تازہ سیاست اور بے نظیربھٹو کی یاد

December 27, 2016

صدر ممنون حسین نے قوم سے بارانِ رحمت کی اپیل کی ہے، آپ جب یہ سطور پڑھ رہے ہوں گے تو اس وقت تک ایوان صدر میں نماز استسقاءادا ہو چکی ہو گی۔اللہ کرے بارش ہو جائے جب سے ممنون حسین صدر بنے ہیں اکثر و بیشتر مراقبے ہی میں رہتے ہیں کبھی کبھار لوگوں کو ’’چہرہ ‘‘ دکھاتے ہیں ایک مرتبہ لمبی چلہ کشی کے بعد وہ کرپشن کے خلاف بولے تھے پھر انہیں کسی گرو نے سمجھایا کہ آپ کی ڈیوٹی ایسی ہے کہ آپ کو جمالی رہنا چاہئے، جلالی نہیں بننا چاہئے، ویسے میاں نواز شریف کو داد دینی چاہئے کہ وہ صدر کے لئے بندہ ہمیشہ چن کر لاتے ہیں، اس سے پہلے رفیق تارڑ کو لائے تھے جس وقت مشرف نے اقتدار سنبھالا وہ وضو کر رہے تھے۔بعد میں انہیں ایوان صدر کی مسجد راس نہ آئی ۔ فاروق لغاری کی نمازیں میاں صاحب کو راس نہیں آ رہی تھیں نہ ہی اسحاق خان کا تجربہ، صرف ضیاء الحق ایسے تھے جن کی دعائوں کا ثمر میاں صاحب آج بھی کھا رہے ہیں، ان کی درازی عمر کی دعا تو بڑی مشہور ہوئی تھی۔
لگے ہاتھوں مولانا فضل الرحمن کی بات بھی ہو جائے انہوں نے تازہ تازہ عمران خان کو تضادات کا مجموعہ قرار دیا ہے اور یہ بھی بتا دیا ہے کہ پی ٹی آئی وفد ان سے صلح کیلئے آیا تھا جس کے جواب میں مولانا نے ’’ارشاد‘‘ فرمایا کہ ’’....اگر آپ کا نظریہ پاکستان کے مفاد میں ہے تو میں ساتھ ہوں ....‘‘مولانا صاحب ہمیشہ تعلقات کو نظریات اور اصولی سیاست کے تناظر میں دیکھتے ہیں پھر اس کے بعد ان کا دیرینہ ’’وصولی موقف‘‘ شروع ہوتا ہے ہمیں خدا کا شکر کرنا چاہئے کہ مولانا صاحب پاکستان کے مفاد کی بات کرتے ہیں ورنہ ان کے اجداد نے تو قائداعظمؒ سمیت پاکستان کی مخالفت کی تھی ۔مولانا فضل الرحمن بڑے کمال کے جملہ باز ہیں، ایک دن مجھ سے کہنے لگے کہ ’’....لوگ عزت کے لئے سیاست کرتے ہیں اور میں عزت بچانے کیلئے سیاست کرتا ہوں ...‘‘
مذہبی سیاست کی بات ہو رہی ہے تو سراج الحق کی بات بھی کرلیں جنہوں نے ایک ہی سانس میں ملکی مسائل کا خلاصہ بیان کر دیا ہے ۔جماعت اسلامی کے امیر (ویسے امیر نہیں ہیں ) سینیٹر سراج الحق نے کہا ہے کہ ’’..جمہوریت کے نام پر بادشاہت ہے حکمران معاشرے کو تقسیم کر رہے ہیں کچھ خاندانوں نے طے کر لیا ہے کہ وہ ایک دوسرے کو کندھا دیں گے اور کبھی کرپشن کے خلاف زبان نہیں کھولیں گے۔ملک پر فیوڈلز کا قبضہ ہے، ادارے یرغمال، انصاف صرف پیسے والے کو ملتا ہے، مزدور اور کسان بدحال، عام آدمی کنگال ہے...‘‘ سراج الحق نے چار پانچ جملوں میں پاکستانی معاشرے، حکومت اور عدالتی نظام سمیت سب خرابیوں کو بیان کر دیا ہے ۔
آج کل مفاہمت کی باتیں ہو رہی ہیں، شاید اس لئے کہ آصف زرداری آئے ہوئے ہیں ایک اور مفاہمتی شخصیت چودھری شجاعت حسین نے آصف علی زرداری سے ملاقات بھی کی ہے اس ملاقات میں اپوزیشن کے بڑے اتحاد پر اتفاق ہوا ہے اور ساتھ ہی زرداری صاحب نے واضح کر دیا ہے کہ مفاہمت جمہوریت سے ہے، نواز لیگ سے نہیں، اس ساری صورتحال میں اکثر سیاسی جماعتوں کے اندر ایک پریشانی ہے کہ وہ اس عمران خان کا کیا کریں جو کہتا ہے کہ ’’....کرپٹ مافیا کا مقابلہ کروں گا، اگر کرپشن ٹیم بنی تو نواز شریف کپتان، مولانا فضل الرحمن نائب کپتان جبکہ آصف علی زرداری اور شہباز شریف کوچ ہوں گے ...‘‘ عمران خان نے ان تازہ خیالات کا اظہار 25دسمبر کو صوابی میں ایک جلسے سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔
میاں شہباز شریف کا بھی ایک جوشیلا موقف سامنے آیا ہے، ان کا تازہ فرمان یہ ہے کہ ’’....اٹھارہ ماہ میں ملک کی تقدیر بدل جائے گی، پاکستان کھویا ہوا مقام حاصل کر لے گا...‘‘ شہباز شریف کی باتوں کو کتنا سنجیدہ لینا چاہئے اس کے لئے ایک حوالہ ہی کافی ہے کہ وہ کہا کرتے تھے ’’....اگر چھ ماہ میں لوڈشیڈنگ ختم نہ ہوئی تو میرا نام بدل دینا ...‘‘ 25دسمبر کو کرسمس کے موقع پر راولپنڈی اور اسلام آباد کے کئی علاقوں میں آٹھ گھنٹے بجلی معطل رہی، جس سے کرسمس منانے والوں کو تکلیف کا سامنا کرنا پڑا۔ واضح رہے کہ یہ خبر اخبارات میں بھی شائع ہو چکی ہے۔ باقی شعبوں کو تو ایک طرف رکھیں اٹھارہ ماہ میں تو پاکستان ہاکی ٹیم اپنا کھویا ہوا مقام حاصل نہیں کر پائے گی، جب ایک ٹیم یہ مقام نہیں پا سکے گی تو پورا پاکستان کھویا ہوا مقام اٹھارہ ماہ میں کیسے حاصل کر لے گا۔مفاہمت کی تمام تر جادوگریاں ایک طرف مگر اتحادوں کے جادوگر تو نوابزادہ نصراللہ خان تھے، سو اب جب نوابزادہ صاحب نہیں تو مجھے تو اپوزیشن کا بڑا اتحاد بنتے مشکل دکھائی دے رہا ہے۔
آج 27 دسمبر ہے، آج کے دن محترمہ بے نظیر بھٹو شہید کی برسی ہے، انہیں چند سال پہلے چند درندوں نے لیاقت باغ میں شہید کردیا تھا، محترمہ کی اس عظیم قربانی کو مدتوں یاد رکھا جائے گا، انہوں نے پاکستان اور پاکستانی عوام کے لئے بڑی جدوجہد کی۔ بلکہ ان کی شہادت پر ایک غیر ملکی شخصیت نے کہا کہ ’’.....پاکستان نے اپنا وزیٹنگ کارڈ کھو دیا ہے.....‘‘ محترمہ کی سیاست آپ کے سامنے ہے وہ بےحد حساس تھیں، رشتوں کی نزاکت کو سمجھتی تھیں اور جذبات کے نازک آبگینوں کا بہت خیال رکھتی تھیں۔
بے نظیر بھٹو شہید اور آصف زرداری کی آمد میں اتنا سا فرق ہے کہ جب وہ آتی تھیں تو مخالفین پریشان ہو جاتے تھے، آصف علی زرداری آئے ہیں تو مخالفین پریشان نہیں، اپنے خوش ضرور ہوئے ہیں۔ 2007 میں آئیں تو مشرف پریشان تھا، ق لیگ پریشان تھی، وہ 86 میں آئیں تو ضیاء الحق پریشان تھا، شریف فیملی پریشان تھی بلکہ 86 میں محترمہ کی آمد سے پہلے جہانگیر بدر اور حافظ غلام محی الدین بی بی سے ملنے لندن گئے، واپس آکر حافظ غلام محی الدین نے نوازشریف اور شہباز شریف کو محترمہ کے حوالے سے بہت ڈرایا، اس کی تفصیل پھر کبھی بس آج محترمہ شہید کی برسی پر ریاض الرحمٰن ساغر کا شعر یاد آرہا ہے کہ؎
جو کام ادھورے تھے کرنے کو چلی آئی
تو باپ کے وعدوں پہ مرنے کو چلی آئی

.