سندھ حکومت کی وفاقی حکومت سے شکایات

August 23, 2015

ایک بار پھر وزیراعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ نے وزیراعظم میاں محمد نواز شریف سے شکایات کی ہیں کہ وفاقی ادارے صوبے میں غیرضروری مداخلت کر رہے ہیں، جس کی وجہ سے صوبے کے امور متاثر ہو رہے ہیں۔ وزیراعظم میاں محمد نواز شریف نے اپنے کراچی کے دورے کے موقع پر گورنر ہاؤس میں امن و امان سے متعلق ایک اعلیٰ سطح کے اجلاس کی صدارت کی، جس میں وزیراعلیٰ سندھ نے وزیراعظم کو بتایا کہ قومی احتساب بیورو (نیب) اور وفاقی تحقیقاتی ادارہ (ایف آئی اے) سندھ میں غیرضروری طور پر سرگرم ہوچکی ہیں، جو آئین کے خلاف اقدام ہے۔ یہ وفاقی ادارے صوبائی معاملات میں مداخلت کرنے کے مجاز نہیں ہیں۔ بصورت دیگر معاملات پیچیدہ ہوجائیں گے اور عدم اعتماد کی فضا پیدا ہوگی۔ وزیراعلیٰ سندھ کا یہ بھی کہنا تھا کہ سندھ صوبے کو دشواریوں کا سامنا ہے اور ہماری 70فیصد بیوروکریسی نے کام بند کردیا ہے، جس کے باعث حکومتی مشینری بہت بری طرح متاثر ہو رہی ہے ۔ اس کا بنیادی سبب ایف آئی اے اور نیب کے مسلسل چھاپے ہیں۔ اخباری رپورٹس کے مطابق وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے وزیراعلیٰ سندھ کو یقین دہانی کرائی کہ وہ اس معاملے پر ایف آئی اے حکام سے بات کریں گے اور اگر کہیں بھی انکوائری یا چھاپہ ضروری ہوا تو وہ اس سے پہلے چیف سیکرٹری سندھ کو اعتماد میں لیں گے۔ انہوں نے کہا کہ نیب وفاقی حکومت کے دائرے اختیار میں نہیں، جس پر وزیراعلیٰ سندھ نے کہا کہ ان کی حکومت اس ضمن میں عدالت سے بھی رجوع کرسکتی ہے۔ وزیراعلیٰ سندھ کی یہ شکایات ایسی نہیں ہیں کہ انہیں نظر انداز کردیا جائے کیونکہ اگر ان شکایات پر توجہ نہ دی گئی تو وفاق اور سندھ کے مابین عدم اعتماد کا ماحول پیدا ہوگا اور جس سے دہشت گردی کے خلاف جاری آپریشن متاثر ہوگا ۔
سندھ حکومت کے خلاف بہت پروپیگنڈا ہوچکا ہے۔ یہ نہیں کہا جاسکتا کہ یہ پروپیگنڈا کسی منصوبہ بندی کا حصہ ہے یا نہیں لیکن اس کے بہت منفی اثرات مرتب ہوئے ہیں ۔ اس پروپیگنڈے کے تناظر میں یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ وزیر اعلیٰ سندھ کرپٹ لوگوں کو احتساب سے بچانے کے لئے یہ شکایات کر رہے ہیں ۔ ایسا کہنا سیاسی اور اخلاقی طور پر درست نہیں ہو گا اس لئے کہ وزیر اعلیٰ سندھ نے کبھی یہ بات نہیں کہی کہ وفاقی ادارے کرپٹ لوگوں کے خلاف کارروائی نہ کریں۔ ان کا مطالبہ صرف یہ ہے کہ اس کارروائی کےلئے وہ طریقہ اختیار کیا جائے ، جو قانون اور آئین کے مطابق ہو ۔ قانون میں ہر ادارے کا دائرہ کار متعین کردیا گیا ہے اور اس میں کوئی الجھن بھی نہیں ہے۔ سندھ حکومت کا موقف یہ ہے کہ وفاقی ادارے کارروائی کرتے ہوئے کم از کم سندھ حکومت یا متعلقہ محکموں اور اداروں کے سربراہان کو مطلع کریں ، جو قانونی تقاضا ہے۔ وزیر اعلیٰ سندھ نے گزشتہ دنوں ایک پریس کانفرنس کے دوران اس بات پر شدید احتجاج کیا تھا کہ ایک وفاقی ادارے نے بغیر اطلاع بلدیہ عظمیٰ کراچی ( کے ایم سی) کے دفتر پر چھاپہ مارا اور ساری فائلیں اپنے قبضے میں لے لیں ۔ ان فائلوں میں ملازمین کا ذاتی ریکارڈ ، خفیہ دستاویزات اور دیگر اہم دستاویزات بھی شامل تھیں ۔ چھاپہ مارنے والے ادارے کو یہ اختیار نہیں تھا کہ وہ ساری فائلیں اپنے قبضے میں لےلیتا۔اسے جن فائلوں کی ضرورت تھی، وہ تحریری درخواست دے کر حاصل کی جاسکتی تھیں ۔ سندھ کے سرکاری افسران مسلسل یہ شکایات بھی کر رہے ہیں کہ ایف آئی اے اور نیب کے لوگوں کے نامعلوم جگہوں سے فون آتے ہیں اور وہ ان افسران کو انکوائری کے نام پر خوف زدہ کرتے ہیں ۔ افسران نے وزیر اعلیٰ سندھ اور چیف سیکرٹری سندھ کو یہ بھی شکایات کی ہیں کہ ایف آئی اے اور نیب کے چھاپوں اور انکوائریز کی غلط خبریں چلوائی جاتی ہیں۔ حالانکہ نہ کوئی چھاپے مارے جاتے ہیں اور نہ ہی کسی قسم کی کوئی باقاعدہ انکوائری ہوتی ہے ۔ میڈیا ٹرائل کے ذریعے افسروں کو دباؤ میں لایا جاتا ہے ۔ افسران کی طرف سے یہ بھی شکایات کی جاتی ہیں کہ ان اداروں کے اہل کار کسی اطلاع کے بغیر آتے ہیں اور ریکارڈ لے کر چلے جاتے ہیں ۔ ضبط کئے جانے والے ریکارڈ کا اندراج بھی نہیں کیا جاتا ۔ وزیر اعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ کا یہ انکشاف بھی انتہائی تشویش ناک ہے کہ نیب اور ایف آئی اے کے چھاپوں کی وجہ سے سندھ کی70 فیصد بیورو کریسی نے کام کرنا بند کردیا ہے ۔ یہ خبریں بھی شائع ہوئی ہیں کہ سیکرٹریز کی سطح کے27 افسروں نے وزیر اعلیٰ سندھ کے پاس جا کر یہ شکایت کی تھی کہ وہ ان حالات میں اپنے امور انجام نہیں دے سکتے کیونکہ ایف آئی اے اور نیب نے جو طریقہ کار اختیار کیا ہوا ہے ، وہ کسی بھی طرح قانونی نہیں ہے ۔ نیب اور ایف آئی اے کی کارروائیوں سے نہ صرف سندھ کی بیورو کریسی میں خوف وہراس پایا جاتا ہے بلکہ انہیں یہ بھی شکایت ہے کہ ان کارروائیوں کی وجہ سے ان کا بلا جواز میڈیا ٹرائل ہوتا ہے اور ان کی ساکھ متاثر ہوتی ہے۔ وزیراعظم اور وفاقی حکومت کے دیگر حکام کو اس صورت حال پر سنجیدگی سے غور کرنا چاہئے۔
یوں محسوس ہورہا ہے کہ سندھ میں دہشت گردوں کے خلاف جاری ٹارگٹڈ آپریشن کسی حد تک کرپشن کے خلاف مہم میں تبدیل ہوگیا ہے۔ وزیراعلیٰ سندھ اس آپریشن کے کپتان ہیں اور حکومت سندھ سیکورٹی اداروں کو آپریشن کے حوالے سے تمام سہولتیں اور معاونت فراہم کر رہی ہے۔آپریشن کے دوران پولیس اور رینجرز کے مقابلوں میں اب تک جو لوگ مارے گئے ہیں، وہ مخصوص گروہوں سے تعلق رکھتے ہیں۔ حکومت سندھ کو اس صورت حال پر کچھ تحفظات ہوسکتے ہیں لیکن اس نے کبھی اعتراض نہیں کیا اور آپریشن کے لئے کبھی رکاوٹیں پیدا نہیں کیں۔ سندھ حکومت کو اگر دیوار سے لگایا گیا تو صورت حال تبدیل ہو سکتی ہے۔ کوشش کی جائے کہ ایسی صورت حال پیدا نہ ہو، جس سے آپریشن متاثر ہو کیونکہ سندھ خصوصاً کراچی کے لوگ اب مزید بدامنی کے متحمل نہیں ہوسکتے۔ آپریشن کو ہر حال میں کامیاب ہونا چاہئے۔