سرکس اور تماشائی

December 19, 2016

اگر آپ کسی تقریب کے منتظم ہوں اور آپ کو یہ معلوم نہ ہو کہ شرکاء کی تعداد کتنی ہو گی تو انتظامات کا جائزہ لئے بغیر ہی رائے دی جا سکتی ہے کہ آپ کس پائے کے منتظم ہیں۔ مہمانوں کی تعداد کا درست تخمینہ لگائے بغیر ولیمہ نہیں کیا جا سکتا،گھر میں دوستوں کے لئے دعوت کا اہتمام کرنا ہو توخاتون خانہ پہلا سوال یہ کرتی ہے کہ کتنے افراد کو مدعو کیا ہے۔ قصہ مختصر،ان بنیادی اعداد و شمار کے بغیر گھر نہیں چلایا جا سکتا مگر یہ ملک چل رہا ہے اور بہت خوب چل رہا ہے۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سانحہ کوئٹہ پر رپورٹ جس پر میڈیا میں ہاہاکار مچی ہے اور بھیڑ چال کے نتیجے میں سب نے اپنی توپوں کا رُخ چوہدری نثار کی طرف کر رکھا ہے،سچ پوچھئے تو اس عدالتی کمیشن نے حکومتی سرکس کے سب مسخروں کو بے حجا ب کر دیا ہے۔ مثال کے طور پر اس عدالتی کمیشن کی طرف سے پانچ مختلف مسالک کے مدارس بورڈ کو خط لکھ کر پوچھا گیا کہ ان کے ساتھ منسلک مدارس کی تعداد کتنی ہے اور کیا ان میں سے کسی مدرسے کا جماعت الاحرار یا لشکر جھنگوی العالمی سے کوئی تعلق ہے؟ وفاق المدارس السلفیہ، وفاق المدارس العربیہ، وفاق المدارس الشیعہ، تنظیم المدارس پاکستان، رابطہ المدارس الاسلامیہ کی طرف سے موصول ہونے ہونے والے تحریری جوابات سے معلوم ہوا کہ ملک میں رجسٹرڈ مدارس کی تعداد 26465ہے مگر جب چند روز بعد وزارت مذہبی امور کی طرف سے جواب موصول ہوا تو بتایا گیا کہ ملک میں مدارس کی تعداد 11852ہے۔ بعد ازاں معلوم ہوا کہ وزارت مذہبی امور کی معلومات ناقص اور نامکمل ہیں۔ عدالتی کمیشن کو ایک اور الجھن کا سامنا تب کرنا پڑا جب ایف سی کے کردار کے حوالے سے متضاد بیانات سامنے آئے۔ چیف سیکریٹری بلوچستان اور ایف سی کے ایک کمانڈنٹ نے بتایا کہ امن و امان کے قیام کے لئے ایف سی کو پولیس کے اختیارات دیئے گئے ہیں اور وہ کسی بھی شخص کو گرفتار کر کے اس سے تفتیش کر سکتی ہے لیکن وفاقی سیکرٹری داخلہ نے دعویٰ کیا کہ ایف سی کو پولیس کے اختیارات نہیں دیئے گئے۔
110صفحات پرمشتمل اس رپورٹ سے معلوم ہوتا ہے کہ ہر طرف اسموک اسکرین ہے،ذہنوں پر تضادات کی دھند چھائی ہے اور کسی کو معلوم نہیں کی اس کی ذمہ داری اور فرائض کی حدود و قیود کیا ہیں۔
اس عدالتی کمیشن نے ایک اور اہم ترین نکتہ یہ اٹھایا ہے کہ اگر کسی شہری کے پاس اہم معلومات ہوں اور وہ انہیں ملک کے معتبر ترین خفیہ ادارے آئی ایس آئی تک پہنچانا چاہے تو اس کا کیا طریقہ کار ہے؟کمیشن کو خاصی جستجو کے بعد معلوم ہوا کہ ملک کا یہ حساس ترین ادارہ ناقابل رسائی ہے اور حساسیت کے پیش نظر نہ تو اس کی کوئی ویب سائٹ ہے،نہ کوئی ای میل ایڈریس،نہ کوئی ٹیلیفون نمبر اور نہ ہی پوسٹ بکس نمبر۔ جسٹس قاضی فائزعیسیٰ نے یہ جاننے کی کوشش کی کہ کیا تمام ممالک میں یہی طریقہ کار رائج ہے اور خفیہ اداروں کو عوام کی نظروں سے اتنا ہی اوجھل رکھا جاتا ہے تو معلوم ہوا کہ دنیا بھر میں اس قدر حساسیت کی مثال نہیں ملتی۔ امریکہ کے تمام خفیہ ادارے جن میں سی آئی اے،ایف بی آئی،اورنیشنل سکیورٹی ایجنسی شامل ہیں،ان کی ویب سائٹس موجود ہیں اور کوئی بھی شخص ای میل،خط یا ٹیلی فون کے ذریعے رابطہ کر سکتا ہے۔ اسی طرح برطانیہ میں ایم آئی فائیو،سیکرٹ انٹیلی جنس سروس،نیشنل کائونٹر ٹیررازم سکیورٹی آفس سمیت تمام انٹیلی جنس ادارے قابل رسائی ہیں اور کوئی بھی شہری ان سے رجوع کر سکتا ہے مگر ہمارے ہاں تو ان اداروں کا نام لینا بھی شجر ممنوعہ ہے۔ پھر ان تمام خفیہ اداروں کے درمیان رابطوں اور ہم آہنگی کا فقدان ہے جسے ختم کرنے کے لئے ’’نیکٹا‘‘ کا ادارہ تشکیل دیا گیا تھا لیکن اس ادارے کی فعالیت اور افادیت کا راز بھی اس کمیشن کی رپورٹ میں فاش کر دیا گیا ہے۔
جمع خاطر رکھئے،سانحہ کوئٹہ پر عدالتی کمیشن کی طرف سے چارج شیٹ کے باجود چوہدری نثار مستعفی نہیں ہوں گے کیونکہ نہ تو ان کا نام مشاہداللہ اور پرویز رشید ہے اور نہ ہی جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے نام کے ساتھ جنرل کا سابقہ ہے۔ یہ سرکس یونہی آباد رہے گا،مسخرے آتے اور جاتے رہیں گے،تماشائی تالیاں بجاتے رہیں گے اور کھیل تماشا اس وقت تک جاری رہے گا جب تک ان کی مہلت ختم نہیں ہو جاتی۔ سرکس کی بات چل رہی ہے تو کیوں نہ اس سرکس کا ایک تازہ ترین شو قارئین کی خدمت میں پیش کروں جو میں نے خود اپنے آنکھوں سے دیکھا۔جب بھی کوئی وی آئی پی لاہور آتا ہے تو عوام الناس کو شدید ٹریفک جام کی اذیت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ کچھ ایسی ہی تکلیف گزشتہ روز کے وی آئی پی موومنٹ کی وجہ سے لوگوں کو اٹھانا پڑی۔ حیرت کی بات تو یہ ہے کہ بدترین ٹریفک جام کے یہ مناظر میڈیا کی نظروں سے اوجھل رہے اور کسی کو یہ توفیق نہ ہوئی کہ جلسہ گاہ کے چاروں طرف پھنسے ہزاروں افراد کی آواز حکام تک پہنچا سکے۔ کاش کوئی درباری انہیں بتاتا کہ خجالت سے عرق آلود وہ رعایا جو دن بھر سڑکوں پر خوار ہوتی رہی،انہیں کیسے کیسے القابات سے نواز رہی تھی۔ ایک باریش معمر شخص نے خمیدہ کمر پر ہاتھ رکھتے ہوئے بے بسی کے عالم میں آسمان کی طرف دیکھا اور بڑبڑایا :’’ربا سوہنیا،تو ہی کج کر اناں نوں نے قائد اعظم دا وی خیال نہیں‘‘شاید بزرگ کا اشارہ اس طرف تھا کہ علامہ اقبال کے مزار کے پہلو اور مینار پاکستان کے سائے تلے کھڑے ہوکر بھی انہیں عوام کی تکالیف کا احساس نہیں۔ شاید کسی کو یاد ہو کہ صدام حسین،معمر القذافی اور حسنی مبارک جیسے بادشاہوں کا انجام کیا ہوا؟




.