آئی ٹی پارک کا کنٹریکٹ پرویز الٰہی حکومت سے ملا تھا، جاوید صادق

October 27, 2016

کراچی (ٹی وی رپورٹ)جیو کے پروگرام ”آج شاہزیب خانزادہ کے ساتھ “ میں گفتگو کرتے ہوئے آئی ایم ایف کی سربراہ کرسٹین لیگارڈ نے گفتگو کرتے ہوئے کہاکہ پاکستان نے تین برسوں میں معیشت کو مستحکم راہ پر استوار کیا،تین سال قبل پاکستان کی معیشت زوال پذیر تھی ،آئی ایم ایف پروگرام کو پاکستان نے کامیابی سے مکمل کیا، جاوید صادق نے کہا کہ یہ بات درست ہے کہ آئی ٹی پارک کا کنٹریکٹ پرویز الہٰی حکومت سے ملا تھا،2008میں جب شہباز شریف دوبارہ وزیراعلیٰ بنے تو نیسپاک نے مجھے بلایا کہ چیف منسٹر ملنا چاہتے ہیں،شہباز شریف سے اس حد تک تعلق ہے کہ میں نے جتنے پروجیکٹ بھی ان کیلئےکئے تو انہوں نے اسے ڈس کولیفائی کیا۔نعیم الحق نے کہا کہ مکمل آڈٹ سے دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جائے گا۔کرسٹین لیگارڈ نے مزیدکہا کہ پاکستان نے آئی ایم ایف پروگرام کو کامیابی سے مکمل کرلیا ہے، پاکستا نے گزشتہ تین برسوں میں معیشت کو مستحکم راہ پر استوار کیاجو تین سال قبل زوال پذیر تھی، یہ پاکستان کی بڑی واضح کامیابی ہے، پاکستان کو معیشت کے استحکام کو برقرار رکھنے کیلئے مزید مواقع پیدا کرنے اور مزید اصلاحات لانے کی ضرورت ہے تاکہ معیشت کو مزید مضبوط اور مالی ذخائر میں اضافہ کیا جاسکے جو مستقبل میں پاکستان کو ممکنہ طور پر درپیش کسی بحران سے نکالنے میں مدد کرسکے، یہ خاص طور پر اس لئے بھی اہم ہے کہ ضروری نہیں کہ بیرونی ماحول ترقی کیلئے اتنا سازگار ہو جیسے پہلے ہوا کرتا تھا، پاکستانی معیشت کا استحکام مستقبل میں ہونے والی ترقی میں اضافے کیلئے بہت اہم کردار ادا کرسکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہماری نظر میں پاکستان میں برآمدات میں بہتری کیلئے کافی گنجائش ہے، پاکستان کی برآمدات کا اس جیسے حالات کا سامنا کرنے ممالک سے موازنہ کیا جائے تو پاکستان میں بہتری کی گنجائش نظر آتی ہے، عالمی منڈی میں تیل اور گیس کی قیمتیں کچھ عرصے ایسی ہی رہیں گی جس سے فائدہ اٹھا کر پاکستان اپنی پیداوار میں اضافہ کرسکتا ہے،بہتر پیداوار اور پاکستانی کرنسی جس کی قدر زمینی حقائق سے زیادہ نہ ہوں پاکستان کی ترقی اور برآمدات میں اضافے کا باعث بنے۔ کرسٹین لیگارڈ کا کہنا تھا کہ پاکستانی کرنسی کی قدر میں خاص قسم کی لچک ضروری ہے تاکہ اچانک آنے والے بحران کو سہہ سکے جیسا دنیا کے دیگر ممالک میں ہوا، تین سال قبل پاکستانی معیشت شدید بحران کا شکار تھی، ایسی صورتحال میں یقیناً کوئی سرمایہ کار براہ راست سرمایہ کاری نہیں کرتا لیکن معیشت کو مستحکم بنا کر اور معاشی پالیسی کو غیرمتزلزل بنا کر ہی صورتحال قابو میں لائی جاسکتی ہے، اس کے بعد ہی سرمایہ کاری کیلئے اچھا ماحول فراہم کیا جاسکتا ہے جس کے ذریعے آپ معیشت کی سمت متعین کرسکتے ہیں، اسی کے ذریعے آپ بجلی کی پیداوار، ترسیل اور تقسیم کو بھی بہتر بناسکتے ہیں، یہ وہ چیزیں ہیں جس کی بنیاد پر بیرونی سرمایہ کار پاکستان میں اپنے کاروبار کو محفوظ طور پر ترقی کرتا ہوا دیکھ سکتے ہیں، پاکستان کے معاشی حالات یقینی طور پر بہتر ہوئے ہیں، ایسا نہیں کہ ہمیں مزید کچھ کرنے کی ضرورت نہیں بلکہ ابھی اور بہت کچھ کرنا ہے، مزید اصلاحات نافذ کرنا ہے اور ماحول کو کاروبار کیلئے مزید سازگار بنانے کی ضرورت ہے، کرپشن کا خاتمہ کرنا چاہئے ، ابھی بہت کچھ کرنا باقی ہے اور بہت سے ایسے ترقی کے عوامل اب بھی موجود ہیں جنہیں اجاگر یا پروان چڑھانے کی ضرورت ہے، میں پاکستانی خواتین کو دیکھتی ہوں کہ وہ کتنی مضبوط، کتنی طاقتور اور کتنی تخلیقی صلاحیتوں کی حامل ہیں، پاکستانی خواتین کی تعلیم تک رسائی ممکن بنانے کی ضرورت ہے، فائنانس تک ان کی رسائی ممکن بنانی چاہئے اور معیشت میں بھی ان کی نمائندگی ہونی چاہئے، یہ صورتحال کو یکسر تبدیل کرنے کیلئے معاون ثابت ہوسکتا ہے۔سربراہ آئی ایم ایف کا کہنا تھا کہ پاکستان میں توانائی کے شعبہ میں یقینی طور پر نمایاں بہتری آئی ہے اور کمپنیوں کی پیداوار بھی بہتر ہوئی ہے، اس کا اندازہ صنعتی اور گھریلو صارفین کیلئے بجلی کی لوڈشیڈنگ میں کمی سے لگایا جاسکتا ہے، پاکستان کو توانائی کے شعبہ میں خودمختار ہونے کے لئے مزید اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے۔ کرسٹین لیگارڈ نے سی پیک کے حوالے سے سوال پر کہا کہ ایسے ممالک جہاں مواقع بہت کم ہوں وہاں انفرااسٹرکچر میں بہت زیادہ سرمایہ کاری بہت اہم ہوتی ہے، ذرائع آمدورفت میں بہتری سے پیداواری صلاحیت میں خاطر خواہ بہتری آتی ہے کیونکہ لوگوں کو ان منصوبوں کو خود تعمیر کرنا پڑتا ہے تاکہ پیداوار مطلوبہ جگہ تک پہنچ سکے، بندرگاہیں جدید بنیادوں پر استوار ہوتی ہیں، ایئرپورٹ پر مسافروں کو دی جانے والی سہولتوں میں اضافہ ہوتا ہے تو ان تمام چیزوں کو مدنظر رکھتے ہوئے ان منصوبوں کی کامیابی کے امکانات روشن ہیں، اس کی نگرانی کی ضرورت ہے یا اس طریقے سے بنانے کی ضرورت ہے جس سے پاکستان کو آگے بڑھنے میں مشکل نہ ہو ،قرضوں کی جانچ پڑتال کی جانی چاہئے اور سود کی ادائیگی مارکیٹ کے مطابق ہو اور ایک مناسب مدت کیلئے دی جانے والی ضمانت معقول ہونی چاہئے، پاکستانی حکام کوا ن معاملات اور تجارتی روابط میں بہت احتیاط سے کام لینے کی ضرورت ہے۔پاکستانی حکومت کی ٹیکس پالیسی کے حوالے سے سوال پر کرسٹین لیگارڈ نے کہا کہ ٹیکسوں سے متعلق پالیسیوں میں ابھی بھی اصلاحات کی ضرورت ہے ،ان اصلاحات کا مقصد ٹیکس سسٹم کو بہتر بنانا اورٹیکس چوروں سے لڑنا ہے تاکہ جو ٹیکس نہیں دے رہے ان میں باقاعدگی سے ٹیکس ادا کرنے کا شعور آئے، سوال یہ نہیں کہ نچلے متوسط طبقہ پر مزید بوجھ ڈال دیا جائے بلکہ اس کا مقصد تمام ٹیکس دینے والوں کو ایک جگہ لاکھڑا کرنا ہے تاکہ ٹیکس حاصل کرنے کے قانون میں جو خرابیاں ہیں انہیں دور کیا جاسکے اور شفافیت کے عمل کو یقینی بنایا جائے۔پی آئی اے، اسٹیل ملز، ریلوے، پاور ڈسٹری بیوشن کمپنیوں کی نجکاری کے بارے میں سوال پر سربراہ آئی ایم ایف کا کہنا تھا کہ ان کمپنیوں کی نجکاری کے عمل کو انجام تک پہنچنا چاہئے لیکن اس میں تشکیل نو کی اشد ضرورت ہے، کیونکہ اگر ان کمپنیوں کی حالت ایسی ہی خراب رہے گی تو کوئی بھی نجی سرمایہ کار ان میں ہاتھ نہیں ڈالے گا، نجکاری جیسے عمل کے لئے اداروں میں بہتری کی ضرورت ہے۔ شاہزیب خانزادہ کے سوال پاکستان نے آئی ایم ایف کو مستقل طورپر خیرباد کہہ دیا ہے یا ہم دوبارہ آپ کے پاس آئیں گے؟ کا جواب دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ میں یقین دلاتی ہوں کہ مجھ سے کسی قسم کے پروگرام کی کوئی درخواست نہیں کی گئی مگر ہمیں کسی بھی قسم کی مدد کر کے خوشی ہوگی، ہم پارٹنرشپ میں اپنی خدمات دینے کیلئے موجود ہیں، آئی ایم ایف ان 88ممبران کی تکنیکی معاونت ، ٹریننگ، پالیسی پر مشاورت کیلئے موجود ہے۔جاوید صادق اور نعیم الحق کی گفتگو کی مکمل ٹرانسکرپشن شاہزیب خانزادہ: شہباز شریف عدالت سے استدعا کررہے تھے عمران خان کے خلاف ہرجانے کیلئے، 26ارب 55 کروڑ روپے، یہ اماؤنٹ کہاں سے آیا؟ اتنا ہی exactly الزام آج عمران خان کی طرف سے شہباز شریف پر لگایا گیا ہے کہ انہوں نے اپنے فرنٹ مین کے ذریعے اتنے ارب روپے کی کرپشن کی، فرنٹ مین کا نام بھی سامنے رکھ دیا، فرنٹ مین ہمارے ساتھ بھی موجود ہے جس کو عمران خان فرنٹ مین کہہ رہے ہیں، ساتھ ہی شہباز شریف نے جہانگیر ترین کے حوالے سے بات کی، اب پی ٹی آئی کہہ رہی ہے، جہانگیر ترین صاحب کہ میں بھی ہرجانہ کروں گا، جو پیسے ملیں گے شوکت خانم کو دیدوں گا، علیم خان کہہ رہے ہیں ہرجانہ کروں گا اور جو پیسے ملیں گے وہ شوکت خانم کو دیدوں گا، ہرجانہ، ہرجانہ ہر طرف سے ہورہا ہے، عمران خان کے جس ڈاکومنٹ کی شہباز شریف بات کررہے ہیں وہ یہ ہے، عمران خان کا آج سنگین الزام لگاتے ہوئے کہنا تھا (عمران خان کا کلپ دکھایا گیا) یہ ہیں شہباز شریف کے فرنٹ مین جو شہباز شریف کے behalf پر چائنیز کمپنیز کے ساتھnegotiate کرتے ہیں، وہ پاکستان کے ساتھ ڈیل کرتی ہیں، کمیشن انہیں ملتا ہے، شہباز شریف کے فرنٹ مین ہیں اس لئے پیسہ ان کے پاس جاتا ہے، 26 ارب 55کرو ڑکا الزام، شہباز شریف کہہ رہے ہیں کہ اتنے کا ہی ہرجانہ، عدالت سے استدعا کررہے ہیں کہ روزانہ یہ معاملہ چلائیں۔ شاہزیب خانزادہ: جاوید صادق صاحب چار الزامات ہیں، میں چاروں پر باری باری بات کروں گا۔