منڈی کا نظام اور دہشت گردی

February 22, 2017

سیہون شریف میں لال شہباز قلندر کے احاطے میں خودکش حملہ آور نے خون کی جوہولی کھیلی اس کی مثال سندھ میں کم ہی ملتی ہے۔ ویسے تو خود کش حملہ آوروں نے کسی بھی بڑے شہر کو نہیں بخشا لیکن سندھ میں اس طرح کا سانحہ ہونا بہت بڑی بات ہے۔
ابھی تک سندھ کے بہت سے دانشور حلقوں میں یہ دعویٰ کیا جاتا تھا کہ سندھ صوفیوں کی سرزمین ہے اور اس میں انتہا پسند مذہبی دہشت گرد پیدا نہیں ہو سکتے۔ پچھلے چند برسوں کے حالات و واقعات سے یہ پتہ چلتا ہے کہ جنونی مذہبی گروہ پورے ملک میں ایک ہی طرح سے موجود ہیں۔ مختلف علاقوں میں دہشت گردی کے ادوار کا گہرا تعلق سماجی ارتقاء سے ہے۔ مذہبی بنیاد پرستی، انتہا پسندی اور دہشت گردی کی لہر نے سب سے پہلے پنجاب اور خیبر پختونخوا کو اپنی لپیٹ میں لیا کیونکہ ان علاقوں میں معاشی اور سماجی تبدیلیاں ستر کی دہائی سے آنا شروع ہو گئی تھیں۔ سندھ میں یہ تبدیلیاں چند دہائیوں کے وقفے کے بعد شروع ہوئیں اور اب سندھ بھی انہی منفی سماجی عوامل کا شکار ہے جن کی ابتدا پنجاب اور خیبر پختونخواسے ہوئی تھی۔
چند برس پیشتر سندھ کے قوم پرست حلقوں میں یہ بیانیہ بہت مقبول تھا کہ سندھ کی ثقافت میں انتہا پسندی کی گنجائش موجود نہیں ہے۔ اس کا یہ بھی مطلب تھا کہ پنجاب اور خیبر پختونخوا کے کلچروں میں دہشت گردی کے عوامل بدرجہ اتم موجود ہیں۔ ہمارا تب بھی یہ خیال تھا کہ ایسا ہرگز نہیں ہے کیونکہ پنجاب میں بھی صوفی روایت بہت مضبوط رہی ہے۔ بابا فرید سے لے کر خواجہ فرید تک بہت بڑے بڑے صوفی شعراء نے پنجاب پر بہت گہرا تاثر مرتب کیا تھا۔ اس لئے یہ بیانیہ درست نہیں ہے کہ سندھ میں اس سلسلے میں کوئی فطری طور پر ایسی بات ہے کہ وہاں انتہا پسند اور دہشت گرد پیدا نہیں ہو سکتے۔
دہشت گردی کے پس منظر میں دو عوامل نمایا ں ہیں۔ ایک تو پاکستانی ریاست کا خود مذہبی ہونا اور جہادی جتھوں کی نشو و ارتقا میں حصہ دار ہونا اور دوسرے ملک میں تیز تر معاشی اور سماجی تبدیلیوں کی بنا پر معاشرے کا غیر مستحکم ہونا۔یہ دونوں عناصر یکجا ہو کر زہر قاتل بن جاتے ہیں۔ پاکستانی ریاست نے پہلے افغان جہاد میں حصہ لے کر اور بعد میں دوسری وجوہات کی بنا پر انتہا پسند مذہبی جتھے بندیوں کو پہلے بڑھاوا دیا اور بعد میں برداشت کیا۔ اس سلسلے میں بہت کچھ کہا گیا اور لکھا گیا ہے۔لیکن اس سلسلے میں یہ بات نمایاں ہے کہ جہادی سرگرمیاں خیبر پختونخوا،پنجاب اور کسی حد تک کراچی تک محدود رہیں۔ لیکن اندرون سندھ بظاہر ان رجحانات سے کافی دیر تک محفوظ رہا۔
مذہبی تنگ نظری کی بنیاد ستر کی دہائی میں رکھی گئی جب ذوالفقار علی بھٹو پر دباؤ ڈال کر مختلف طرح کے قوانین منظور کروائے گئے۔ اس ساری تحریک کا مرکزپنجاب، خیبر پختونخوا اور کراچی تھااس میں سندھیوں کا کوئی نمایاں کردار نہیں تھا۔ پھر بھٹو کی مخالفت میں بننے والے قومی اتحاد اور نظام مصطفیٰ نافذ کرنے کی تحریک بھی انہی مذکورہ علاقوں سے تھی۔ واضح رہے کہ سارا کچھ افغان جہاد سے بہت پہلے ہو رہا تھا۔ اس لئے ہرمذہبی انتہا پسند تحریک کی وجوہات افغان جہاد میں ڈھونڈنا مناسب نہیں ہے۔ مطلب یہ ہے کہ پنجاب میں ستر کی دہائی میں بہت سی بنیادی معاشی تبدیلیاں آنا شروع ہو گئی تھیں جن کے نتیجے میں یا ردعمل میں ایک روایت پرست درمیانے طبقے کا ابھار سیاسی سطح پر محسوس کیا جا سکتا تھا۔ بھٹو کے دور میں آنے والی سیاسی تبدیلیاں بھی ان کی وجہ سے تھیں اور مشرق وسطیٰ سے تارکین کا بھیجے جانے والا سرمایہ بھی تھا۔ پنجاب میں نئی آنے والی معاشی تبدیلیاں عوام کے اعتقادات کے نظام کو متاثر کر رہی تھیں۔ایک طرف تو معاشرہ نئے سرمایہ دارانہ دور کی دہلیز پر نئے مواقع اور آزادی کا تجربہ کر رہا تھا اور دوسری طرف مٹتی ہوئی جاگیردارانہ دور کی اقدار کے صدمے سے نڈھال ہورہا تھا جس سے رجعت پسند طاقتیں جنم لے رہی تھیں۔ ان رجعت پسندوں کا چہرہ مہرہ بھٹو مخالف تحریک میں نظر آنے لگا تھا۔ تاریخ عالم کا مطالعہ کریں تو ایسا صرف پاکستان میں نہیں ہوا بلکہ جب بھی کسی سماج میں بنیادی اقدار کو چیلنج درپیش ہوا تو اس کے ردعمل میں متشدد رجحانا ت نے جنم لیا۔ مشہور فلسفہ دان اور نفسیات کے ماہر ایرک فرام نے اس حوالے سے جرمنی میں سرمایہ داری نظام کے رائج ہونے سے جو تبدیلیاں آئیں ان کا تفصیلی جائزہ لیا ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ جب جاگیرداری دور کا خود کفیل گاؤں منڈی کے ساتھ جڑ جاتا ہے تو فرد کی نفسیات میں ایک نئی ہلچل مچ جاتی ہے۔ اب سرمایہ دارانہ منڈی میں اس کو نئے مواقع میسر ہوتے ہیں لیکن جاگیرداری عہد کا شخصی تحفظ ختم ہو کر بے یقینی میں بدل جاتا ہے۔ ایسی صورت میں وہ مذہب، قدیم روایات اور ڈکٹیٹروں میں پناہ ڈھونڈتا ہے۔ پنجاب میں خود کفیل گاؤں ستر کی دہائی میں ختم ہونا شروع ہو گیا تھا اور ایک نیا منڈی کا نظام اس کی جگہ لے رہا تھا۔ اس منڈی کے نظام کی وجہ سے جو نیا معاشرہ پیدا ہورہاتھا وہ جاگیردار دور کے عہد کے استحکام سے مختلف تھا۔
اس پس منظر میں اگر افغان جہاد کو دیکھیں تو اس نے جلتی پر تیل ڈالنے کا کام کیا۔ ایک تو پنجاب کے معاشرے میں بے یقینی کی صورت حال منڈی کے نئے نظام کی وجہ سے پیدا ہو رہی تھی اور اس پر مستزاد یہ کہ ریاست نے مسلح گروہوں کی نشووارتقاکو نظر انداز کئے رکھا یا انہیں اپنے سیاسی مقاصد کے لئے استعمال کیا۔ افغان جہاد میں تو مخصوص مسلح جتھے روسیوں کے خلاف بر سر پیکار تھے لیکن بہت ہی مضبوط وسیع تر جتھے فرقہ واریت کی مسلح جنگ بھی لڑ رہے تھے۔ افغانستان میں جہاد کرنے والوں کا فرقہ ورانہ مسلح جتھوں سے تعلق واضح نہیں ہے لیکن آخر کار پنجابی طالبان کی صورت میں یہ دونوں رجحانات یکجا نظر آتے ہیں۔ یہی صورت حال کشمیر میں جہاد کرنے والے جتھوں کی ہے۔
خود کفیل گاؤں کا خاتمہ اور اس کے نتیجے میں منڈی کا نظام پہلے پنجاب (بالخصوص وسطیٰ پنجاب) اور پھرخیبر پختونخواکے علاقوں میں آیا۔ اس لئے ہمیں انتہا پسند مذہبی تحریکیں بھی ان علاقوں میں پہلے نظر آنا شروع ہوئیں۔ بلکہ یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ برصغیر میں وسیع تر منڈی کا نظام پہلے پنجاب میں داخل ہوا۔ ہندوستان میں بی جے پی جیسی مذہب پرست پارٹی کا ابھار پاکستان قومی اتحاد کے تقریباً ایک دہائی بعد نظر آیا۔ اگر ہندوستان بھی افغان جہاد جیسا پروجیکٹ ریاستی سطح پر قبول کر لیتا تو وہاں بھی صورتحال پاکستان سے مختلف نہ ہوتی۔ پھر بھی ہندوستان میں سکھوں اور مسلمانوں کا قتل عام ظاہر کرتا ہے کہ ہندوستان بھی وسیع تر تاریخی عوامل سے محفوظ نہیں رہ سکا۔ سندھ میں منڈی کا نظام کچھ تاخیر سے داخل ہوا اس لئے وہاں مذہبی متشدد تحریکیں بھی دیر میں نظر آئیں۔



.