’’تم نے بھلا دیا ، میں نے نہیں بھلایا ہے ‘‘

November 27, 2015

مخدوم محمد امین فہیم بھی اس فانی دنیا سے بالآخر رخصت ہو گئے ۔ ان کا تعلق ایک بڑے روحانی اور سیاسی خانوادے سے تھا ۔ وہ نو لکھی گدی کے وارث تھے ۔ صدیوں سے ان کے خاندان کے لیے لوگوں کے دلوں میں عزت و احترام تھا ، جو مخدوم صاحب کو ورثے میں ملا تھا لیکن انہوں نے عہد نو کی سیاست میں ساری زندگی وفاداری ، نظریات سے سچی وابستگی اور اصولوں کی خاطر قربانی کا جو راستہ اختیار کیا ، اس سے ان کی قامت مزید بلند ہو گئی تھی ۔ یہ راستہ کوئی روایتی پیر یا وڈیرہ اختیار نہیں کر سکتا تھا بلکہ ایک صوفی اور شاعر ہی اختیار کر سکتا تھا۔علاج کی غرض سے بیرونی ملک جانے سے چند دن قبل مخدوم صاحب سے کراچی میں ان کی رہائش گاہ پر آخری ملاقات ہوئی تھی ۔ ان کے بھائی مخدوم نویدالزمان کے انتقال پر ہم لوگ تعزیت کرنے گئے تھے ۔ پیپلز پارٹی کی قیادت نے ان کے ساتھ جو کچھ کیا ، اس پر وہ بہت دکھی تھے مگر رواداری کا یہ عالم تھا کہ وہ اپنی بات کرنے کے لیے الفاظ کا اس طرح انتخاب کرتے تھے کہ وہ بات شکوہ محسوس نہیں ہوتی تھی ۔ وہ بہت نفیس انسان تھے ۔ انہوں نے رکھ رکھاؤ ، وضع داری اور شائستگی کا دامن کبھی نہیں چھوڑا ۔ ایک صحافی کی حیثیت سے ہم نے ’’ آف دی ریکارڈ ‘‘ بہت سی باتیں کہلوانے کی کوشش کی لیکن انہوں نے اپنی رواداری کی حد کو پار نہیں کیا ۔ ان کے قریبی حلقوں سے معلوم ہوا کہ وہ شیری رحمن کو ان سے پوچھے بغیر پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمنٹرینز کا سینئر وائس پریذیڈنٹ بنانے پر ناراض تھے ۔ انہیں اس بات کا بھی شکوہ تھا کہ تھر میں قحط سے پیدا ہونے والے بحران کا سارا ملبہ ان کے صاحبزادے صوبائی وزیر مخدوم جمیل الزمان اور دوسرے صاحبزادے ڈپٹی کمشنرتھر مخدوم شکیل الزمان پر ڈال دیا گیا حالانکہ ان دونوں کے پاس کوئی اختیارات نہیں تھے ۔ تھر کے ریلیف کے معاملات کوئی اور چلا رہا تھا ۔ ان کے قریبی حلقوں کے مطابق محترمہ بے نظیر بھٹو کی شہادت کے بعد پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری نے یہ اعلان کیا تھا کہ اگر پیپلز پارٹی انتخابات میں کامیاب ہوئی تو مخدوم امین فہیم وزیر اعظم ہوں گے ۔ مخدوم صاحب کو اس بات کا بھی دکھ تھا کہ انہوں نے وزیر اعظم بننے کی خواہش نہیں کی تھی ۔ یہ اعلان کرکے انہیں وزیر اعظم نہیں بنایا گیا اور اس کا جواز پیش کرنے کے لیے ان کی وفاداری پر شک کیا گیا ۔ انہیں اسٹیبلشمنٹ کا نمائندہ کہا گیا اور ان کے حلقے میں پیپلز پارٹی کے کارکنوں سے ان کے خلاف مظاہرے کرائے گئے ۔ انہیں اگر وزیر اعظم بننا ہوتا تو فوجی آمر انہیں کئی مرتبہ وزیر اعظم بنانے کی پیشکش کر چکے تھے ، جو انہوں نے ٹھکرا دی ۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ 1988 ء میں بھی خود شہید محترمہ بے نظیر بھٹو نے انہیں سندھ کا وزیر اعلیٰ بنانے کا وعدہ کیا تھا لیکن اس وقت بھی مخدوم صاحب وزیر اعلیٰ نہ بن سکے ۔ 2013ء میں بھی ان کے صاحب زادے جمیل الزمان کو وزیر اعلیٰ سندھ بنانے کی باتیں ہوتی رہیں لیکن یہ صرف باتیں رہیں ۔ مخدوم صاحب کی طرف سے کبھی میڈیا یا پبلک میں آن ریکارڈ کوئی شکوہ موجود نہیں ہے ۔ سیاست میں ایک مرحلہ ایسا بھی آیا تھا کہ جب ان کے خاندان کے لوگوں اور ان کے مریدین نے انہیں مشورہ دیا کہ وہ سیاست چھوڑ دیں اور اپنی گدی سنبھالیں ۔ انہیں کسی سیاسی عہدے کی ضرورت نہیں ہے ۔ اللہ نے انہیں بہت عزت دی ہے ۔ ذہنی کوفت سے بچنے کے لیے سیاست کو خیرباد کہہ دیں لیکن انہوں نے کہا کہ وہ سیاست کو اس لیے خیر باد نہیں کہہ سکتے کہ وہ پیپلز پارٹی کو نہیں چھوڑ سکتے ۔ وہ دن کبھی نہیں بھلایا جا سکتا ، جب پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری کے منہ بولے بھائی سید اویس مظفر ناراضی کا اظہار نہ کرنے والے ناراض مخدوم محمد امین فہیم کو منانے ان کے گھر پہنچے تھے اور اس کی اطلاع میڈیا کو پہلے کر دی گئی تھی ۔ ملاقات کے بعد مخدوم امین فہیم اور سید اویس مظفر نے ایک ساتھ پریس کانفرنس کی ۔ کسی کی یہ ’’ سیاست ‘‘ کامیاب ہو گئی تھی کہ وہ مخدوم امین فہیم کو اس مقام پر لے آیا تھا کہ مخدوم صاحب سید اویس مظفر کے ساتھ مل کر پریس کانفرنس کر رہے تھے لیکن یہ مخدوم صاحب کی اعلیٰ ظرفی تھی کہ انہوں نے آصف علی زرداری کے نمائندے کی حیثیت سے سید اویس مظفر کو مکمل پروٹوکول دیا ۔ اس پریس کانفرنس میں کھڑے ہوئے میں ماضی کے جھروکوں میں جھانک رہا تھا ۔ نوجوان مخدوم امین فہیم 1970ء میں لندن میں ذوالفقار علی بھٹو سے ملاقات کرکے ان کا ساتھ دینے کا وعدہ کر رہے ہیں ۔ واپس آکر وہ اپنے والد مخدوم طلب المولیٰ کو پیپلز پارٹی میں شامل ہونے کے لیے مجبور کرتے ہیں ۔ یکم اور دو جولائی 1970ء کو تاریخی ہالہ کانفرنس منعقد ہوتی ہے ، جس میں پاکستان کے غریب لوگوں کے لیے انقلابی اور جمہوری راستہ اختیار کرنے کا عزم کیا جاتا ہے ۔ اس کانفرنس میں مشرقی اور مغربی پاکستان کے عظیم سیاسی زعماء شریک ہوتے ہیں اور نوجوان مخدوم امین فہیم بائیں بازو کے ایک انقلابی لیڈر کی حیثیت سے کانفرنس سے خطاب کرتے ہیں ۔ پھر یہ مخدوم خاندان بھٹو اور پیپلز پارٹی کے ساتھ ہر مشکل میں ساتھ دیتا ہے ۔ ضیاء الحق کا بدترین مارشل لاء نافذ ہوتا ہے ۔ سب وڈیرے ، جاگیردار اور پیر پیپلز پارٹی کو چھوڑ جاتے ہیں لیکن ہالہ کے مخدوم مسلسل دباؤ کے باوجود پیپلز پارٹی کے ساتھ رہے ۔ ایم آر ڈی کی تحریک میں ہالہ اور مورو مزاحمت کے دو بڑے مراکز بنے رہے ۔ مورو میں مزاحمت آخر دم توڑ گئی لیکن ہالہ میں یہ مزاحمت جاری رہی ۔ جرنیلوں نے مخدوم طالب المولیٰ کے پاس جا کر وارننگ دی کہ وہ بچوں کو سمجھائیں لیکن اس وارننگ کو خاطر میں نہ لایا گیا ۔ مخدوم امین فہیم کی تربیت جس ماحول میں ہوئی ، اس ماحول میں ادب ، سیاست اور علم ساتھ ساتھ چلتے تھے ۔ خاندان کی روحانی اور اعلیٰ اخلاقی اقدار اس کے علاوہ تھیں ۔ خود شاعر تھے اور کہتے تھے کہ میرا پہلا عشق شاعری سے ہوا ۔ علم و ادب سے شغف ورثے میں ملا تھا ۔ یہ سندھ کا واحد روحانی خانوادہ ہے ، جس نے اسکولز ، کالجز اور یونیورسٹیز قائم کرائیں۔ مخدوم امین فہیم کی کوششوں سے ایشیا کی پہلی صوفی یونیورسٹی بھٹ شاہ میں قائم ہوئی ۔ ہالہ میں مخدوم طالب المولیٰ میڈیکل کالج کے قیام کا بل بھی منظور ہو چکا ہے ۔ اس خاندان نے ہمیشہ غریب عوام کی مزاحمت کا ساتھ دیا ۔ محترمہ بے نظیر بھٹو کی جلا وطنی کے دوران پاکستان پیپلز پارٹی کو مکمل طور پر مخدوم امین فہیم نے ہی چلایا اور پارٹی کے لیے جتنا سفر انہوں نے کیا ، شاید ہی کسی نے کیا ہو گا ۔ پارٹی کے بڑے بڑے لوگ ان سے ملنے کے لیے وقت لیتے تھے اور وہ سید اویس مظفر کے ساتھ پریس کانفرنس کر رہے تھے ۔ یہ تو ہماری محسوسات ہیں ۔ اپنے انتقال سے چند دن پہلے جب بلاول بھٹو زرداری کراچی کے اسپتال میں ان کی عیادت کے لیے گئے تو مخدوم صاحب کی حالت یہ تھی کہ وہ عیادت کے لیے آنے والوں کو ہاتھ بھی نہیں ملا سکتے تھے کیونکہ وہ بہت کمزور ہو چکے تھے لیکن انہوں نے کمزوری اور نقاہت کے باوجود اپنے دونوں ہاتھ اٹھائے اور بلاول کو اپنے سینے سے لگایا ۔ یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ مخدوم صاحب نے اپنے بچوں کو یہ نصیحت کی ہے کہ وہ بلاول کا ساتھ کبھی نہ چھوڑیں ۔ یہ بھی پتہ چلا ہے کہ مخدوم صاحب کی یہ بھی خواہش تھی کہ ان کی خالی ہونے والی نشست پر بلاول بھٹو زرداری الیکشن لڑیں ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ان کے دل میں کوئی ناراضی نہیں تھی ۔ مخدوم صاحب کی ایک سندھی کافی کے شعر کا ترجمہ ہے ۔ ’’ تیری باتیں میں ہر وقت گاتی رہوں گی ۔۔۔ اسی رمز میں دل کو بہلاتی رہوں گی ۔ ‘‘ مخدوم صاحب کا ایک اور شعر ہے ’’ دو چار گھڑیاں مل کر گزاری ہیں… تم نے بھلا دیا ، میں نے نہیں بھلایا ہے ۔ ‘‘