PSL فائنل کے کامیاب انعقاد سے خوف کا خاتمہ

March 15, 2017

گزشتہ دنوں جب یہ سننے میں آیا کہ پنجاب حکومت لاہور میں پاکستان سپر لیگ (PSL) کا فائنل منعقد کرانے کا ارادہ رکھتی ہے تو میرا پہلا ردعمل یہ تھا کہ پنجاب حکومت کا یہ فیصلہ کسی خطرے سے خالی نہیں اور شاید غیر ملکی عالمی کھلاڑی میچ میں شرکت سے گریز کریں۔ یہ بھی خیال تھا کہ لاہور میں پی ایس ایل فائنل کرانے کا فیصلہ سیاسی فوائد حاصل کرنا اور کرکٹ کی دیوانی قوم کو یہ باور کرانا تھا کہ انٹرنیشنل کرکٹ کی پاکستان واپسی کا سہرا (ن) لیگ حکومت کے سر جاتا ہے۔ ان خدشات کے پیچھے دراصل 2009ء میں لاہور میں سری لنکن کرکٹ ٹیم پر ہونے والے حملے کی وہ یادیں تھیں جو آج بھی میرے ذہن میں نقش تھیں جب خود کار اور جدید ہتھیاروں سے مسلح دہشت گرد، لاہور کی سڑکوں پر دندناتے پھر رہے تھے۔ اس واقعہ کا خوف مجھ سمیت ہر پاکستانی کے ذہن میں آج بھی تازہ تھا مگر جب گزشتہ دنوں قذافی اسٹیڈیم لاہور میں پی ایس ایل فائنل دیکھنے کا اتفاق ہوا اور وہاں موجود لوگوں میں جوش و خروش، ولولہ، دھمال اور نعرے بازی دیکھی تو اندازہ ہوا کہ قوم نے آج اپنے ذہن سے اُس خوف کو نکال پھینکا تھا جس کا وہ سری لنکن کرکٹ ٹیم پر حملے کے بعد سے شکار تھی۔ اسٹیڈیم میں فیسٹیول کا سماں تھا جہاں پاکستان کے ہر صوبے اور شہروں کے ہر عمر کے افراد موجود تھے جبکہ بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی بڑی تعداد بھی اسٹیڈیم میں موجود تھی جو میچ دیکھنے کیلئے خصوصی طور پر پاکستان آئے تھے۔ میری برابر والی سیٹ پر براجمان ایک فیملی نے بتایاکہ وہ میچ دیکھنے کیلئے لندن سے خصوصی طور پر لاہور آئے ہیں۔ میچ میں گورنر پنجاب محمد رفیق رجوانہ اور وزیراعلیٰ شہباز شریف نے بھی شرکت کی جبکہ جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق اور عوامی تحریک کے سربراہ شیخ رشید احمد بھی اسٹیڈیم میں موجود تھے۔ میچ میں وزیراعظم نواز شریف نے بھی شرکت کرنا تھی مگر آخری وقت میں اُن کا ہیلی کاپٹر اسٹیڈیم کے اوپر سے ہی چکر لگاکر واپس چلا گیا۔ ایسی اطلاعات ہیں کہ وزیراعظم کی اسٹیڈیم میں موجودگی کے دوران تحریک انصاف کے کارکنان حکومت مخالف نعرے بازی کا ارادہ رکھتے تھے اور شیخ رشید احمد کی جنرل انکلوژر میں موجودگی سے بھی یہ تاثر ابھرا کہ وہ بھی اسی منصوبے کا حصہ ہوں گے۔ میچ کے دوران وقتاً فوقتاً حکومت مخالف نعروں کا سلسلہ جاری رہا تاہم (ن) لیگی کارکنوں نے صبر و تحمل کا مظاہرہ کیا بصورت دیگر اسٹیڈیم میں تصادم کی صورتحال پیدا ہوسکتی تھی۔
میچ کے دوران سری لنکن کرکٹ ٹیم کو بچانے والے بس ڈرائیور مہر خلیل کا خیال بار بار میرے ذہن میں آرہا تھا جو ٹیم کو دہشت گردوں سے بچانے کے بعد اپنی ہمت و بہادری کی وجہ سے قوم کے ہیرو کے طور پر ابھرا تھا مگر پی ایس ایل فائنل میچ کی گہما گہمی میں قوم کے اِس ہیرو کو فراموش کردیا گیا۔ 8سال قبل جب دہشت گردوں نے سری لنکن ٹیم کو قذافی اسٹیڈیم کے قریب دہشت گردی کا نشانہ بنایا تو یہ بات کسی معجزے سے کم نہ تھی کہ مہر خلیل کی حاضر دماغی اور بہادری کے باعث دہشت گرد اپنے مذموم عزائم میں کامیاب نہ ہوسکے۔ مہر خلیل کی اِسی بہادری کی وجہ سے میں نے اُسے اپنے ذاتی مہمان کی حیثیت سے مراکش مدعو کیا تھا۔ سری لنکن کرکٹ ٹیم پر حملے کے بعد اُس وقت خوف کا یہ عالم تھا کہ میرے دوستوں نے مہر خلیل کو مراکش مدعو کرنے سے کئی بار روکنے کی کوشش کی اور کہا کہ ایسا کرکے دہشت گردوں سے خطرہ مول لے رہا ہوں مگر میں نے کوئی پروا نہیں کی۔ مراکش میں قیام کے دوران مہر خلیل کو قریب سے جاننے کا موقع ملا اور ہماری یہ ملاقات دوستی میں بدل گئی جو آج بھی قائم ہے۔ دوران ملاقات واقعہ کے بارے میں مہر خلیل نے بتایا تھا کہ ’’میں سری لنکن کرکٹ ٹیم کے دورہ پاکستان کے دوران ٹیم کو ہوٹل سے اسٹیڈیم لانے اور واپس لے جانے پر مامور تھا، حسب معمول 3 مارچ کو جب سری لنکن کھلاڑیوں سے بھری بس لے کر لبرٹی چوک لاہور پہنچا تو دہشت گردوں نے اچانک چاروں طرف سے گولیوں کی بوچھاڑ کردی، شروع میں گولیوں کی آواز سن کر سمجھا کہ شاید لاہور کے شہری سری لنکن کرکٹ ٹیم کے استقبال میں آتش بازی کررہے ہیں مگر جب کچھ دہشت گردوں نے بس کے سامنے آکر فائرنگ کی تو اندازہ ہوا کہ یہ آتش بازی نہیں بلکہ دہشت گردی کا کھیل تھا۔ مہر خلیل نے بتایا کہ ایک موقع پر جب ہینڈ گرنیڈ لئے دہشت گرد بس کے سامنے آیا تو میں نے سوچا کہ بس سے چھلانگ لگاکر اپنی جان بچالوں لیکن جب سری لنکن کرکٹ ٹیم کے زخمی کھلاڑیوں پر میری نظر پڑی اور اُسی دوران دہشت گردوں کا چلایا گیا ایک راکٹ بس کو مس کرتا ہوا فٹ پاتھ پر جاگرا تو میں اپنی بس تیز رفتاری سے بھگاتے ہوئے اسٹیڈیم لے آیا، اس طرح دہشت گردوں کا مہمان کرکٹ ٹیم کو دہشت گردی کی بھینٹ چڑھانے کا منصوبہ ناکام ہوگیا۔‘‘
معاشرے کی تبدیلی میں کھیل اور ثقافت کا اہم کردار ہوتا ہے جو تمام تر تعصبات سے بالاتر ہوکر نظم و ضبط اور قوم کی یکجہتی کا سبب بنتے ہیں۔ اگر قذافی اسٹیڈیم لاہور میں پی ایس ایل فائنل کروڑوں چہروں پر مسکراہٹیں بکھیرنے کا باعث بنا ہے تو اِس کا کریڈٹ حکومت کو بھی دیا جانا چاہئے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ 2009ء کے بعد حکومت پاکستان نے ملک سے دہشت گردی کے خاتمے کیلئے ’’کائونٹر ٹیررازم فورس‘‘ کو موثر انداز میں تربیت دے کر جدید اسلحے سے لیس کیا ہے تاکہ وہ دہشت گردوں سے صحیح معنوں میں نبردآزما ہوسکیں جبکہ ’’آپریشن ضرب عضب‘‘ نے دہشت گردوں کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے اور سرحدی علاقوں سے دہشت گردوں کی کمین گاہوں کا خاتمہ کیا جاچکا ہے۔ لاہور میں ہونے والے پی ایس ایل فائنل نے پاکستان میں انٹرنیشنل کرکٹ کے دروازے کھول دیئے ہیں جو سری لنکن ٹیم پر دہشت گردانہ حملے کے بعد بند ہوئے تھے۔ یہ بات خوش آئند ہے کہ بھارت کے تمام تر مخالفانہ اور اوچھے ہتھکنڈوں کے باوجود پی ایس ایل فائنل میچ سب سے زیادہ بھارت میں آن لائن دیکھا گیا۔ ویب سائٹ ’’کرکٹ گیٹ وے‘‘ کے مطابق بھارت کے 29 فیصد شہریوں نے پی ایس ایل فائنل دیکھا جبکہ پاکستان میں یہ شرح 22 فیصد رہی۔ یہ ایک ریکارڈ ہے جو آج تک کسی پاکستانی نشریات کو حاصل نہ ہوسکا۔ میچ کے اگلے روز میں نے گورنر ہائوس لاہور میں گورنر پنجاب محمد رفیق رجوانہ سے ملاقات کی اور پی ایس ایل فائنل کے کامیاب انعقاد اور سیکورٹی کے بہترین انتظامات پر اُنہیں مبارکباد پیش کی۔ دوران ملاقات گورنر پنجاب نے کہا کہ میچ کی کامیابی کا سہرا صرف پنجاب حکومت کو نہیں بلکہ پوری قوم کو جاتا ہے۔
ہم اکثر سیاست کو کھیل اور کھیل کو سیاست کا شکار کردیتے ہیں۔ عمران خان کی جانب سے پی ایس ایل فائنل لاہور میں منعقد کرانے کی مخالفت اور میچ کی کامیابی کے بعد عالمی شہرت یافتہ غیر ملکی کھلاڑیوں کو ’’پھٹیچر‘‘ قرار دینا انتہائی قابل افسوس بات ہے۔عمران خان کے علاوہ کچھ دیگر ناقدین بھی لاہور میں پی ایس ایل فائنل کے انعقاد کو ’’پاگل پن‘‘ اور ’’خطرہ‘‘ قرار دیتے رہے مگر حکومت یہ خطرہ مول لے کر خوف کے خاتمے میں کامیاب رہی جس سے یہ پیغام ملا کہ اگر خوف اور دشمن کے خلاف لڑنا ’’پاگل پن‘‘ ہے تو قوم ’’پاگل پن‘‘ کا شکار ہے۔ پی ایس ایل فائنل کے شاندار اور کامیاب انعقاد کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ دہشت گردی اور انتہا پسندی کے خلاف جنگ جیت لی گئی ہے مگر اس سے دہشت گردی اور انتہا پسندی کے خلاف قوم کے عزم و حوصلے کا اظہار ضرور ہوتا ہے اور یہ پیغام ملتا ہے کہ 20ہزار سے زائد سیکورٹی اہلکاروں اور 70ہزار سے زائد عام شہریوں کی قربانی کے باوجود پاکستانی ایک زندہ قوم ہیں۔



.