جب سڑکیں خراب ہوتی ہیں

January 31, 2017

ایک عرصے سے میں ایک ایسےشخص سے مل رہا ہوں جس کے بارے میں لوگ کہتے ہیں کہ کھسکا ہوا ہے اور دانش اور آگاہی سے محروم ہے۔ آپ بجاطور پر مجھ سے پوچھ سکتے ہیں کہ میں ایک مجذوب اور کھسکے ہوئے شخص سے کیوں ملتا ہوں؟ کیا دانشمند ناپید ہوگئے ہیں؟ کیا علم اور آگاہی سے مامور دانشور ملک چھوڑ کر چلے گئے ہیں کہ میں ایک علم اور آگاہی سے محروم نیم پاگل سے ملتا رہتا ہوں؟ نہیں، نہیں۔ ایسی کوئی بات نہیں ہے۔ ہمارا ملک دانشوری میں خودکفیل ہے۔ ملک میں دانشوروں کی بہتات ہے۔ پچاسیوں ٹیلیوژن چینلز پر نظر ڈالیں۔ ذہین ترین اینکر پرسن ملک کے منجھے ہوئے دانشوروں سے محوگفتگو نظرآتے ہیں۔ وہ سب لامحالہ سیاست، اقتصادیات، معاشیات، مالی امور اور بین الاقوامی حالات حاضرہ پر دانشوری بھگارتے رہتے ہیں۔ دانشوروں کی باتیں دانشوروں کو سمجھ میں آتی ہیں۔ ہم کم علم، دانش اورآگاہی سے محروم لوگوں کو دانشمندی کی باتیں سمجھ میں نہیں آتیں۔ فقیروں کی سمجھ میں دانشور خبریں پڑھنے والوں اور خبریں پڑھنے والیوں کی ایک بات قطعی سمجھ میں نہیں آئی کہ جب ہماری کرکٹ ٹیم مدمقابل ٹیم کو ہرا دیتی ہے تب ہارنے والی ٹیم کو دھول کیوں چٹادیتی ہے؟ اس کے برعکس جب ہماری ٹیم کسی ٹیم سے ہار جاتی ہے تب جیتنے والی ٹیم ہماری ہاری ہوئی ٹیم کو دھول کیوں نہیں چٹاتی؟ جب کھیل کود کی دانشورانہ باتیں ہم فقیروں کی سمجھ میں نہیں آتیں، تب سیاست اور معاشرت کے بارےمیں دانشورانہ تجزیے، آرا اور بحث مباحثے ہماری سمجھ میں کیسے آسکتے ہیں!
یہی سبب ہے کہ ہم فقیر علم و آگہی سے محروم مجذوبوں کی محفل میں جاکر بیٹھتے ہیں۔ آج کل جس ننگ دھڑنگ درویش سے میں فیض حاصل کررہا ہوں ان کا نام ہے بابا غیبی۔ ایک عرصے سے بند اسکول کے احاطے میں راکھ کےڈھیر میں چنگاریاں تلاش کرتے رہتے ہیں۔ ان کے ہاتھ میں لمبی چھڑی ہوتی ہے جس سے سلگتی راکھ کو کریدتے رہتے ہیں۔ بند اسکول کے اساتذہ سردار سائیں کے ہاں چاکری کرتے ہیں۔ ان کی چمپی کرتے ہیں۔ ان کے پائوں دباتے ہیں۔ ایک استاد سردار سائیں کو اخبار پڑھ کر سناتا ہے۔ سردار سائیں لمبے عرصے تک اقتدار میں آنے والی پارٹی کی طرف سے ایم این اے ہوتے رہتے تھے۔ کئی مرتبہ وزیر بھی بنے تھے۔ اب بوڑھے ہوچکے ہیں۔ بوڑھا ہوجانے کے بعد زیادہ بااثر ہوگئے ہیں۔ اب ان کے بیٹے، بھانجے، بھتیجے اور بہوئیں ایم این اے اور ایم پی اے منتخب ہوتے ہیں۔ پورا علاقہ سردار سائیں اور ان کی فیملی کے قبضہ قدرت میں ہے۔ مگر کوئی نہیں جانتا کہ غیبی بابا کب اور کہاں سے آئے تھے۔ دور دور سے حاجتمند اور سوالی ان کے پاس آتے ہیں اور فیضیاب ہو کر لوٹتے ہیں۔ غیبی بابا کے ہاں حاضری دیتے ہوئے میں نے سنا ہے کہ غیبی بابا اڑ سکتے ہیں، پرندوں کی طرح۔ کہتے ہیں کہ غیبی بابا ایک مرتبہ سائبیریا سے اڑ کر آنے والے پرندوں کے ساتھ پرندہ بن کر پاکستان آئے تھے۔ ایک مرتبہ جھیل میں مچھلیاں پکڑ رہے تھے کہ اچانک غیرملکی مہمان شکاریوں نے گولی چلادی۔ سائبیریا کی جان لیوا سردی سے جان بچا کر پرندے چند ماہ کے لئے ہمارے ہاں آئے تھے۔ مہمان شکاریوں نے گولیوں کی بوچھاڑ کردی۔ مرنے والے پرندوں میں ایک پرندہ غیبی بابا تھے۔ کہنے والے کہتے ہیں کہ عین اسی دن اسی لمحے جب غیرملکی مہمان شکاریوں نے سائبیریا سے آکر پناہ لینے والے پرندوں کو گولیوں سے اور بعد میں کوئلوں پر بھون ڈالا تھا، قصبے کے بند پڑے ہوئے اسکول کے احاطے میں غیبی بابا کو پہلی مرتبہ بیٹھے ہوئے دیکھا گیا تھا۔ ایک دوسرے قصے کے مطابق امائوس کی اندھیری رات میں چار فرشتے غیبی بابا کوبند اسکول کے احاطے میں چھوڑ گئے تھے۔ جتنے منہ اتنی باتیں۔ قصبے کا کوئی شخص وثوق سے بتا نہیں سکتا کہ غیبی بابا کون ہیں اور کہاں سے آئے ہیں۔اس دوران خفیہ اداروں کے لوگ بھی چھان بین کرنے کے لئے قصبہ آئے تھے۔ وہ یقین کرنا چاہتے تھے کہ غیبی بابا کہیں ہندوستان والے سائیں بابا کے برادر، برادر نسبتی یا ٹیلنٹڈ کزن تو نہیں ہیں۔ تفتیش کے دوران انہیں ایسا کوئی سراغ نہیں ملا۔ مجھے ٹھیک سے یاد نہیں پڑتا کہ کب اور کیسے غیبی بابا کے ہاں میرا آنا جانا شروع ہوا تھا۔ میں ان کے ہاں مہینے میں دوچار مرتبہ جاتا ہوں اور دیر تک ان سے باتیں کرتا رہتا ہوں۔ یہ کل ہی کی بات ہے۔ میں نے غیبی بابا سے پوچھا۔ ’’ہماری کرکٹ ٹیم کی کارکردگی ناقص ہے۔ بہت بری طرح سے پٹ رہی ہے۔ وجہ کیا ہے؟
غیبی بابا نے راکھ کے ڈھیر کو لکڑی سے کریدتے ہوئے کہا۔ ’’کیسے جیتے گی؟ سڑکیں جو ٹوٹی ہوئی ہیں‘‘۔
میں نے تعجب سے پوچھا، ’’ٹوٹی پھوٹی سڑکوں کاکرکٹ سے کیا واسطہ؟
غیبی بابا نے کہا ’’جب سڑکیں ٹھیک ٹھاک ہوتی تھیں تب عبدالحفیظ کاردار، امتیاز احمد، فضل محمود اور حنیف محمد کی ٹیمیں جیتتی رہتی تھیں۔‘‘
میں نے پوچھا۔ ’’لیکن، سڑکوں کا کھیل اور کھلاڑیوں سے کیا لینا دینا ہے؟‘‘
غیبی بابا نے کہا، ’’جب سڑکیں ٹھیک ہوتی تھیں تب جہانگیر خاں اسکواش کی دنیا پر راج کرتا تھا۔‘‘
میںنے اپنے بال نوچے اور پوچھا، ’’ مگر جہانگیر خان کے اسکواش کا سڑکوں سے کیا تعلق ہے؟‘‘
’’بہت بڑا تعلق ہے۔‘‘ غیبی بابا نے کہا، ’’جب سڑکیں ٹھیک ہوتی تھیں تب ہماری ہاکی ٹیم دنیا کی نمبر ون ٹیم ہوا کرتی تھی۔‘‘
غیبی بابا سے مزید کچھ پوچھنا فضول تھا۔غیبی بابا نے راکھ کریدنے والی چھڑی میرے سر پر مارتے ہوئے کہا، ’’جانتے ہو، سڑکیں کب خراب ہوتی ہیں؟‘‘
میں نے کوئی جواب نہیں دیا۔ ادھر ادھر دیکھتا رہا۔ غیبی بابا نے دوبارہ راکھ کریدنے والی چھڑی میرے سر پر مارتے ہوئے کہا، ’’ جب حکومتیں خراب ہوتی ہیں تب سب سے پہلے سڑکیں خراب ہوتی ہیں۔ اس کے بعد سب کچھ خراب ہوجاتا ہے۔ آپ کی کرکٹ ٹیم کی کارکردگی اس لئے خراب ہے کیوں کہ آپ کے ملک کی سڑکیں خراب ہیں۔‘‘

.