جمہوریت نامہ ،مردم شماری پر عدالتی باز پرس نتیجہ خیز مرحلے میں داخل

December 06, 2016

اسلام آباد (محمد صالح ظافر، خصوصی تجزیہ نگار) ملک کی عدالت عظمیٰ نے وفاقی حکومت سے مردم شماری کے حو الے سے یقین دہانی حاصل کرنے کی غرض سے جو بازپرس شروع کر رکھی تھی اب نتیجہ خیز مرحلے میں داخل ہوگئی ہے توقع ہے کہ یہ عمل پندرہ مارچ سے شروع ہو کر دو ماہ میں مکمل کرلیا جائےگا۔ پاکستان کے مخصوص حالات میں یہاں ہر معاملے کو گنجلک بنانے کی کوشش کی جاتی ہے مردم شماری کو سیاسی تنازعبنانے کا کام دو عشروں سے چلا آرہاہے بدقسمتی سے ہر اس کام کو جس سے علاقائی دلچسپیاں و ابستہ ہوں یا ان سے لسانی کشمکش پیدا کی جاسکتی ہوں اور بسا اوقات مسلک کا اختلاف بھی منسلک ہو تو اس بارے میں فوری طور پر فریقین ابھر آتے ہیں اور صف بندیاں شروع ہوجاتی ہیں۔ دنیا بھر کے ترقی پذیر معاشروں کو مردم شماری کی اشد ضرورت ہوتی ہے یہی وہ بنیاد ہے جس پر منصوبہ بندی کی عمارت استوار کی جاتی ہے۔ یہ بھی دلچسپ اتفاق ہے کہ ترقی پذیر معاشروں میں ہی وہ منافرتیں بکثرت موجود ہوتی ہیں جو اس عمل سے مشکلات کو جنم بھی دیتی ہیں پاکستان میں مختلف علاقوں میں اس کے اثرات مختلف ہوتے ہیں اور ہر گروہ خواہ وہ سیاسی ہو، لسانی ہو یا مذہبی یا اس کا وجود علاقائیت کا رہین منت ہو فوراً اپنی مقصد باری کے لئے اسے استعمال کرنے کے درپے ہوجاتا ہے۔ سندھ میں جہاں شہری اور دیہی بنیاد پر تقسیم پورے طور پر عیاں ہے فریقین باقاعدہ منصوبہ بندی کے ذریعے اپنے اپنے حیطہ عمل میں آبادی کا شمار بڑھا چڑھا کر پیش کرتے ہیں صوبے میں پرانی سندھی آبادی کا خیال ہے کہ اگر ان کی عددی قوت گھٹ گئی تو صوبے میں حکومت اور بالخصوص وزارت اعلیٰ جو روائتی طور پر دیہی کہلانے و الے علاقوں کے تصرف میں آتی ہے چھن کر شہری علاقوں کو نہ منتقل ہوجائے یہ الگ بات ہے کہ سندھ میں دیہی نمائندگی کے دعویداروں نے دیہی علاقوں کی اجتماعی بھلائی کے لئے کوئی قابل لحاظ خدمت انجام نہیں دی اور یہ نمائندے بھی حسن اتفاق سے شہری علاقوں میں رہتے ہیں اور وہیں پرورش پاکر جوان ہوتے ہیں۔ دوسری جانب شہری علاقوں کی نمائندگی کے دعویداروں کا موقف ہے کہ ان کی آبادی دیہی علاقوں سے تجاوز کرچکی ہے اس طرح مردم شماری کے بعد آبادی کی نئی ترکیب میں ان کا شمار بڑھ جائے گا وہ دھمکی آمیز لہجے میں اعلان کررہے ہیں کہ سندھ میں آئندہ وزیراعلیٰ شہری آبادی کی نمائندگی کرنے والوں میں سے ہوگا۔ پنجاب میں بھی یہ تقسیم غیر محسوس طور پر موجودہے جہا ں حکومت اور وزارت کا تنازعتو نہیں تاہم جنوبی پنجاب میں وسطی پنجاب کے مقابلے میں پچھڑے رہنے کا تاثر ضرور ابھارا جاتا ہے۔ بلوچستان میں بلوچ نژاد آبادی اور پختونوں کے درمیان آویزش تو نہیں پائی جاتی اور آباد کاروں کے حوالے سے بے چینی ضرور موجود رہی ہے یہ صوبہ انگریزی محاورے کے مطابق طوفان کی آنکھ میں آگیا ہے وہاں مردم شماری کے نتائج سے نئے مطالب اخذ کرنے کا کام لیا جاسکتا ہے۔ صوبہ خیبرپختونخوا میں پشتو بولنے والے علاقوں اور ہزارہ کے درمیان مستقلاً نفسیاتی تصادم کی فضا موجود ہے یہ خوشگوار اتفاق ہے کہ اس صوبے میں پختون کے ساتھ ساتھ ہزارے کے باسی بھی وزیر اعلیٰ رہے ہیں اور فضا میں زیادہ تلخی جگہ نہیں بنا سکی۔ حالیہ برسوں میں جس طور پر ناپختہ کار اور عاقبت نا اندیش لوگ اس صوبے کی سیاست میں اہمیت اختیار کرگئےہیں ان کی وجہ سے کسی قسم کے اندیشے کو رد نہیں کیا جاسکتا۔ اب قبائلی علاقوں میں بھی مردم شماری کا غلغلہ برپا ہوگا۔ مردم شماری کے یہ پہلو سیاسی اقتدار کے حوالے سے یقیناً بہت اہمیت رکھتے ہیں لیکن نام نہاد علاقائیت اور قوم پرستوں نے اپنی توقعات اس تقسیم سے منسلک کر رکھی ہیں اگر سیاسی رہنما یہ سمجھتے ہیں کہ آبادی کے شمار میں کمی بیشی کی بدولت ان کے حلقہ اثر میں اسمبلیوں کی نشستوں میں پھیر بدل ہوگا اور ان کے لئے سیاسی امکانات بہتر ہوجائیں گے تو وسائل کی تقسیم کو بھی علاقہ پرست عناصر باعث نزاع بناسکتے ہیں۔مردم شماری کی بنیاد پر ہی وسائل کی تقسیم عمل میں آتی ہے اور منصوبہ بندی کی جاتی ہے یہ بھی ٹھوس اور افسوسناک حقیقت ہے کہ وسائل کی تقسیم میں زیادہ حصے کے طالب وہی عناصر ہوتے ہیں جنہیں بعد ازاں اپنے حصے میں بڑھوتی دکھائی دیتی ہے۔ وسائل کی تقسیم ہی کو بنیاد بنا کر ایسے ایسے طوفان اٹھائے جاتے رہے ہیں جن سے ملکی سالمیت پر خطرات منڈلانے لگتے ہیں اور نفرتوں میں اضافے کے لئے بھی اس حوالے کو استعمال کیا جاتا رہاہے۔ پاکستان بلاشبہ اپنی تاریخ کے انتہائی خطرناک د ور سے گزررہاہے جس میں وہ عالمی اور علاقائی ریشہ دوانیوں کی براہ راست زد میں ہیں اس کی عسکری قوت اور اب روشن اقتصادی امکانات اس کے دشمنوں کی نگاہ میں کھٹک رہے ہیں جن کے گماشتے حالیہ برسوں میں میدان سیاست میں بے ڈھب انداز میں سرگرم عمل بھی رہے ہیں۔ ان حالات میں مردم شماری کا عمل انتہائی شفاف اور غیر جانبدارانہ انداز میں انجام دیا جانا چاہئے وہ عناصر جنہیں ہر وقت حکومت اور حکمرانوں میں کیڑے نکالنے کے سوا دوسرا کوئی کام نہیں یقیناً تاک میں ہونگے کہ وہ مردم شماری کے نتائج کو بھی متنازعبناکر اپنے غیر ملکی سرپرستوں کی مزید خوشنودی حاصل کریں بنابریں بے پناہ احتیاط لازم ہے۔