سیاست میں بلوغت نظر آنی چاہئے

October 20, 2016

وطن عزیز کے قیام کو 69برس سے زیادہ عرصہ گزر چکا ہے۔ یہ عرصہ اتنا ضرور ہے کہ ہماری سیاست میں نہ صرف بلوغت آجانی چاہئے بلکہ سیاسی سرگرمیوں کے انداز و اطوار اور سیاست دانوں کے لب و لہجے سمیت کردار کے ہر پہلو سے بلوغت جھلکنی چاہئے۔ چھ ماہ قبل سامنے آنے والی پانامہ لیکس کے ٹرمز آف ریفرنس پر حکومت اور اپوزیشن کے اختلافات کے تناظر میں پاکستان تحریک انصاف نے احتساب کے نام پر جلسوں اور دھرنوں کا جو سلسلہ شروع کر رکھا ہے اس حوالے سے منگل کے روز وزیراعظم نواز شریف کا مسلم لیگ (ن) کا بلامقابلہ صدر منتخب ہونے کے بعد پارٹی کی جنرل کونسل سے خطاب میں کہنا تھا کہ وہ ’’ڈگڈگی بجانے والوں‘‘ سے گھبرانے والے نہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ فضول اور لغو باتوں کا جواب دینابھی وہ اپنی توہین سمجھتے ہیں۔ وزیراعظم کا مزید کہنا تھا کہ کنٹینر پر کھڑے ہوکر محض کھوکھلے نعروں اور پگڑیاں اچھالنے سے نہیں بلکہ عوام کی خدمت کے ذریعے ملک کو ترقی کی شاہراہ پر گامزن کیا جاسکتا ہے اور وہ عوام کو مسائل کی دلدل سے نکالنے تک چین سے نہیں بیٹھیں گے۔دوسری جانب تحریک انصاف کے سربراہ کا کہنا ہے کہ اب وہ ’’تلاشی‘‘ یا ’’استعفیٰ‘‘ لئے بغیر دھرنا ختم نہیں کریں گے۔ عمران خان نے اسلام آباد میں دھرنا دینے کی تاریخ اگرچہ آگے بڑھا کر 2نومبر کردی ہے مگر ان کا وفاقی دارالحکومت کو بند کرنے کا اعلان برقرار ہے جس کا نتیجہ منگل کے روز پاکستان کی حصص مارکیٹ میں مندی کی صورت میں ظاہر ہوا۔ چند روز قبل تک بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کرنے والی پاکستانی شیئر مارکیٹ کا اچانک نیچے آجانا ایسی بات ضرور ہے جس پر معاشی مسابقت کی موجودہ دنیا میں ہماری سیاسی پارٹیوں کے رہنمائوں اور کارکنوں کو غور کرنا چاہئے۔ معاملے کی سنگینی کا اندازہ دوست ملک چین کے سفیر کی بنی گالہ میں عمران خان سے کی گئی ملاقات سے لگایا جاسکتا ہے جنہوں نے پی ٹی آئی کے سربراہ کو پاک چین اقتصادی راہداری کے بارے میں ضروری تفصیلات سے آگاہ کیا ۔ چین اس راہداری پر خطیر سرمایہ کاری کررہا ہے اور اس سے نہ صرف چین اور پاکستان کے اقتصادی مفادات وابستہ ہیں بلکہ پورے خطے کی معیشت کو بہتر بنانے میں مدد ملے گی۔ احتجاجی دھرنے اور مظاہرے اگرچہ جمہوری نظام کا حصہ ہیں مگر سلطانیِ جمہور کے ہر حق کے ساتھ ایسی ذمہ داری بھی وابستہ ہے جو شاہراہ جمہوریت پر سنبھل کرچلنے کا تقاضا کرتی ہے۔ کسی عمل سے اگر ملکی پیداواریت میں کمی آئے یا وہ دوست ملکوں کے اشتراک سے بروئے کار لائے جانے والی منصوبوں میں رکاوٹ کا سبب بنے یا کسی طرح بھی مہمان غیر ملکی ماہرین کے تحفظ کے منافی ہو تو وہ عمل عمومی طور پر جمہوریت اور عوامی مفادات کے منافی سمجھا جاتا ہے۔ عمران خان سے چینی سفیر کی ملاقات میں اگرچہ یہ واضح ہوگیاکہ پاکستان تحریک انصاف اور اس کی خیبر پختونخوا صوبائی حکومت ’’سی پیک‘‘ منصوبے کی تکمیل میں بھرپور تعاون کرے گی مگر اس سے دھرنوں اور احتجاجوں کے خدشات والے پہلو کی بھی نشاندہی ہوتی ہے۔ یہ سیاق و سباق اس ضرورت کو شدت سے اجاگر کرتا ہے کہ ہمارے سیاستدان عوامی سطح پر جذباتیت اور کشیدگی کی فضا مسلسل جاری رکھنے کی بجائے اپنے کارکنوں کو بالغ نظری کی طرف لائیں۔ سیاست جنگ و جدل کا نہیں، تحمل کے ساتھ مقاصد کے حصول کی طرف پیش قدمی کا نام ہے۔ وزیراعظم کی حیثیت سے میاں نواز شریف پر زیادہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ درجہ حرارت نیچے رکھنے کے ساتھ ساتھ جہاں ضرورت ہو روابط قائم کرنے میں پہل کریں۔ جمہوری نظام میں حزب اختلاف کو ’’گورنمنٹ ان ویٹنگ‘‘ کہا جاتا ہے۔ عمران خان اس حیثیت کے ادراک کے ساتھ ساتھ حالات کے کسی مہم جوئی کی طرف جانے کی صورت میں پوری بساط کو لاحق اس خطرے کو بھی مدنظر رکھیں جس کی طرف پیپلزپارٹی اشارہ کرتی رہی ہے۔ کیا ہی اچھا ہو کہ 2نومبر سے پہلے پی ٹی آئی اور حکومت مل کر ان اخلاقی ضابطوں کا تعین اور عملدرآمد کا عہد کریں جو ہر جمہوری احتجاج کی ناگزیر ضرورت ہوتے ہیں۔

.