ہم عہدفیض میں جی رہے ہیں

November 25, 2015

فیض نے اردوشاعری کوایک نیانصیب ونسب ہی نہیںدیابلکہ نئی شریعت کی بشارت بھی دی ہے۔ انسانوں کے دلوں میں امن ومحبت، انصاف ومساوات، برداشت و رواداری، ،اشتراکیت وجمہوریت کاجوچراغ جل رہاہے فیض نے اس چراغ میں نوک قلم سے اتناتیل بھردیاہے کہ یہ صدیوں تک جلتارہے گا اوراپنی روشنی چارسو پھیلاتارہے گا۔
جب13فروری کوفیض صاحب کی سالگرہ کادن آتاہے رات بھرسوچتارہاکہ فروری سال میں کتنی بارآتاہے؟شایدساری سوچ عناصرمیں اعتدال کی کمی کی وجہ سے ہو، کہتے ہیں کہ غالب بھی آخری عمر میں ایسی بیماری میں مبتلاہوا، آدمی ذہین تھا اس لئے جب دریامیں ڈوبنے گیاتودریا ملاپایاب اسے۔میں ابھی زندہ ہوں بقول غالب ہی کے۔’’وہ زندہ ہم ہیں کہ ہیں روشناس دہرائے دل‘‘دوسرامصرعہ غیر ضروری ہے ۔جہاں تک میں سمجھتاہوں فیض صاحب بھی زندہ ہیں پس وہ ہمارے درمیان نہیں رہے اوریہ اتنی بڑی بات ہے کہ کبھی کبھی کچھ کرگزرنےکوجی چاہتاہے۔فیض صاحب کے گزرنے کاواقعہ ایک باران کی صاحبزادی مصورہ سلیمہ ہاشمی نے بتایا۔
معروف موسیقار خواجہ خورشیدانور سے اباکی دوستی گورنمنٹ کالج لاہورکے زمانے سے تھی، ابا کہاکرتے تھے کہ اس زمانے میں خواجہ صاحب ان سے بہتر شاعرتھے جب ابابیروت میں تھے تو خواجہ صاحب جودنیاسے تقریبا کنارہ کش ہوچکے تھے مجھے کہیں ملے اورکہا’’ فیض کوخط لکھو توکہہ دیناکہ میں بیمارضرور ہوں لیکن اسے ملے بغیردنیاسے نہیں جائوں گا۔ اسے معلوم ہے کہ میں کتنا ڈھیٹ ہوں’’… اباجب گھرلوٹے توخواجہ صاحب ریلوے اسپتال لاہورمیں داخل تھے۔ اباکے آتے ہی میں نے ذکرکیا اور خواجہ صاحب کاپیغام دیا توبولے۔’’چلیں گے‘‘۔دوسرے روزہم اسپتال پہنچے تودونوں ملے۔ خواجہ صاحب بہت اچھے موڈمیں تھے اورکوئی کمزوربھی نظرنہیں آرہے تھے، ابا کی صحت بھی پہلے سےبہترتھی۔دونوں گلے ملے اوردونوں کی آنکھیں بھرا گئیں۔ میں نے دیکھاکہ معاملہ کچھ جذباتی ہورہاہے تومیں نے ڈانٹ کرکہا ’’خواجہ صاحب، سردیاں آرہی ہیں اب آپ دونوں بابے باغ میں بیٹھ کر اپنی اپنی کتابیں لکھیں‘خواجہ صاحب آپ نے صدیوں سے موسیقی پرکتاب لکھنےکاوعدہ کیا ہواہے اورابوآپ نے اپنی سوانح عمری شروع کرنی ہے ‘‘… خواجہ صاحب مسکرادیئے اورکہنے لگے’’فیض توآگیا ایں، ہن بس میں اکڑچلاں‘‘ ابا کی آنکھوں میں مجھے کچھ تیرتانظرآیاجلدی سے جواب دیا’’ہاں دونوں نال چلاں گے‘‘…خواجہ صاحب اپنی بات کے پکے نکلے ‘ہفتے بعد چھوڑگئے۔ فیض جودوستی نبھانے کے قائل تھے 20دن بعد وفات پاگئے فیض صاحب کے بارے میں ایک بارسیف الدین سیف نے مجھے بتایا’’نظریاتی اختلاف کے باوجود فیض صاحب میرے کلام کے بہت زیادہ مدح تھے۔ ایک دفعہ میرے ترقی پسنددوست واحباب مجھے سمجھارہے تھے کہ میں سوشلسٹ ہوجائوں۔فیض صاحب جوبڑے غورسے ہماری بحث وتکرارسن رہے تھے اچانک بول اٹھے۔ ’’رہنے دیں۔ بھئی کسی کوتوشاعر رہنے دیں۔ اگر سیف بھی سوشلسٹ ہوگیا تو پھرہم اچھے شعر کہاں سےسنیں گے‘‘…
1960کی دہائی کاذکرہے کہ آرٹس کونسل لاہورکی گہماگہمی اپنے عروج پرتھی۔مصنف اورڈرامہ آرٹسٹ کمال احمدرضوی جوان دنوں آرٹس کونسل میں ایک ڈرامے کی ریہرسل کررہے تھے اورتلاش بسیارکے باوجود کوئی کام کی ہیروئن تلاش کرنے میں ناکام ہوگئے تھے ایک دن فیض صاحب کے گھرماڈل ٹائون شورمچاتے ہوئے واردہوئے اورکہا۔’’فیض صاحب 8دن کے بعد ڈرامہ شروع ہونےوالاہے اورابھی تک ہیروئن نہیں مل پائی۔ میں سخت پریشان ہوں۔ کچھ کیجئے‘‘… فیض صاحب نے حسب معمول سکون سے سگریٹ کی راکھ جھاڑی اوربولے۔ ’’توبھئی ہمیں رکھ لو‘‘۔
سلیمہ ہاشمی اپنے میاں شعیب ہاشمی کے ساتھ بہت پہلے لندن میں مقیم تھیں۔فیض صاحب کالندن آنا جانا لگارہتاتھا کبھی کبھار کسی چیزکی ضرورت ہوتی توسلیمہ ہی خریداری کرتیں۔ ایک مرتبہ فیض صاحب لندن آئے تو ان دونوں میاں بیوی کو اچانک خیال آیاکہ انہیں شیور(الیکٹرک )کی ضرورت ہے چونکہ انہیں اسی دن واپس لوٹناتھا اوروہ اتوار کادن تھا۔ 1960کے زمانے میں اتوار کوسب دکانیں بندرہتی تھیں شعیب ہاشمی نے کہا۔’’فیض صاحب آج اتوارہے بہرحال ڈھونڈتے ہیں۔ شایدکوئی دکان کھلی مل جائے۔ آپ کیسا شیور چاہئے؟ فیض بولے’’ایسا شیور چاہئے جوبیٹری سے بھی چلے اوربجلی سے بھی۔ACبھی ہو اورDCبھی ۔اس کے علاوہ بیٹری چارج کرنے والابھی ہو‘‘۔شعیب نے کہا۔’’فیض صاحب فیرتے بھاپ نال چلن والا لبھے گا‘‘…
پانچ دریائوں کی زرخیزسرزمین کی عظمت کایہ ستارہ امتیاز جسے فیض احمدفیض کہتے ہیں جب آخری بار گھرآیا توکسی نے ان سے سوال کیا۔’’فیض صاحب :آپ کادنیامیں اتنانام ہے اورساری دنیامیں اتنی عزت ہے لیکن افسوس ہے کہ آپ کے اپنے ملک پاکستان میں آپ کو اتنی پریشانیوں کاسامناہے‘‘۔ فیض نے فوراجواب دیا۔’’نہیں ہمارے خیال میں ہم سے زیادہ خوش قسمت بہت کم لوگ ہوں گے ۔لوگوں کوتوگلہ رہتاہے کہ انہیں زندگی میں ان کے لائق رتبہ نہیں ملا۔ہمیں تواپنے حصے سے کہیں زیادہ لوگوں کی محبت ‘خلوص اورپیارملا‘‘… اورپھرذرازوردے کربولے۔’’شاید آپ حکومت پاکستان اورپاکستان کے عوام کوآپس میں Confuse (گڈمڈ)کررہے ہیں‘‘۔
فیض صاحب کے ساتھی معروف صحافی حمیداختر مرحوم نے ایک ثقافتی پروگرام میں مجھے لندن میں بتایا ’’ملکہ ترنم نورجہاں نےپینتیس(35)‘چالیس(40) برس پہلے ہم سے ایک دفعہ کہاتھا کہ میں فیض سے بے پناہ محبت کرتی ہوں مگریہ فیصلہ نہیں کرپاتی کہ یہ محبت کس قسم کی ہے اس لئے کہ کبھی تومجھے محسوس ہوتاہے کہ وہ میرے محبوب ہیں‘کبھی میں ان کواپناعاشق تصورکرتی ہوں‘کبھی وہ مجھے اپنے باپ کی طرح نظرآتے ہیں‘کبھی شوہر‘کبھی بزرگ اورکبھی برخوردار‘‘…فیض کی محبت میں سرشار کوئی شخص یہ فیصلہ نہیں کرپاتا کہ وہ انہیں کس حدتک چاہتاہے۔
فیض بلاشبہ اپنے عہد کی آوازہیں اورہم عہدفیض میں جی رہے ہیں…
فیض صاحب کیلئے میراایک شعر ہے۔
یہ بھی سچ ہے کہ کڑی دھوپ میں چلنا ہے مجھے
اور وہ سایہ فگن مجھ پہ ہے یہ بھی سچ ہے
(اسد مفتی)