن ان کی پناہ گاہیں اور تربیت گاہیں ختم کرنا ابھی باقی ہے ۔ اس میں یقینا وقت لگے گا۔ دنیا نے ہماری دلیل کو صبر سے سنا ، لیکن یہ بھی دیکھا کہ ہم اچھے اوربرے طالبان کے درمیان فرق کررہے ہیں۔ یہ تاثر بھی گہرا ہوا کہ ہم برے طالبان کو ہلاک اور اچھے طالبان کو تحفظ فراہم کرنے کی غیر اعلانیہ پالیسی رکھتے ہیں۔ ہمارا سب سے کمزور پہلو یہی ہے کہ جماعت الدعوۃ کی اعلیٰ قیادت پاکستان میں ہے ۔
جب ہمارے وزیر ِاعظم صاحب اقوام ِ متحدہ کی جنرل اسمبلی میں کھڑے ہوکر برہان وانی کو شہید قرار دیتے ہیں تو دنیا اس بات کو قبول کرتی ہے، لیکن ہم دنیا کو اس بات کا یقین نہیں دلا سکتے کہ انتہا پسند تنظیموں کے قائدین پرامن شہری ہیں اور وہ کسی ملک کے لئے خطرے کا باعث نہیں۔ ریاست ِ پاکستان نے لشکرِ طیبہ اور جماعت ِ الدعوۃ کو کالعدم تنظیموں کی فہرست میں شامل کررکھا ہے، اس کے باوجود حافظ سعید ٹی وی پروگراموں میں ایک اہم شخصیت کے طور پر شرکت کرتے ہیں، اور قومی اخباروں میں اُن کے مضامین شائع ہوتے ہیں۔ کیا کوئی دعویٰ کرسکتا ہے کہ پاکستان حافظ سعید کے خلاف کارروائی کرنے کا ارادہ رکھتا ہے ؟مسعود اظہر کی جیش ِ محمد بھی ایک کالعدم جماعت ہے۔ پٹھان کوٹ حملے کے بعد پاکستان نے اُنہیں حفاظتی تحویل میں لیا ۔ پابندی کے باوجود جیش ِ محمد اپنی سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہے ۔ انڈیا مسعود اظہر کو یواین سے ایک دہشت گرد قرار دلانے کی کوشش کررہاہے ، لیکن چین نے اُس کا راستہ روک لیا۔ یہ اندازہ لگانا زیادہ مشکل نہیں کہ چین مولانا کو بچانے کی کوشش کیوں کررہا ہے ؟سوال یہ ہے کہ پاکستان ان انتہا پسندوں کو تحفظ دے کر دنیا کو کیا پیغام دے رہا ہے ؟اس سے بھی اہم یہ کہ کیا ہماری حکومت یا سیکورٹی اسٹیبلشمنٹ ان غیر ریاستی عناصر کو تحفظ دینے کی قیمت جانتی ہے ؟ہمیں ان سوالوں پر غور کرنے کی ضرورت ہے ۔ اے پی ایس ایک خوفناک سانحہ تھا لیکن اس کے بعد قوم اپنی سوچ میں تبدیلی لے آئی۔ ایسے سانحات قوموں کو جگا دیتے ہیں۔ اس وقت ہماری جہادی پالیسی کو بھی تبدیلی کی ضرورت ہے ۔اس کے لئے ہمیں کسی سانحے کا انتظار نہیں کرنا چاہئے۔


.