دیوانِ خاص میں اکلوتا منصورؔ

November 29, 2016

مجھے میانوالی آ کر کبھی بھی اجنبیت کا احساس نہیں ہوتا، مجھے لگتا ہے کہ میانوالی میرا دوسرا گھر ہے، میں میانوالی کی زبان اتنی آسانی سے بولتا ہوں کہ یہاں کے باسیوں کو کبھی احساس نہیں ہوا کہ یہ کوئی بیگانہ بندہ ہے، دونوں طرف اپنائیت کا تاثر برقرار رہتا ہے جب مجھے برادرم تنویر حسین ملک نے بتایا کہ وہ نذیر یادؔ اور افضل بلوچ کے ساتھ مل کر ایک تقریب منعقد کر رہے ہیں اور یہ تقریب دراصل ’’دیوانِ منصور‘‘ کی تقریب رونمائی ہو گی۔ میرا جی خوش ہوا اور میں نے ان سے ہامی بھر لی کہ میں میانوالی ضرور آئوں گا۔ خواتین و حضرات جو شخص تقریب کا سن کر بہت خوش تھا، وہ یہاں آ کر کس قدر خوش ہو گا، یہ دل ہی جانتا ہے۔ یوں سمجھ لیجئے کہ جیسے دوست کی شادی پر خوشی ہوتی ہے آج ویسی ہی خوشی ہے، آج کی تقریب کے دولہا منصورؔ آفاق ہیں، ویسے آپس کی بات ہے دولہا تو وہ کئی بار بن چکے ہیں۔ ابھی ان کی شاعری کا تین ڈاکٹروں نے ’’ادبی آپریشن‘‘ کیا ہے ڈاکٹروں کی اس ٹیم کی سربراہی ڈاکٹر سعادت سعید کر رہے تھے، معاون ڈاکٹروں کے طور پر ڈاکٹر اقبال شاہد اور ڈاکٹر اسد مصطفیٰ شریک تھے۔ ان کی صحافتی و ادبی تحریروں کا جائزہ صاحب صدر شعیب بن عزیز لیں گے مگر اس سے پہلے اپنے تجزیئے حفیظ اللہ نیازی، رئوف طاہر، صہیب مرغوب اور یہ خاکسار پیش کرے گا۔ اس سلسلے میں شعیب بن عزیز کی رائے حتمی ہو گی، ویسے بھی ان کا صدارتی خطبہ ہو گا او روہ ایسے صدر ہیں جو شاعروں اور کالم نگاروں کو خوب جانتے ہیں۔
مجھے جب نیئر علی نے اپنی خوبصورت آواز میں بلایا تو مجھے حیرت ہوئی کہ ٹی وی پر کرنٹ افیئرز کے پروگرام کرنے والی اینکر نہ صرف ادبی جملوں کی ادائیگی خوبصورتی سے کر رہی ہے بلکہ شعر پڑھنے کا انداز بھی شاعرانہ خصوصیات کی گواہی دے رہا ہے، یہاں تلاوت ہمارے جیو اسلام آباد کے رپورٹر آصف بشیر چوہدری نے کی تو ایک دم میرے ذہن میں آ گیا کہ اس دھرتی نے مولانا عبدالستار نیازی، مولانا کوثر نیازی اور اشفاق چغتائی جیسے ہیرے پیدا کئے۔ آج صبح جب میں منصورؔ آفاق کا کالم پڑھ رہا تھا تو مجھے ان سے ایک اختلاف پیدا ہوا، انہوں نے میانوالی کو مردم خیز خطہ لکھا حالانکہ میانوالی مردم خیز ہونے کے ساتھ ساتھ زن خیز بھی ہے پوری مسلم لیگ (ن) ذکیہ شاہنواز کو آپا کہتی ہے پھر سیاست میں سمیرا ملک اور عائلہ ملک کو کون بھول سکتا ہے، عائلہ ملک تو یہاں کی سیاست میں بڑی سرگرم رہی ہیں، انہوں نے یہاں جگہ جگہ جلسوں سے خطاب کیا ہے، منصورؔ آفاق کو جنرل ثناء اللہ شہید کا ذکر بھی کرنا چاہئے تھا کہ وہ دہشت گردوں کے خلاف دوران آپریشن شہید ہو گئے تھے۔
مجھے منصور آفاق کی احمد فرازؔ اور عمران خان سے مماثلت نظر آتی ہے یعنی محبوبہ آپ کے قدموں میں اور ہر دم شادی کے لئے تیار۔ پچیس سالہ دوستی میں منصورؔ آفاق کی ایک صفت جو مجھے بام عروج پہ نظر آئی وہ یہ ہے کہ وہ دوستوں کا دوست ہے، دوستی ختم کرنا اسے نہیں آتا، وہ شاعر، دانشور اور کالم نگار تو ہے ہی، انسان بھی خوبصورت ہے، پتہ نہیں اس نے کس کے لئے کہا تھا کہ؎
ریل میں جس سے ہوئی تھی یونہی دم بھر گفتگو
خوبصورت آدمی تھا، یاد رکھنا چاہئے
’’دیوان منصور‘‘ کی پشت پر یعنی بیک ٹائٹل پر ادب کے نامور لوگوں کی آراء موجود ہے، یہ رائے بذات خود منصور آفاق کے اعلیٰ شاعر ہونے کی سند ہے، میری اس بات کی گواہی میرے سامنے تشریف فرما اردو کی بین الاقوامی شہرت یافتہ شاعرہ راشدہ ماہین ملک بھی دیں گی۔ منصور آفاق برسوں پہلے برطانیہ چلا گیا تھا مگر منصورؔ نے میانوالی اور پاکستان سے رشتہ نہیں توڑا۔ آج راستے میں مجھے احمد فرازؔ یاد آ رہے تھے وہ ناروے میں کچھ دن گزار کر واپس آئے تو ان سے ایک تقریب میں ملاقات ہوئی، تقریب کے اختتام پر ایک شخص لپکا اور کہنے لگا کہ ’’فرازؔ صاحب! مجھے ملاقات کا وقت دیں، میں نے آپ سے ملنا ہے۔ ان دنوں روزے تھے فرازؔ صاحب کہنے لگے کہ کل شام سات، ساڑھے سات آ جائو، میں اسی ہوٹل کی لابی میں بیٹھتا ہوں، وہ شخص کہنے لگا کہ تھوڑا لیٹ نہیں ہو سکتا، فرازؔ نے کہا کیوں؟ وہ شخص کہنے لگا کہ ’’روزے ہیں، تراویحیاں ہوتی ہیں‘‘ اس پر فرازؔ نے برجستہ کہا کہہیں تو روزے باقی تمہاری مرضی۔
منصورؔ کی شاعری مشرق و مغرب کا حسین امتزاج ہے، اس نے زبان کو وسعت بخشی ہے۔ وہ اپنی شاعری میں جدید ترین اشیاء جیسے موبائل، انٹر نیٹ، فیس بک کو لے آیا ہے مگر اس کے ساتھ ساتھ وہ کبھی بھی اونچی حویلی، کونج کی سسکاریاں نہیں بھولنا، وہ ماڈرن بھی ہے اور ایک روایت پسند شاعر بھی بلاشبہ وہ اردو کے پہلے دو تین شاعروں میں شامل ہے۔ جہاں تک ایوارڈوں کی بات ہے تو میری نظر میں سب سے بڑا ایوارڈ عوام کی محبت ہے منصورؔ آفاق خوش قسمت آدمی ہے، اسے یہ محبت مل چکی ہے، سرکاری ایوارڈ حاصل کرنے کے لئے چمچہ گیری کرنا پڑتی ہے اور یہ کام منصورؔ کو نہیں آنا بلکہ وہ تو دیوان خاص میں اکلوتا منصورؔ ہے، دیوان خاص ہو یا دیوان عام، منصورؔ وہی کرتا ہے جو ایک باغی کر سکتا ہے اس نے تیس سال پہلے میانوالی میں عوامی محاذ میں شامل ہو کر بغاوت کا اعلان کر دیا تھا، خواجہ سکندر بھی شامل تھے اور سربراہی ڈاکٹر شیر افگن کر رہے تھے، میں اس تقریب میں ڈاکٹر صاحب کے فرزند امجد علی خان کو مس کر رہا ہوں مگر آخر منصورؔ آفاق کی شاعری میں سے میانوالی کی محبت پیش کر رہا ہوں کہ
عرش تک میانوالی بے کنار لگتا تھا
دیکھنا جسے بھی تھا کوہسار لگتا تھا
بارشوں کے موسم میں جب ہوا ترتی تھی
اپنے گھر کا پرنالا آبشار لگتا تھا
منچلوں کی گلیوں میں رات جب مچلتی تھی
کوچۂ رقیباں بھی کوئے یار لگتا تھا
ایک چائے خانہ تھا یاد کے اسٹیشن پر
بھیگتے اندھیرے میں غمگسار لگتا تھا
ایک نہر پانی کی شہر سے گزرتی تھی
اس کا یخ رویہ بھی دل بہار لگتا تھا
ادھ جلے سے سگریٹ کے ایک ایک ٹکڑے میں
لاکھ لاکھ سالوں کا انتظار لگتا تھا
قید اک رگ و پے میں روشنی کی دیوانی تھی
جسم کوئی شیشے کا جار وار لگتا تھا
باتھ روم میں کوئی بوند سی ٹپکتی تھی
ذہن پر ہتھوڑا سا بار بار لگتا تھا
ہمسفر جوانی تھی ہم سخن خدا منصورؔ
اپنا ہی زمانے پر اقتدار لگتا تھا
(نوٹ:یہ مضمون دیوان منصور کی تقریب رونمائی میں پڑھا گیا)


.