چیئرمین نیب رضاکارانہ واپسی کے اختیارات استعمال نہیں کرسکتے،سپریم کورٹ

October 24, 2016

سپریم کورٹ نےچیئرمین نیب کو رضاکارانہ واپسی کے اختیارات استعمال کرنے سے روک دیا ۔ دس سالوں میں رضاکارانہ رقوم واپس کرنےوالوں کی تفصیلات بھی طلب کر لیں۔

نیب میں غیرقانونی تقرریوں سے متعلق ازخود نوٹس کیس پرچیف جسٹس انورظہیرجمالی نےریمارکس دئیے کہ نیب وہ کررہاہے جوعدالت بھی کرنے کی مجاز نہیں، ایک کپ کافی پیو ،سارے معاملے سیٹ اور اپنی نوکری پر واپس جاو ٔ، نیب میں جاؤ مک مُکا کرلو۔

جسٹس عظمت سعید شیخ نےریمارکس دئیے کہ نیب بازار میں کھڑا آوازیں دے رہا ہے ’کرپشن کر لو پھر رضاکارانہ واپسی کرالو۔‘

جسٹس امیر ہانی مسلم نےکہ نیب اس میں سے 25فیصد لے لیتا ہے ، پراسیکیوٹر جنرل نیب نےکہا ایسی بات نہیں ، پلی بارگین یا رضاکارانہ واپسی میں نیب کو25فیصد نہیں آتا۔

جسٹس عظمت سعید نےکہا ایف آئی اے کے پاس کیس جائے تو رضاکارانہ واپسی نہیں ،اگر کیس نیب میں جائے تو رضاکارانہ واپسی ہے ، یہ امتیازی رویہ کیوں؟ جن کی نیب تفتیش کررہی ہے ان کی ترقیاں ہورہی ہیں ۔

جسٹس امیر ہانی نےکہا رضاکارانہ واپسی کرنے والے اراکین پارلیمنٹ اور انتہائی اعلیٰ عہدوں پر فائز لوگ بھی ہیں ۔

چیف جسٹس نےکہارضاکارانہ واپسی کا قانون بناتے وقت شرم نہیں آئی، یہ قانون کس نے بنایا؟ باہر ممالک کے لوگ اس قانون پر ہنستے ہیں کہ ایسے قوانین سے ملک چلایا جارہاہے ۔

جسٹس عظمت سعید نےکہاسپریم کورٹ نے اس قانون میں مناسب ترمیم کا کہا لیکن غیر مناسب ترامیم کردی گئیں۔

جسٹس امیرہانی مسلم نے ریمارکس دئیے ہیں کہ تقرریوں کے حوالے سےچیئرمین نیب کا اختیار تو ملک کے چیف ایگزیکٹو سے بھی زیادہ ہے۔ 2002 کے بعد سے نیب میں تقرریاں اورترقیاں کیسے ہوئیں ؟؟؟

نیب کے وکیل نے کہا تقرریاں اور ترقیاں قواعد کے مطابق ہوئیں ۔

جسٹس عظمت سعید نے کہا کہ نیب کاقواعد پرعمل درآمد حیران کن ہے ، ایک انجینئر کوڈی جی لگایاہواہے ۔

عدالت نے ڈی جی نیب آگاہی مہم عالیہ رشید، میجر ریٹائرڈ برہان ،ڈی جی نیب لاہور سلیم شہزاد، ڈی جی نیب کے پی میجر طارق اور ڈی جی نیب کوئٹہ کو نوٹسز جاری کردئیے۔

عدالت نے اسکواڈرن لیڈر ریٹائرڈطارق ندیم کی ترقیوں کے خلاف درخواستوں پر بھی نوٹس جاری کرتے ہوئے سماعت7نومبر تک ملتوی کردی۔