ایک یادگار تقریب

February 20, 2017

گزشتہ اتوار کنگ ایڈورڈ میڈیکل یونیورسٹی شعبہ سرجری کے سربراہ اور کالج آف فزیشنز اینڈ سرجنز پاکستان کونسل کے سینئر نائب صدر پروفیسر ڈاکٹر خالد مسعود گوندل نے گورنمنٹ کالج یونیورسٹی لاہور کی نومنتخب اولڈ راوینز یونین کے عہدیداران کے اعزاز میں ایک ضیافت کا اہتمام کیا۔ جس میں یونین کے صدر اولڈ راوینز قاضی آفاق، جنرل سیکرٹری رانا اسد اللہ خان، وفاقی سیکرٹری اخلاق تارڑ، پرو وائس چانسلر داکٹر عامر زمان، ایس پی اطہر اسماعیل اور ڈاکٹر معظم تارڑ کے علاوہ ایک بڑی تعداد میں نامور اولڈ راوینز نے شریک کی۔ ڈاکٹر خالد گوندل کی طرف سے گو دعوت تو ضیافت کی دی گئی تھی لیکن اس موقع پر انہوں نے کالج آف فزیشنز اینڈ سرجنز کے بارے میںجو تفصیلاً بریفننگ دی اُس کے بعد تو اولڈ راوینز کی اپنی پرانی یادوں کی گپ شپ اور جی سی کی پرانی روایات کی بحالی کی سوچ بہت پیچھے چلی گئی اور ہر کوئی پاکستان کے اس باوقار ادارے کے حوالے سے ڈسکس کرتا رہا۔ اس بریفنگ کے بعد میں نے محسوس کیا کہ یہ ساری معلومات عوام سے شیئر کرنی چاہئیں اور سب کو پتہ چلنا چاہئے کہ پاکستان کے حوالے سے بیرون ملک صرف منفی تاثرات ہی نہیں بلکہ میڈیکل کی فیلڈ میں ہمارے تعلیمی اداروں کا معیار قابل تحسین ہے۔ کالج آف فزیشنز اینڈ سرجنز پاکستان کو اعلیٰ کارکردگی کی بنیاد پر 17دسمبر 2015ء کو آکسفورڈ ہال میں منعقدہ تقریب میں سائنس و ٹیکنالوجی اور میڈیکل ایجوکیشن میں دنیا کا بہترین ادارہ قرار دیتے ہوئے 2015ء کا سقراط ایوارڈ دیا گیا۔ آیئے دیکھتے ہیں کہ یہ معیاری ادارہ میڈیکل کی تعلیم میں کیا کردار ادا کر رہا ہے۔
پاکستان میں میڈیکل کی اعلیٰ تعلیم کا یہ ادارہ 1962ء میں ایک آرڈیننس کے تحت لیفٹننٹ جنرل ڈبلیو اے برکی کی قیادت میں قائم ہوا۔ اس وقت ملک بھرکے سول و آرمی کے طبی اداروں میں اسی ادارہ کے 90فیصد سے زائد اسپیشلسٹ ڈاکٹرز خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔ پاکستان میں یہ وہ واحد ادارہ ہے جو 73مختلف شعبوں میں فیلو شپ کے امتحانات کروا رہا ہے۔ اندورن ملک 14جبکہ بیرون ملک تین سینٹر موجود ہیں۔ 22ہزار سے زائد ڈاکٹر اندرون ملک، 182بیرون ملک اور 96تسلیم شدہ اداروں میں 25سو سپروائزرز کی زیر نگرانی تربیت کے مختلف مراحل میں ہیں جبکہ مختلف اداروں میں27ہزار 446جو اسپیشلسٹ خدمات سرانجام دے رہے ہیں اُن میں 85فیصد میڈیکل اینڈ سرجیکل اسپیشلسٹ، 95فیصد ڈینٹل اسپیشلسٹ اور پاک فوج میں سو فیصد اسپیشلسٹ اِسی ادارے سے فارغ التحصیل ہیں۔ کالج آف فزیشنز اینڈ سرجنز پاکستان کی بنیاد برطانیہ کے رائل کالج کی طرز پر رکھی گئی۔ جن اصولوں کی بنیاد پر رائل کالج برطانیہ اور آئر لینڈ چلایا جارہا ہے اس کالج کو بھی انہیں اصولوں کی بنیاد پر چلایا جاتا ہے۔ یہاں امتحانات، پیشہ وارانہ تربیت اور قابلیت کے تمام اصول، قواعد و ضوابط برطانیہ، آئرلینڈ، کینیڈا اور آسٹریلیا کے رائل کالجوں سے مطابقت رکھتے ہیں اور مقامی و قومی ضروریات کو پیش نظر رکھتے ہوئے امتحانی نصاب اور کورس ترتیب دیئے گئے ہیں۔ ہر سال ہونے والے امتحانات کو مانیٹر کرنے کیلئے بین الاقوامی اداروں سے خصوصی وفد بلائے جاتے ہیں اور اُسی روز نتائج کا اعلان کیا جاتا ہے۔ سی پی ایس پی سائوتھ ایشیا کا واحد ادارہ ہے جو بین الاقوامی ATLSاور ACLSکے کورسز کے پانچ سال مکمل کر چکا ہے۔ ان کورسز سے حادثاتی مریضوں کا کم وقت میں طبی امداد دینے اور مرض کے تدارک کرنے میں خاطر خواہ مدد ملتی ہے۔ پاکستان سارک ریجن میں پہلا ملک تھا جس نے یہ کورسز شروع کئے۔
کالج آف فزیشنز اینڈ سرجنز پاکستان نے ملکی سطح پر ترقی کے مراحل طے کرنے کے بعد بیرون ملک امتحانات سینٹرز کا دائرہ وسیع کیا۔ سعودی عرب اور نیپال سے تھیوری کےامتحانات گزشتہ دو دہائیوں سے جاری ہیں۔ برطانیہ کے بعد پاکستان کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ پاکستانی سنیئر پروفیسرز نے سعودی عرب کے زیر تربیت ڈاکٹرز کا عملی امتحان لیا۔ ابتدا میں سرجری، میڈیسن اور گائنی سے یہ سلسلہ شروع ہوا۔ پھر بتدریج تمام شعبے شامل ہو گئے۔ ایک اور اہم ترین بات کہ سی پی ایس پی نے آئرلینڈ کی طرز پر پاکستانی ڈاکٹرز کو محدود مدت کے لئے برطانیہ بھیجنے کے معاہدے کئے ہیں۔ اب ڈاکٹر دو سال کے لئے آئرلینڈ جاتے ہیں اور پھر واپس آکر اپنے ملک میں خدمات سرانجام دیتے ہیں۔ کالج آف فزیشنز اینڈ سرجنز پاکستان کو ایک 20رکنی ڈاکٹرز کی کونسل چلا رہی ہے۔ جس میں پنجاب سے گیارہ، سندھ سے چھ، کے پی سے دو اور بلوچستان سے ایک ممبر ہے۔ جس کا انتخاب ملک بھر کے فیلوز کرتے ہیں، کونسل کے موجودہ صدر پروفیسر ظفر اللہ چوہدری اور سینئر نائب صدر پروفیسر ڈاکٹرخالد مسعود گوندل ہیں۔ جن کی انتھک محنت کی وجہ سے سی پی ایس پی کو بین الاقوامی سطح پر عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ حکومت پاکستان نے پروفیسر گوندل کو ان کی خدمات کے اعتراف میں تمغۂ امتیاز سے بھی نوازا ہے۔ ہم ناصرف انہیں مبارکباد دیتے ہیں بلکہ حکومت پاکستان سے درخواست بھی کرتے ہیں کہ میڈیکل پروفیشن کے حوالے سے بین الاقوامی سطح پر پاکستانی ڈاکٹرز کی ناصرف ڈیمانڈ ہے بلکہ وہ ملک کا نام روشن بھی کر رہے ہیں لیکن ایک افسوسناک صورتحال یہ ہے کہ ملک میں ڈاکٹرز اپنے مستقبل کے حوالے سے بڑی غیر یقینی صورتحال کا شکار ہیں۔ سینئر اور جونیئر ڈاکٹرز کے درمیان جو تفریق پیدا کر دی گئی ہے، اس کی وجہ سے مریض خوار ہو رہے ہیں جبکہ ان کا مناسب سروس اسٹرکچر نہ ہونے، غیر مستقل بنیادوں پر تقرری، بہت کم تنخواہیں اور ملازمت کا تحفظ نہ ہونےکی وجہ سے ڈاکٹرز کا ملک کے اندر جو کردار ہونا چاہئے وہ ادا نہیں کر پا رہے۔ اس لئے بڑی سنجیدگی کے ساتھ اس مسئلے کی طرف توجہ دینی چاہئے۔ وہ افراد جو میڈیکل کالجوں میں داخلہ لینے کے خواہشمند ہوتے ہیں اُن سے اُسی وقت یہ بانڈ لینا چاہئے کہ وہ ایم بی بی ایس کی ڈگری مکمل کر کے کم ازکم دو سال ملکی اسپتالوں میں اپنی خدمات انجام دیں گے پھر جو پاکستان کالج آف فزیشنز اینڈ سرجنزسے اسپیشلائزیشن کرتے ہیں اُن کے لئے ایک سال تک بڑے ٹیچنگ اسپتالوں میں ملازمت کرنا لازمی ہو۔ اس طرح ملک میں بہتر طبی سہولتیں فراہم کی جاسکتی ہیں۔ ان کے لئے ملک کے چاروں صوبوں میں بین الاقوامی معیار کا ایک ایک ایسا اسپتال بنانا چاہئے، ایسے ڈاکٹر حضرات جن کی اس فیلڈ میں ملک کے لئے بہتر خدمات ہوں انہیں بہترین مراعات دینی چاہئیں تاکہ اُن کی خصوصی مہارت کا استعمال پاکستان میں ہوسکے اور کالج آف فزیشنز اینڈ سرجنزکو بیرون ملک ایسے معاہدے کرنے چاہئیں کہ لوگ پاکستان میں اپنا علاج کرانے کے لئے آنے پر فخر محسوس کریں اور ایسے پیکیج متعارف کروانے چاہئیں کہ اگر ان ایکسپرٹ ڈاکٹرز سے بیرون ملک علاج کروانا ہو تو اس کی فیس کئی سو گنا ہو جبکہ یہی علاج اگر پاکستان میں کروایا جائے تو بہت کم رقم میں ہو۔ ایسی مارکیٹنگ کے لئے سی پی ایس پی اپنی کریڈیبلٹی کو بیرون ملک استعمال میں لا سکتی ہے تاکہ پاکستان علاج کے معاملے میں بھی بہترین ملکوں میں شامل ہو۔



.