پاناما لیکس عدالت ِعظمیٰ میں

October 25, 2016

وائے بدنصیبی، پاکستان مسلسل سیاسی بحرانوں، بار بار مارشل لاء کے نفاذ اور اپنی اسی کیفیت میں بھرپور سیاسی و جمہوری مزاج کی حامل عجیب و غریب ریاست ہے۔ یہاں کی منتخب اورسول حکومتیں بھی آئین کے مکمل اور قانون کے یکساں نفاذ کے خلاف مزاحمت کرتی ر ہیں اور کررہی ہیں (جیسے بلدیاتی انتخابی نتائج کو مفلوج کرنا) پھر جرنیل بھی وردی کو اپنی کھال قرار دے کر دھڑلے سے حکمرانی کرتے رہے۔ ہماری اعلیٰ ترین عدلیہ (فیڈرل کورٹ) نے ابتدائی سالوں میں معزول ا سپیکر قومی اسمبلی کی حساس ترین رٹ پٹیشن پر ایسا غیرمنطقی اور عام دماغ کی فہم سے باہر، سیاسی فیصلہ دیا کہ آنے والے عشروں تک کے لئے جمہوریت بلڈوز ہوگئی۔ اس کے نتائج دور رس بھی نکلے اور ہولناک بھی ثابت ہوئے۔ ملک تک ٹوٹ گیا اور’’سیاسی عدم استحکام‘‘ دنیا میں ہماری پہچان بن گیا۔ عدلیہ کے اعتبار کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا اور آنے والی پارلیمنٹس نیم جاں و بے نتیجہ ثابت ہوئیں۔ یوں پاکستان بنانے والی قوم جیتے جی بجھ گئی۔ بس ایسے کہ حالات کی سنگینی نے اسے ذہنی غلام بنادیا۔
اس پس منظر کے نتائج کو پڑھتے ہوئے پاکستان کی نئی نسل اک بار پھر چند بڑی بنیادی کامیابیوں کیساتھ نئی راہ کی تلاش میں ہے۔ اسٹیٹس کو تشکیل دینے والے طبقے کا مائنڈ کتنا ہی سیٹ ہو اور جاری نظام بد کی طاقت جتنی بھی ہو ، عوام الناس کی بھاری اکثریت’’گڈ گورننس بذریعہ آئین کا مکمل اور قانون کا یکساں نفاذ‘‘ کرپشن فری پاکستان، بے رحم احتساب، ترقی جاریہ کو یقینی بنانے کے لئے ترقی کے عمل میں عوامی شرکت ،ریاستی اداروں کے بمطابق آئین فنکشنل ہونے اور رشوت و ظلم کی سب سے بڑی علامت تھانہ کچہری کلچر کی بیخ کنی کو اپنا سیاسی ایجنڈا بناچکی ہے۔ یہ اب پاکستان کا قومی ایجنڈا ہے جس سے کوئی ایک سیاسی جماعت اختلاف کی جرأ ت نہیں کرسکتی۔ لوگ روایتی پارٹیوں ، سیاسی خاندانوں اور آزمودہ نااہل اور عوام دشمن قیادت کی اندھی تقلیدچھوڑ چکے اور چھوڑ رہے ہیں۔ گویا’’اسلامی جمہوریہ‘‘ میں آئین نو بمقابلہ طرز کہن برپا ہوگیا۔ تبدیلی کے علمبرداروں کی پہلی کامیابی ہی یہ ہے کہ آئین نو سے ڈرنے والے طرز کہن کے پجاری بھی، عوام کے اپنے تشکیل دئیے ہوئے قومی ایجنڈے کے کسی ایک نکتے سے اختلاف کی کھل کر جرأت نہیں کرپارہے۔ وہ سخت مشکل میں ہیں کہ اس سے اتفاق بھی کرنا پڑرہا ہے اور طرز کہن کو بچانا بھی ہے۔ ایک بڑی کامیابی یہ ہے کہ پاکستانی ا فواج نے سلامتی کے نئے چیلنجز کو بالآخر سمجھ لیا، شکرالحمدللہ !آج پاکستان اپنی داخلی سلامتی پر ڈیڑھ عشرے کے پے درپے حملوں کے بعد ہم ایک نئے رنگ میں دنیا کے سامنے ابھرے ہیں’’داخلی سلامتی‘‘ جس پر کتنی طرح کے اور جتنی جانب سے حملے ہوتے رہے، کے چیلنج سے فوج اور سول آبادی مکمل کامیابی سے نپٹی۔ پاکستان کی سرحدیں کتنی محفوظ ہیں، مودی کے بھارت اور دنیا نے دیکھ لیا۔ آج بھارت مایوسیوں کی اتھاہ گہرائیوں میں ڈوب رہا ہے اور اسے اپنی داخلی پریشان کن خطرات سے نپٹنے کے چیلنجز بڑھتے ہی جارہے ہیں۔ سب سے بڑا مودی کی بنیاد پرستی۔ ادھر ہماری فوج تہیہ کرچکی ہے کہ وہ ماضی کی غلطیوں کو دہراتے ہوئے کبھی اقتدار کی طرف نہیں آئے گی۔ دوسری جانب عوام کی بیڈ گورننس سے نپٹنے کی صلاحیت میں اضافہ ہورہا ہے۔ کسی کے لئے منافع بخش آئوٹ آف دی وے ترقیاتی پروجیکٹس کے جھانسے کے مقابل انہیں اپنی صحت، تعلیم، صاف پانی، بہتر مکمل غذا کا ایسا ہوش آیا ہے کہ ان سے یہ سب کچھ چھیننے والوں کے ہوش اڑ گئے ہیں۔ ایک عظیم اور بنیادی کامیابی وکلاء تحریک کے بعد بالائی سطح پر آزاد عدلیہ کی بحالی ثابت ہوئی جس میں ماوراء آئین و قانون وزارت عظمی چلانے پر وزیر اعظم گھر گیا اور حکومت اور جمہوریت دونوں بچی رہیں۔ کتنے ہی خلاف قانون کئے گئے حکومتی فیصلے ریورس ہوگئے۔ اس میں وکلاء کے انقلابی قدم کا قومی تحریک میں ڈھلنے کا محرک اپنی جگہ تھا پھر جوڈیشل ایکٹیوزم کی چھتری میں بالائی عدلیہ کی آزادی و غیر جانبداری بھی آزمائی گئی ، جو اب اپنے شروع ہوئے درجے پر برقرار تو نہ رہ سکی۔ شاید کچھ فنی وجوہات بھی ہوں گی۔بہر حال پاکستان میں عدالت کے اس روشن کردار اور اس کے پس پردہ باروبینچ کے قابل قدر اور شہرۂ آفاق شعور و عزم کا دخل ایسا تھا کہ اس تاریخ برباد عدالتی فیصلے کا ایک حد تک ازالہ ہوا جس سے جمہوریت’’اسلامی جمہوریہ‘‘ میں ہوش سنبھالنے سے پہلے بلڈوز ہوئی لیکن اس کا کفارہ تکمیل ہونا ابھی باقی ہے۔آج جب ہم ایک اور کامیابی کی طرف بڑھ رہے ہیں کہ پارلیمان اور دوسرے ریاستی اداروں کی بمطابق آئین احتسابی عمل شروع کرنے میں ناکامی کے بعد پاناما لیکس بالآخر عدالت عظمیٰ میں آگیا ہے، گویا آزاد ہوئی عدلیہ کا ایک اور بڑا امتحان جس کا کوئی بھی فیصلہ لفظاً نہیں حقیقتاً تاریخ ساز ہوگا کہ اس کے نتائج اتنے ہی دور رس ہوں گے جتنے(لیکن تباہ کن) فیڈرل کورٹ کے گورنر جنرل غلام محمد کے اسمبلی توڑنے کے غیر آئینی و قانونی فیصلے کی توثیق کے نکلے تھے۔ ان شاء اللہ اب یہ مثبت ہی ہوں گے۔ بالائی عدلیہ آزاد ہے، حقائق مکمل آشکار، عوامی فہم بہت آگےاور میڈیا کا پیشہ ورانہ کردار قابل تحسین، ایسے میں خان اعظم کو اپنا’’اسلام آباد بند کرنے‘‘ کا احتجاج علامتی ہی قرار دینا چاہئے جو آئین و قانون کے دائرے میں ہو بھرپور اور مختصر ترین۔ اس کی بھی اپنی شدت سے، اس میں طوالت حکومتی دعوئوں اور خدشات کی تصدیق کرسکتی ہے۔ باقی عدلیہ پر چھوڑ دیا جائے اس یقین کے ساتھ عدلیہ اتنی ہی ذمہ دار، غیرجانبدار اور آزاد ہے جتنی قوم اب بیدار ،چوکس اور اپنے تشکیل دئیے گئے قومی ایجنڈے پر پرعزم۔


.