انجوا ئے منٹ۔۔۔۔۔؟

January 19, 2017

چند روز قبل میں نے سوشل میڈیا پر ایک ویڈیودیکھی مجھے یہ تو معلوم نہیں ہو سکا کہ وہ ویڈیو کہاں کی ہے لیکن اس میں انسانیت کی خوبصورت جھلک نظر آتی ہے اس ویڈیو میں ایک شخص موٹر سائیکل چلا رہا ہے اور اسکے پیچھے ایک دوسرا شخص بیٹھا ہے جب کہ موٹر سائیکل پر دونوں کے درمیان چادروں کا ایک بنڈل ر کھا ہو ا تھا یہ دونوں شہر کا چکر لگا رہے تھے اور ان بے گھر اور بے سہارا لوگوں کو جو فٹ پاتھ پر پڑے سردی سے ٹھٹھر رہے تھے انکے اوپر گرم چاد ر کی اوڑھنی دے رہے تھے اپنے ہی بازوئوں کے غلاف میں دبکے یہ لو گ دیکھ نہ پاتے کہ یہ مہربانی کس نے کی ہے اور وہ دونوں اشخاص آگے بڑھ جاتے ۔ اس انسانیت سے لبریز ویڈیو نے مجھے نہ صرف متاثر کیا بلکہ یہ تحریک بھی دی کہ میں بھی ایسا کچھ کروں اور الحمد و للہ میں نے بھی مختلف اند ا ز میں ایسا کچھ کیا۔ لیکن ایک دوسرا خو بصو ر ت عمل جسکے حو ا لے سے مجھے میرے ایک اپنے دوست کے ذریعے معلوم ہو ا ہے ۔ میرا یہ دوست رات دیر سے چھٹی کرتے ہوئے کسی ہوٹل یا ڈھابے سے گرما گرم چائے کو اپنے تھرماس میں بھرلا تا ہے اور پھر گھر جاتے ہوئے راستے میں ڈیوٹی دیتے ہوئے پولیس اہلکاروں کو، پرائیویٹ سیکورٹی کے ملازمین کو اور دوسرے غریب بے گھر افراد کو گاڑی میں رکھے ہوئے ڈسپوزایبل گلاسز میں چائے ڈال ڈال کر تقسیم کرتا جاتا ہے استعداد اور توفیق رکھنے والوں کے لئے تو یہ معمولی کام ہے لیکن ضرورت مندوں کے لئے اسکی بڑی اہمیت ہے اور میرا خیا ل ہم سب کو اس طر ح کے کام کر کے دو سرو ں کو تھو ڑا سا ریلیف دینا چا ہیے۔ گذشتہ کچھ روز سے بارشوں اور برف باری کے باعث سردی کی شدید لہر آئی ہوئی ہے ۔ کچھ لوگ اس موسم کو انجوائے کر رہے ہیں اور برف باری کا نظارہ کر نے کے لئے پہاڑی علاقوں کا رخ کرر ہے ہیں بلکہ مری میں برف باری دیکھنے والوں کا ایسا اژدھام تھا کہ سڑکیں چھوٹی پڑ گئیں ،لوگ گھنٹوں ٹریفک کے رش کی وجہ سے پھنسے رہے ۔ اس طرح بڑے شہر جہاں برف تو نہیں لیکن بارش کھل کر ہوئی وہاں لوگوں نے ریسٹورنٹس میں اور ایسے ڈھابوں پر ہلا بول دیا جہاں ایسے پکوان ملتے ہیں جو بارشی موسم کے حوالے سے خاص سمجھے جاتے ہیں جن میں پکوڑے ، سموسے ، مچھلی ، پائے اور نمکین گوشت وغیرہ شامل ہیں دوسری طرف وہ طبقہ جو ٹپکی چھتوں والے کچے گھروں میں رہتا ہے، بارش کی وجہ سے اپنی مزدوری نہیں کر پاتا اور دیہاڑی نہ لگنے کی وجہ سے ان کے چولہے بجھے رہتے ہیں وہ بیچا رے سخت پر یشا نی کا شکا ر ہیں۔ دوسری طرف بارشوں نے ہمارے بڑے شہروں کی گلیوں اور شاہراہوں کو ندی نالوں کی شکل دے دی ہے وہ بھی عوام کے لئے ایک عذاب سے کم نہیں ہے ۔ ابلتے گٹر ، کھڑا پانی اور کیچڑ ماحول میں تعفن اور بیماریوں کا باعث بنتا ہے ۔ اور ہماری ایک اور’’ دانش ‘‘کی بات یہ ہے کہ ہم بچوں کو سردی کی چھٹیاں سردی سے پہلے دیتے ہیں اور ٹھٹھرتی سخت سردیوں میں اپنے بچوں کو تعلیمی اداروں میں بھیج کے ان کی ننھی جانوں کا امتحان لیتے ہیں ۔ پوری دنیا اسوقت موسمی تغیر کی لپیٹ میں ہے اور دنیا کے وہ ملک جہاں حقیقی رہنماہیں وہ بدلتے اور آنکھیں دکھاتے شدید موسمی حالات سے نمٹنے کے لئے غور بھی کر رہے ہیں اور عمل بھی کر رہے ہیں ۔ جن ملکوں میںمنفی 20یا 30سینٹی گریڈ بھی ہو جاتا ہے ، کئی کئی ہفتے برف باری جاری رہتی ہے وہ ملک اور قومیں ان حالات سے نبر دآزما ہو کر عوام کو ریلیف دیتے ہیں ۔ لیکن ہمارے ملک میں سیاسی الزامات اور الزامات کا جواب دینے کے لئے سب صف آراء میں باقی غریب عوام تو صرف جلنے اور ہسپتالوں کے ٹھنڈے فرشوں پر مرنے کے لئے ہیں۔ آنے والے دنوں میں یہ موسمی شدت چاہے برف باری کی شکل میں ہو، چاہے بارشوں یا سیلابوں کی شکل میں،ان میں اضافہ ہوگا ۔ او ر ان سے نمٹنے کے لئے ہمیں حکومتی سطح پر بہت کام کرنے کی ضرورت ہے اور عوام کو بھی آگاہ کرنے کی ضرورت ہے کہ موسمی تغیر میں ان کا کردار کیا بنتا ہے ۔ بڑے شہروں میں صفائی اور نکاسی آب کی بہتر انتظامات کی ضرورت ہے ۔ور نہ کچھ لو گ انجو ا ئے اور ہما رے کر و ڑوں لو گ سخت تکلیف میں مبتلا رہیں گے۔

.