پاکستانی معیشت: غیر متوقع ترقی

March 01, 2017

پچھلے دنوں واشنگٹن پوسٹ میں ایک تفصیلی رپورٹ چھپی جس میں بتایا گیا تھا کہ پاکستان معاشی ترقی کی منازل تیزی سے طے کرنے والے ملکوں کی اگلی صفوں میں کھڑا ہے۔ رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا تھا کہ پاکستان دہشت گردی، فوجی دخل اندازیوں اور غیر مستحکم سیاسی نظام کی وجہ سے بدنام ہے لیکن معاشی پہلو سے اس نے بہت متاثر کن کارکردگی دکھائی ہے۔ رپورٹ میں مختلف پہلوئوں سے معیشت کے اشاریوں کو جانچ کر کہا گیا تھا کہ امریکہ جیسے ملکوں کو اس غلط فہمی میں پاکستان کو نظر انداز نہیں کرنا چاہئے کہ وہاں دہشت گردی کا مسئلہ سنگین ہے۔ اس سے پہلے وال اسٹریٹ جنرل اور نیویارک ٹائمزمیں اسی طرح کے مضامین چھپ چکے ہیں۔ لیکن بہت سے ناقدین پاکستان کے مختلف سماجی، تعلیمی اور صحت کے اشاریوں کا ذکر کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ پاکستان میں ایک مخصوص طبقے کے علاوہ کسی نے ترقی نہیں کی ہے اور پاکستان آج بھی وہاں کھڑا ہے جہاں پچاس سال پہلے کھڑا تھا۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ان متضاد دعوئوں میں کونسی بات سچ ہے؟
پاکستان کی ا سٹاک مارکیٹ اس وقت پچاس ہزار کے قریب پہنچتے ہوئے دنیا کی ان مارکیٹوں میں شامل ہے جہاں منافع کی شرح بلند ترین ہے۔ اسٹاک مارکیٹ کو امیروں کی سٹے بازی کا نام دے کر رد بھی کیا جا سکتا ہے لیکن اگر اسے معیشت دانوں کے نظریے سے لیا جائے توصورت حال زیادہ حقیقت پسندانہ انداز میں سمجھی جا سکتی ہے۔ اسٹاک مارکیٹ کو پیشگی اشاریے کے طور پر لیا جاتا ہے یعنی نظریہ یہ ہے کہ اسٹاک مارکیٹ میں سرمایہ کاری کرنے والوں کو معیشت کی تیزی اور سست روی کا عام لوگوں سے پہلے اندازہ ہو جاتا ہے۔ اسٹاک مارکیٹ معاشی ترقی کے مستقبل کا اولین اشارہ ہوتی ہے۔ اس پہلو سے دیکھا جائے تو پاکستان کی مارکیٹ پچھلے کئی سالوں سے اوپر کی طرف جارہی ہے۔ کیا یہ سرمایہ کاروں کی محض سٹے بازی ہے یا حقیقت میں پاکستان میں مختلف شعبوں میں منافع بخش کاروبار ہو رہا ہے؟
واشنگٹن پوسٹ نے دو بیرونی کمپنیوں کے بارے میں کہا ہے کہ وہ پچیس فیصد منافع کمارہی ہیں۔ اسی طرح چند سال پیشتر بینکاری کی صنعت کے بارے میں ایک رپورٹ چھپی تھی جس میں کہا گیا تھا کہ پاکستان کی بینکنگ انڈسٹری منافع کے لحاظ سے بہت بلندیوں پر ہے۔ پاکستان میں سیمنٹ اور آٹو جیسی صنعتیں بھاری بھر کم منافع دے رہی ہیں۔ سوائے ٹیکسٹائل انڈسٹری کے مخصوص شعبوں کے کوئی صنعت بھی گھاٹے میں نہیں جا رہی۔ اور یہی وہ حقائق ہیں جن کو مد نظر رکھتے ہوئے سرمایہ کار پاکستانی کمپنیوں کے اسٹاک خریدتے ہیں اور اسٹاک مارکیٹ اوپر جاتی ہے۔ جو صنعتیں بجلی اور گیس کی کمیابی کی وجہ سے لاغر تھیں وہ اب توانا ہو رہی ہیں۔ اگر لوڈ شیڈنگ اور مہنگی بجلی کے مسائل حل ہو گئے تو پاکستانی صنعتیں اور تیزی سے ترقی کریں گی۔
پاکستان کی معاشی ترقی کو ایک عام گاؤں کی سطح پر بھی دیکھا جا سکتا ہے۔ ستر کی دہائی تک میرے آبائی گاؤں میں اکا دکا خاندانوں کو چھوڑ کر باقی سب کے مکانات کچی مٹی سے بنے ہوتے تھے۔ گائوں میں چند اسکول ٹیچروں یا چوہدریوں کے پاس بائیسکل ہوتی تھی۔ عام کسانوں کا سب سے بڑا سرمایہ چند بیل اور گائیں بھینسیں ہوتی تھیں ان مویشیوں کے لئے لفظ ’مال‘ یا سرمایہ استعمال ہوتا تھا (آج بھی پنجابی زبان میں گھریلو مویشیوں کے لئے لفظ ’مال‘ استعمال ہوتا ہے)۔ اکثر کسانوں کے پاس پہننے کا ایک جوڑا کپڑا ہوتا تھا اور ہر ایک کو جوتی بھی نصیب نہیں ہوتی تھی۔ آج گاؤں میں کچے مکان کا کوئی تصور نہیں ہے۔ گاؤں میں کئی درجن کاریں ہیں اور موٹر سائیکل تو تقریباً ہر گھر میں موجود ہے۔ اب بیلوں کی جگہ ٹریکٹروں نے لے لی ہے\۔ گاؤں میں ایک گنتی کے مطابق اسی کے قریب ٹریکٹر ہیں۔ گویا کہ ہر خاندان کی معاشی قدروقیمت میں کئی ہزار گنا اضافہ ہو چکا ہے۔ اگر گاؤں کے انفرا سٹرکچر کو دیکھا جائے تو بجلی، پکی سڑک، ٹیلیفون وغیرہ سے گاؤں کی کل مالیت میں کئی سو گنا اضافہ ہو چکا ہے۔ اسی طرح اگر شہروں کا اندازہ لگایا جائے تو وہاں ہر لحاظ سے مالیت میں کئی سو گنا اضافہ ہو چکا ہے۔ اگر تمام عمارتوں، سڑکوں، آٹو موبائلز، اور دوسری جائیدادوں کو جمع کیا جائے تو آج کے شہر ستر کی دہائی کے مقابلے میں کئی سو گنا آگے بڑھ چکے ہیں۔ اگر فی کس ٹیلی وژن یا موبائل فونوں کا اندازہ لگایا جائے تو آج کا پاکستان تین دہائیوں میں بہت ترقی کر چکا ہے۔ غرضیکہ کسی اشاریے سے بھی دیکھیں تو صاف ظاہر ہوتا ہے کہ پاکستان نے کافی تیز ترقی کی ہے۔ اس سلسلے میں کئی اعتراضات اور سوالات ہیں جن کا ذکر ضروری ہے۔
پاکستان میں معاشی ترقی سے طبقاتی فاصلے بہت بڑھ گئے ہیں۔نچلے اور اوپر کے طبقوں میں فرق کئی سو گنا بڑھ گیا ہے۔ اگر واشنگٹن پوسٹ کا یہ اندازہ درست ہے کہ پاکستان میں درمیانہ طبقہ نصف سے زیادہ آبادی پر محیط ہے تو یہ بہت خوش آئند خبر ہے کیونکہ اس سے ملک میں دیر پاسماجی اور سیاسی استحکام ممکن ہو سکے گا۔ درمیانہ طبقہ بطور صارف کے معاشی ترقی کا بہت بڑا انجن ثابت ہوگا۔ اگر واشنگٹن پوسٹ کا یہ کہنا بھی درست ہے کہ صارفین 2030تک ایک کھرب ڈالر تک مارکیٹ میں خرچ کریں گے تو پاکستان اشیائے صرف کی بہت بڑی منڈی بن جائے گا جس کو کوئی بھی صنعتی ملک نظر انداز نہیں کر سکے گا۔ اس کا یہ بھی مطلب ہے کہ ملک میں غربت کا خاتمہ اتنا مشکل نہیں رہے گا جتنا کہ اس وقت نظر آرہا ہے۔
پاکستان کے بہت سے اشاریے بہت منفی ہیں۔ بالخصوص پاکستان کی ریاست تعلیم صحت اور دوسری بہت سی سہولتیں فراہم نہیں کر رہی۔ ریاست ٹیکسوں کی وصولی نہیں کر پاتی جس کی وجہ سے بالواسطہ ٹیکسوں کا غریب عوام پر بہت بوجھ ہے۔ ٹیکسوں کا نظام خراب ہونے کی وجہ سے ریاست کی مالی حالت بھی غیر مستحکم ہے۔ اس کا صاف مطلب ہے کہ اگر پاکستان میں پروگریسو ٹیکسوں کا نظام کامیابی سے نافذ کر دیا جائے تو ریاست کی مالی حالت بھی مستحکم ہوجائے گی اور وہ بہت سی عوامی سہولتیں فراہم کرنے کے علاوہ غریبوں پر تھوپے گئے ٹیکس بھی کم کر سکے گی۔ المختصر باوجود دہشت گردی اور سماجی افراتفری کے پاکستان میں قابل قدر معاشی ترقی ہوئی ہے۔ پاکستانی ریاست نئے معاشی نظام کا مناسب بندوبست کرنے کے قابل ہو جائے تو ملک برق رفتاری سے ترقی کر سکتا ہے۔



.