جناب چیف جسٹس سے منسوب ایک بیان!

October 15, 2016

چیف جسٹس پاکستان عزت مآب انور ظہیر جمالی نے ایک مقدمے کے دوران اپنے ریمارکس میں کہا ہے کہ جمہوریت نہیں بادشاہت ہے۔ اگر عوام نے ایسے ہی لوگوں کو ووٹ دیئے تو پھر ایسے ہی ہو گا، عوام کو چاہئے کہ وہ اٹھ کھڑے ہوں۔
میرے لئے بلکہ پاکستان کے جمہوری عوام کے لئے یہ بیان بہت اجنبی سا تھا۔ میں ابھی نیند سے پوری طرح بیدار نہیں ہوا تھا جب میں نے اخبار کی یہ سرخی دیکھی، میں سمجھا یہ عمران خان کا بیان ہے جو عوام کو 30اکتوبر کے جلسے کے لئے Motivateکرنے کی غرض سے دیا گیا ہے لیکن جب سرخی کے آخر میں جناب چیف جسٹس کا اسم گرامی پڑھا تو مجھے شبہ گزرا کہ عزت مآب کے بیان کو سیاق و سباق سے الگ کر کے شائع کیا گیا ہو گا ورنہ سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ کسی ملک کا چیف جسٹس عوام کو یہ بتائے کہ انہوں نے کس کو ووٹ دینا ہے اور کسے ووٹ نہیں دینا یا ’’ان سو مینی ورڈز‘‘ یہ کہے کہ وہ حکومت کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں۔ ان کے ان ریمارکس سے پاکستانی عوام جتنے مضطرب ہوئے ہیں، اس سے کہیں زیادہ ممکن ہے جناب چیف جسٹس مضطرب ہوں گے کہ انہوں کہا کیا تھا اور شائع کیا ہوا؟
جناب چیف جسٹس ہماری عدلیہ کے ان باضمیر اور بہادر ججوں میں سے ہیں جنہوں نے جنرل پرویز مشرف سے حلف لینے سے انکار کر دیا تھا اور یوں میرے دل میں ان کے لئے بے پناہ عزت ہے۔ چنانچہ جو صاحب کردار جج جنرل مشرف کی بادشاہت کے دور میں ہراساں نہیں ہوا تھا وہ کسی ایسے سیاستدان کے ہاتھوں کیا ہراساں ہو گا جو ہر کسی کو ہراساں کرنے کی کوشش کر رہا ہے تاکہ اپنی مرضی کا فیصلہ لے سکے۔ یہ بات میں نے یوں کہی ہے کہ عمران خان نے آج ایک بیان میں جنابِ چیف جسٹس سے منسوب بیان کے حوالے سے کہا ہے کہ انہوں نے ان کے بیانات کی تصدیق کر دی ہے۔ اور یہ انہوں نے چیف جسٹس کے ساتھ اچھا نہیں کیا۔ میرا یہ یقین ہے کہ آئین پاکستان کی تشریح و ترجمانی کے سب سے بڑے ادارے کے سربراہ یہ باتیں کر ہی نہیں سکتے کہ عوام نے کن کو ووٹ دینا ہے، کن کو نہیں دینا اور یہ کہ وہ اٹھ کھڑے ہوں، یہ خالص سیاسی بیانات ہیں جو اپوزیشن والے دیا کرتے ہیں۔ جناب چیف جسٹس تو صرف ان خرابیوں کا نوٹس لے رہے ہیں جو ان کے دائرئہ کار میں آتی ہیںچنانچہ وہ ان دنوںعدلیہ کی صفائی میں لگے ہوئے ہیں جہاں مختلف سطحوں پر بدترین کرپشن کا بازار گرم ہے ۔ وہ کئی دفعہ کہہ چکے ہیں کہ وہ عدلیہ کو ایسی کالی بھیڑوں سے پاک کرکے رہیں گے۔ صرف یہی نہیں وہ ان باضمیر ججوں کی توہین کرنے والوں کو بھی برداشت کرنے کے روادار نہیں ہیں جو آئین اور قانون کے مطابق فیصلے کرتے ہیں اور اس کی پاداش میں کمرۂ عدالت میں ان کی پٹائی ہوتی ہے یا انہیں باتھ روم میں بند کردیا جاتا ہے۔ انہیں اس امر پر بھی تشویش ہے کہ ہمارا عدالتی نظام ٹھیک نہیں ہے، انصاف میں تاخیر کی جاتی ہے۔ لوگ مر جاتے ہیں مگر ان کے مقدمے کا فیصلہ نہیں ہو پاتا چنانچہ ان حالات میں جناب چیف جسٹس اپنے گھر کی صفائی کریں گے یا ان معاملات میں دخل دیں گے جو ہمارے پاکستانی آئین کے مطابق ان کے دائرہ ٔ اختیار میں ہی نہیں آتے۔ یہی وجہ ہے کہ میں چیف جسٹس سے منسوب بیان کو مشکوک قرار دے رہا ہوں۔
اور آخر میں عزت مآب چیف جسٹس پاکستان جناب انور ظہیر جمالی کے حوالے سے مجھے اس امید کا اظہار کرنا ہے کہ انہوں نے جہاں ماضی میں کسی خوف و خطر کو خاطر میں لائے بغیر فوجی آمر کے سامنے ہتھیار نہیں ڈالے وہ مستقبل میں بھی اسی کردار کی پختگی کا اظہار کریں گے۔ ماضی میں ہماری عدلیہ کے ماتھے پر جہاں بہت سے جھومر سجے ہیں وہاں کچھ غلامی کے داغ بھی نمایاں ہیں۔ پاکستانی عوام کی خواہش ہے اور وہ آپ سے بجاطور پر توقع کرتے ہیں کہ آپ عدل و انصاف کے درخشاں نمونے پیش کریں گے اور فیصلے کرتے وقت کسی بھی طرف سے کسی بھی قسم کی دھمکی کو خاطر میں نہیں لائیں گے۔ آپ کےکردار کی پختگی ظاہر کرتی ہے کہ ایسا ہی ہوگا اور یوں پاکستان کے عوام کے دلوں میں آپ ہمیشہ زندہ رہیں گے۔ اِن شاء اللہ!!!
جب میں یہ کالم تحریر کرچکا تو جناب چیف جسٹس کی مندرجہ ذیل وضاحت آگئی کہ گزشتہ روز ریمارکس میں عوام کو حکومت کے خلاف اٹھ کھڑے ہونے کا نہیں بلکہ اپنے ووٹ کا درست استعمال کرنے کا کہا اور یوں میرا یہ خیال درست نکلا کہ جناب چیف جسٹس ایسی بات نہیں کرسکتے۔


.