کتب میلہ، آرٹس کونسل و کراچی بار

December 25, 2016

یہ ابھی کل ہی کی بات ہے کہ شہر قائد میںمختلف جتھے یاجوج ماجوج بنے نہتے شہریوںپر یلغار کئے ہوئے تھے۔ جہاںریاست یرغمال بن جائے تو پھر بے بس انسان ماسوائے اپنی باری کے انتظار کے اور کچھ کر ہی نہیںسکتے۔ گویا کاروبارِ زندگی مفلوج اور رگوں میںدوڑتا خون ساکت ہوجاتا ہے۔ یوںہنستے ہنساتے چہرے جیسے ہر سو احمد فراز کے خیال کا عکس نظر آتے ہیں۔
زندہ دلانِ شہر کو کیا ہوگیا فراز
آنکھیںبجھی بجھی ہیںتو چہرے مرے مرے
انہی آشوب دنوں میں ہم نے ایک ٹرک پر یہ لکھا ہوا پایا۔
امریکہ جا نہیں سکتا، کراچی جارہا ہوںمیں
میری جان فکر مت کرنا ،واپس آرہا ہوں میں
ٹرکوں، بسوں اور رکشوں پر لکھے دلچسپ جملے و اشعار اگرچہ بظاہر عامیانہ سے لگتے ہیں لیکن درحقیقت یہ معاشرے کے ایک بہت بڑے طبقے کے احساسات کی ترجمانی کررہے ہوتے ہیں۔ مندرجہ بالا حروف اس بے چہرہ خوف کو ظاہر کررہے ہیں جو ان دنوںکراچی میں زیست و روزگار سے وابستہ ہر ذی روح کو دامن گیر تھا۔ دوسرے شہروںسے آنے والے تو خیر و عافیت کی ڈھیر ساری دعائیں ساتھ لاتے ہی تھے، کہ خود کراچی کا ہر باسی گھر سے نکلنے تا واپسی ایسی ہی دعائوں کے حصار میں رہتا۔ الحمد للہ آج روشنیوںکا یہ شہر بلا شبہ امن کا ہم سفر بنا ترقی، خوشحالی اور استحکام کی جانب رواں ہے۔
ہم جیسے خواب پرست انقلابی یا لیلائے جمہور یت کے زلف کے اسیر لاکھ کچھ بھی کہیں ، لیکن یہ سچ سات پردوںمیںبھی عیاں ہے کہ یہ امن بلا شرکت غیرے فوج کا کارنامہ ہے۔گزشتہ اتوار کو میرا یہ شہر مسرتوں سےایسا بغل گیر تھا کہ میںصبح تا رات گئے بس اسے جیسے بے خود دیکھتا ہی رہا۔ اس کی جوانی کے جو بن نے میری جولانی کو جوان جوان سا رکھا۔ آرٹس کونسل کراچی و کراچی بار کے انتخابات اورعالمی کتب میلے میںزندگی ایسی دوڑتی ہوئی نظر آئی کہ جیسے یہ کبھی موت و زیست کی کشمکش سے دوچار ہی نہ ہوئی ہو۔کراچی بار اور آرٹس کونسل کے ممبران کی تعداد 15ہزار سے زائد ہے ۔ بار کے انتخابات اگرچہ ہفتے کو منعقدہوئے تھے لیکن گہما گہمی کا خمار اتوار تک برقرار رہا۔ نعیم قریشی صدر اور خالد نواز مروت سیکرٹری جنرل منتخب ہوئے۔ نعیم قریشی مرنجاں مرنج، ہر دلعزیز شخصیت کے مالک ہیں۔ وہ جب کبھی میدان میں آتے ہیںساتھی وکلا دیوانہ وار ان کا ساتھ دینے کے لئے لپکتے ہیں۔ خالد نواز مروت پختون اسٹوڈنٹس فیڈریشن سے وابستہ تھے ۔جن دنوںشمروز خان ایڈوکیٹ ایس ایم لا کالج کے صدر تھے تو خالد مروت نائب صدر تھے بعد ازاں سینٹرل کمیٹی کے رکن بھی بنے۔ ان کے والد میر نواز خان مروت وفاقی وزیر رہے ، پرانے مسلم لیگی اور ممتاز قانون دان ہیں۔ ان تمام باتوںکے باوصف ہمارے دوستوں معروف وکلا صلاح الدین گنڈا پور اور قادر خان کا کہنا مگریہ تھا کہ خالد مروت کی شرافت متانت اور قانون کی حکمرانی کے لئے جہد مسلسل ہی ان کی کامیابی کا اصل راز ہے۔کراچی بار کے نتائج رات گئے آئے،جس کے بعد برپا جشن میںوکلا کے ساتھ عوام بھی شامل ہوگئے تھے ۔ ایم اے جناح روڈ پر ڈھول کی تھاپ اور نعروں کا شورو آہنگ دوردور تک سنائی دے رہا تھا، ایسا لگ رہا تھا کہ پورا شہر جاگ رہا ہو۔ آرٹس کونسل کی تو پھر بات ہی اور ہے کہ ’’شوقِ آوارگی‘‘ یہاںکیا کیا حسین لوگوں کوکھینچ لاتی ہے، اور وہ جو فراق گورکھپوری نے کہا ہے ناکہ’’ تجھے اہلِ دل کی خبر نہیں کہ جہاںمیںگنج لٹائے گئے‘‘طرزکی ایک شخصیت احمد شاہ ہی کی سرپرستی کا کمال ہے کہ علم و ادب ، فلم و فن اور تہذیب و ثقافت کی ثروت مندی میں گراں بہا اضافہ ہوا ہے۔ آرٹس کونسل کے انتخابات باقاعدگی سے ہر سال ہوتے ہیں ، معروف مزدور رہنما عبدالعزیزمیمن کا کہنا تو یہ ہے کہ یہ زریں جمہوری روایات ہی ہیں جو مجھے آرٹس کونسل کی تہذیبی رنگینیوں میں کھینچ لاتی ہیں۔ حقیقت بھی یہ ہے کہ کراچی آرٹس کونسل اس وقت ملک بھر کے فن و ثقافت کےاداروں سے آگے بلکہ خیرہ کن سبقت لئے ہوئے ہے،یہی وجہ ہے کہ رائے دہندگان نےحسبِ سابق احمد شاہ ،پروفیسر اعجازفاروقی پینل پر غیر متزلزل اعتماد کا اظہار کیا۔ ایک تقریب میں معروف پروڈیوسر اقبال لطیف صاحب بتارہے تھے کہ گزشتہ ایک سال کے دوران عالمی اردو کانفرنس سمیت آرٹس کونسل میںمختلف نوع کے 562پروگرام ہوئے۔ بعض اوقات تو اوپن ائیر تھیٹر، آڈیٹوریم اور ہالز بیک وقت مصروف رہے۔ یہ اس بات کی غمازی ہے کہ شہری گھٹن زدہ ماحول سے نکلنے کی خاطر کس قدر بے چین و مضطرب تھے۔اسی اتوار کو ایکسپو سینٹر میںعالمی کتب میلہ میںجانے کا موقع بھی ملا۔ لاریب! تمام ہالز میں چلنے کے لئے بھی جگہ کم پڑگئی تھی۔ منتظمین کے مطابق پانچ روزہ میلے میں5لاکھ کتابیںفروخت ہوئیں۔ اب جس گھر میں قلم و کتاب ہو وہاںکلاشنکوف کی سوچ کا گزر کیونکر ممکن ہوسکتا ہے۔میلے کے حوالے سےالبتہ ایک نکتہ معترضہ بھی ہے، وہ یہ کہ میلے کے 330اسٹالوں میں راقم کو ایسا کوئی اسٹال نظر نہیںآیا جہاںپشتو کی کوئی کتاب خندہ صبح ہو،شایدمنتظمین اپنی کج چشمی یا قحط علمی کے سبب 6ہزار سالہ قدیم پشتوزبان کی قدر وقیمت سے آگاہ ہی نہ تھے۔ بہر صورت ان سرگرمیوں میں آٹھ دس گھنٹے مصروف رہنے کے بعد جب میں زندہ احساس کے ساتھ واپس آرہا تھا تو دوست کی گاڑی میں یکے بعد دیگرے اُستاد ناشناس، سردار علی ٹکر، بخت زمینہ،عبداللہ مقری، افغانستان کی لتاجی مادام قمر گلہ کے پرانے پشتو گیت جیسے جامِ صبو سے سیراب کررہے تھے،اگرچہ لب پھر بھی تر نہ تھےلیکن یادوں کی دنیا تازہ ضرور تھی،ایسے میں پشتو کلاسیکل فلم ’جوارگر‘ کیلئے پاکستانی گوگوش گلنار بیگم کا گایا ہوا کلاسیکل گیت عہد رفتہ کو آواز دے رہا تھا،اس گیت کا ایک شعر ہے۔
ڈیر مے پہ دروغو زڑہ تا اوئیل چہ رابہ شی
سہ بہ ئے مزا وی نابللے چہ رازے
(دل سے بارہا یہ جھوٹ کہا کہ آجائو گے
کیا ہو مزا جو بن بلائے آجائو جاناں)
ہم خواب خیال کی دنیا میں منہمک و دعاگو تھے کہ مولائے کریم امن کا یہ سلسلہ یونہی دراز رکھنا۔ہاں دل یہ وسوسےبھی لئے ہوئے تھا کہ ان پرکیف لمحات کی حلاوت کہیں عارضی نہ ہو ۔پھر دل یہ تسلی بھی دیتا رہا کہ نہیں!امن کی خاطر شہدا کاخون رائیگاںنہیں جائیگا۔




.