پلیز! آئین سے باہر نہ جائیں

October 10, 2016

30اکتوبر کو کیا ہوگا؟ عمران خان حکومت پر قبضہ کرنے اسلام آباد آرہے ہیں یا کسی اور کو قبضہ دلانے کا منصوبہ ہے؟ کسی اور کو قبضہ دلا دیا تو خان صاحب کو کیا ملے گا؟ یہ وہ سوالات ہیں جو اس ناچیز سے کسی عام آدمی نے نہیں بلکہ تحریک انصاف کے ایک رہنما نے پوچھے۔ یہ سوالات سن کر میں تلملا گیا کیونکہ ایک دن پہلے میں نے ان صاحب کو خود ایک ٹی وی چینل پر یہ کہتے ہوئے سنا تھا کہ جب تک وزیر اعظم نواز شریف استعفیٰ نہیں دیں گے ہم اسلام آباد سے واپس نہیں جائیں گے۔ میں نے اپنے غصے پر قابو پاتے ہوئے اسے وہ الفاظ یاد دلائے جو اس نے ٹی وی پر ادا کئے تھے تو اس نے باقاعدہ ہاتھ جوڑ کر معافی مانگتے ہوئے کہا کہ آپ کو اچھی طرح پتہ ہے کہ میں ٹی وی ٹاک شوز پر وہی بولتا ہوں جو میرا لیڈر اپنی تقریروں میں کہتا ہے لیکن مجھے اندر کی بات کا پتہ نہیں ہوتا۔2014ءکے دھرنے میں میرا لیڈر کئی دن تک یہ کہتا رہا کہ وہ نواز شریف کا استعفیٰ لئے بغیر واپس نہیں جائے گا اور آپ بار بار مجھے کہتے تھے کہ نواز شریف کا استعفیٰ نہیں آئے گا۔ آخر کار ہم استعفیٰ کے بغیر ہی واپس لوٹ گئے۔ ہم غلط ثابت ہوئے آپ ٹھیک ثابت ہوئے اس لئے اب کی دفعہ اسلام آباد میں دھرنے سے قبل ہی آپ سے پوچھ رہا ہوں کہ ہمیں کامیابی ملے گی یا نہیں؟ یہ سن کر مجھے اپنے اس سیاستدان دوست کی معصومیت اور سادگی پر ترس آیا جو30اکتوبر کو اپنے ساتھ پانچ ہزار لوگوں کو کم از کم سات دن کیلئے اسلام آباد لانے اور کھلانے پلانے کے انتظامات میں مصروف ہے۔ میں نے اپنے معصوم دوست سے کہا کہ اس مرتبہ وزیر اعظم کے استعفیٰ کے بغیر اسلام آباد سے واپسی کا مطلب تحریک انصاف کی سیاسی موت ہے۔ زندگی اور موت کی اس لڑائی میں تمارے پاس واپسی کا کوئی راستہ نہیں۔ یاد رکھو نواز شریف نے استعفیٰ دے دیا تو صرف چہرہ بدلے گا مسلم لیگ(ن) کی حکومت نہیں بدلے گی۔ استعفیٰ نہ آیا تو تحریک انصاف کیلئے سب کچھ بدل جائے گا۔ میری باتیں سن کر اس نے اپنے مخصوص لہجے میں کہا۔ ’’یارا جی!2014ءمیں آپ صاف صاف کہتے تھے کہ استعفیٰ نہیں آئے گا 2016ءمیں آپ گول مول بات کررہے ہو‘‘۔ میں نے نفی میں سر ہلاتے ہوئے کہا کہ گول مول بات نہیں کررہا۔ نواز شریف2016ء میں بھی استعفیٰ نہیں دیں گے لیکن2016ءمیں انہیں آئین و قانون کے اندر رہ کر حکومت سے نکالے جانے کے دوسرے خطرات زیادہ ہیں۔ یہ خطرات کسی اور نے نہیں بلکہ خود انہوں نے اپنے لئے پیدا کئے ہیں۔
یہ تو تھی تحریک انصاف کے ایک رہنما کے ساتھ گفتگو کا ایک حصہ۔ اب سنئے مسلم لیگ(ن) کے ایک وزیر صاحب سے آج صبح ہونے والی گفتگو کا حال۔ انہوں نے کہا بھائی جی30اکتوبر کو اتوار ہے اور اتوار کو اسلام آباد بند ہوتا ہے لیکن سنا ہے عمران خان اسلام آباد میں آگیا تو پھر آسانی سے واپس نہیں جائے گا۔ کیا ہوگا؟ کیا عمران خان کو30اکتوبر کے دن اسلام آباد میں داخل ہونے کی اجازت ملے گی؟ یہ سوال سن کر اس خاکسار نے و زیر صاحب کو یاد دلایا کہ حکومت میں وہ شامل ہیں میں نہیں شامل، عمران خان کو اسلام آباد میں داخلے کی اجازت حکومت نے دینی ہے میں نے نہیں دینی۔ میرا طنز بھرا جواب سن کر وزیر صاحب نے منہ بسورا او ر بڑے درد بھرے لہجے میں کہا کہ کبھی کبھار کا بینہ کے اجلاس میں وزیر اعظم صاحب سے علیک سلیک ہو جاتی ہے اصل فیصلے کابینہ میں نہیں ہوتے کہیں اور ہوتے ہیں۔2014ء میں ہمیں بتایا گیا تھا کہ عمران خان کو اسلام آباد کے اندر نہیں آنے دیا جائے گا لیکن جب وہ اسلام آباد کے قریب آئے تو فیصلہ بدل گیا اسی لئے کچھ وزیروں کو حکومت میں شامل ہوتے ہوئے بھی مسلم لیگ (ن) کے فیصلوں کا علم نہیں ہوتا اور یہ بیچارے ادھر ادھر سے اپنی حکومت کے فیصلوں کو ڈھونڈتے رہتے ہیں۔ مسلم لیگ(ن) کے وزیر صاحب کی یہ گفتگو سن کر میں سوچنے لگا کہ اس جماعت کی حکومت جتنے منظم انداز میں ہر وقت میڈیا پر تحریک انصاف کو جواب دینے میں مصروف رہتی ہے اتنے منظم انداز میں اپنی حکومت کیوں نہیں چلارہی؟ مسلم لیگ(ن) اور تحریک انصاف میں فیصلہ سازی کا کوئی موثر نظام موجود نہیں ہے۔ چند افراد فیصلہ کرتے ہیں، فیصلہ ٹھیک ہو تو وہی چند افراد کریڈٹ لے لیتے ہیں۔ فیصلہ غلط ہو تو پوری پارٹی کو بھگتنا پڑتا ہے۔
پیپلز پارٹی کا معاملہ بھی کچھ مختلف نہیں، پیپلز پارٹی کے تمام اہم فیصلے آصف علی زرداری کرتے ہیں۔ کچھ دن پہلے عمران خان نے اپنے جلسے میں شرکت کیلئے چوہدری اعتزاز احسن کو دعوت دی۔ چودھری صاحب نے اس دعوت سے متعلق زرداری صاحب کو آگاہ کیا۔ انہوںنے فیصلہ کیا کہ تحریک انصاف کے جلسے میں پیپلز پارٹی کی نمائندگی اعتزاز کی بجائے لطیف کھوسہ کریں گے۔ جب عمران خان کو یقین ہوگیا کہ پیپلز پارٹی ان کے ساتھ مل کر نواز شریف کے خلاف ایجی ٹیشن نہیں کرنا چاہتی تو انہوں نے آصف زرداری کے خلاف فائر کھول دیا۔ دوسری طرف زرداری صاحب نے بلاول کو مولانا فضل الرحمان کے پاس بھیج دیا۔ اس ملاقات کا مقصد نواز شریف کی حمایت نہیں بلکہ صرف یہ پیغام دینا تھا کہ پاناما پیپرز کے معاملے میں جلد از جلد انکوائری کمیشن بنایا جائے ورنہ 18اکتوبر کے بعد پیپلز پارٹی بھی سڑکوں پر آنے والی ہے۔ بلاول نے مولانا فضل ا لرحمان کے ساتھ ملاقات کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے وزیر اعظم نواز شریف کو کبھی غدار نہیں کہا۔ شائد بلاول صاحب وہ نعرے بھول گئے جو انہوں نے آزاد کشمیر کے انتخابات سے پہلے اپنے جلسوں میں لگائے تھے۔ وہ خود نواز شریف کو مودی کا یار اور غدار قرار دیتے رہے لیکن اب اگر وہ اس کی تردید کررہے ہیں تو یہ اچھی بات ہے۔ امید ہے کہ آئندہ وہ یہ نعرہ نہیں لگائیں گے اور آئندہ مسلم لیگ(ن) بھی پیپلز پارٹی پر سکھ عسکریت پسندوں کی فہرستیں بھارتی حکومت کے حوالے کرنے کا الزام نہیں لگائے گی۔ بلاول نے اپنے الزام کی تردید کردی ہے لیکن چند دن قبل پارلیمنٹ میں مسلم لیگ(ن) نے پیپلز پارٹی پر غداری اور ملک دشمنی کے جو سنگین الزامات لگائے ان کی تردید نہیں کی گئی۔
مسلم لیگ (ن) کا خیال تھا کہ اس نے پاناما پیپرز کے معاملے کو چھ ماہ تک لٹکا کر اس اسکینڈل کے غبارے سے ہوا نکال دی ہے۔ مسلم لیگ (ن) نے اوپر تلے کئی ضمنی انتخابات میں کامیابیاں حاصل کرکے اپنی سیاسی دھاک بھی قائم کرلی لیکن30ستمبر کو رائے ونڈ میں عمران خان کے کامیاب جلسے اور30اکتوبر کو اسلام آباد میں دھرنے کے اعلان نے مسلم لیگ(ن) کو پھر امتحان میں ڈال دیا ہے۔ اس امتحان سے نکلنے کیلئے مسلم لیگ (ن) کو میڈیا پر کنٹرول قائم کرنے کے نت نئے طریقے ڈھونڈنے کی بجائے پاناما پیپرز کا معاملہ طے کرنا چاہئے۔ یہ معاملہ طے نہ ہوا تو صرف مسلم لیگ (ن) نہیں بلکہ اس کے سیاسی و صحافتی اتحادی بھی شدید نقصان اٹھائیں گے اور خدانخواستہ جمہوریت کو کوئی نقصان پہنچا تو نواز شریف اور عمران خان دونوں کی سیاست ختم ہوجائے گی۔ عمران خان آئین و قانون کے اندر رہ کر احتجاج کریں اور نواز شریف جلد از جلد اس احتجاج کا جواز ختم کریں۔ کوئی تیسرا اس احتجاج کو جواز بنا کر آئین توڑنے کی غلطی نہ کرے۔ آئین ٹوٹ گیا تو پھر کچھ نہیں بچےگا۔


.