بیانئے کا ڈرافٹ

March 22, 2017

تین قسم کے لوگ بیانئے کی بحث میں الجھے ہیں۔ ایک وہ جو دہشت گردوں کے خلاف ہیں، دوسرے جو دہشت گردوں کے بیانئے کو بڑھاوا دیتے ہیں اور تیسرے وہ جو کنفیوژن کا شکار ہیں۔
اِس لفظ بیانئے کا مطلب کیا ہے؟ لغت میں تو یہ شروع سے تھا، یکایک ہماری گفتگو میں اتنا کثرت سے کیوں استعمال ہونے لگا؟ اب تو دودھ پیتے بچے کو بھی پوچھیں کہ دودھ کیوں نہیں پیا تو وہ جواب دے گا کہ خالص دودھ کا بیانیہ کمزور ہے۔ بیانئے کی یہ بحث آج کل پھر زور پکڑ رہی ہے، ایک جانب وہ لوگ ہیں جنہوں نے ریاست کے لئے بیانئے کا ڈرافٹ تیار کیا ہے کہ حکومت اگر چاہے تو اس سے استفادہ کر سکتی ہے، یہ ایک قابل قدر کام ہے جو کچھ لوگوں نے کیا ہے جس کے لئے اُن کی تعریف کی جانی چاہیے، یہ وہی لوگ ہیں جو دہشت گردی کی اِس جنگ میں کسی قسم کی کنفیوژن کا شکار نہیں، روز اوّل سے اِن کا موقف دوٹوک اور صاف ہے، یہ پہلے بھی دہشت گردی کے خلاف تھے اور آج بھی ہیں، اس ضمن میں یہ کسی قسم کی ’’اگر مگر چونکہ چنانچہ‘‘ کے قائل نہیں، دہشت گردی کی ہر قسم کی تاویل انہوں نے بزور دلیل رد کی، علمی انداز فکر اپنایا اور اپنی تحریروں سے ایک بیانیہ تشکیل دیا جس میں اُن تمام عوامل کا احاطہ کیا گیا جو دہشت گردی کا باعث بنتے ہیں اور پھر اُن کا مدلل جواب تاریخی اور مذہبی حوالوں سے یوں دیا کہ کسی قسم کا ابہام باقی نہ رہے۔ دوسرا گروہ ان لوگوں پر مشتمل ہے جو ملک میں ہونے والی دہشت گردی پر مگرمچھ کے آنسو بہاتے ہیں، بظاہر بم دھماکوں میں مرنے والوں پر افسوس کا اظہار کرتے ہیں مگر یہ اظہار افسوس و مذمت کل پانچ سیکنڈ یا پانچ سطروں کا ہوتا ہے جس کے بعد وہ کیل کانٹوں سے لیس ہو کر دہشت گردوں کے مخالفین پر پِل پڑتے ہیں، اُن کے بیانئے کا مذاق اڑاتے ہیں، اپنے تئیں تاریخ اور مذہب کے حوالے بھی دیتے ہیں اور یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ ملک میں ہونے والی دہشت گردی دراصل دہشت گردی نہیں بلکہ حقانیت کی جنگ ہے جس میں بدقسمتی سے کچھ بے گناہ بھی مارے جاتے ہیں مگر اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کیونکہ اُن میں سے جو حق پر نہیں تھا وہ جہنم میں جائے گا اور جو حق پر تھا وہ خود بخود جنت میں جائے گا لہٰذا ورثا کو ماتم کرنے کی چنداں ضرورت نہیں، اور ظاہر ہے کہ یہ تمام باتیں وہ ملفوف انداز میں کرتے ہیں، لب لباب بہرحال یہی ہوتا ہے۔
ہم اِس بحث میں نہیں پڑتے کہ اِن دونوں پارٹیوں میں سے کس کے دلائل میں وزن ہے اور کس کے تاریخی حوالے درست ہیں، ہمارے پاس ایک ہی طریقہ ہے جانچنے کا، سادہ اور سہل، یہ دیکھ لیں کہ کون کس کے ساتھ کھڑا ہے۔ مثلاً اگر کسی جگہ ایک فلسطینی اور اسرائیلی اکٹھے ہو جائیں اور اُن میں سے فلسطینی کمزور انداز میں اپنا مقدمہ پیش کرے اور اسرائیلی بڑھ چڑھ کر جذباتی انداز میں حاضرین مجلس پر اثر انداز ہونے کی کوشش کرے تو اِس سے فلسطین کا مقدمہ غلط ثابت نہیں ہو جائے گا۔ اسی طرح دہشت گردی سے متعلق بیانئے کی سچائی جاننے کا بھی یہی امتحان کافی ہے کہ یہ دیکھ لیا جائے کہ یہ بیانیہ دہشت گردوں کے مقدمے کی حمایت کر رہا ہے یا مخالفت۔
یہ مقدمہ کیا ہے اب ذرا اِس پر بھی بات ہو جائے۔ چند سوالات پر غور فرمائیں (آسانی کے لئے ایک کتاب سے مستعار لئے گئے ہیں) ’’ایک مسلمان ملک کی حکومتی اشرافیہ اگر اپنی خارجہ پالیسی کے تحت ایک کافر ملک کی اِس طرح حمایت کرے جس سے دوسرے مسلمان ملک کو زک پہنچے تو کیا وہ حکومتی اشرافیہ مسلمان رہے گی اور انہیں اسلام سے خارج سمجھا جائے گا؟ مسلمانوں پر مشتمل فوج اگر اپنے اُن مسلمان بھائیوں کے خلاف کارروائی کرے جو ایسے کافر ملک کی غاصب فوج کے خلاف برسر پیکار ہوں جس نے اُن کے ملک پر قبضہ کر رکھا ہو تو کیا وہ فوج مسلمان کہلائے گی؟ مسلمان ممالک کے عام مسلمان جو اسلام کے تصور خلافت کے برخلاف مغربی جمہوریت، آزاد اور روشن خیالی، بادشاہت یا سوشلزم جیسے انسان کے بنائے ہوئے سیاسی نظام اپنا لیں، کیا مسلمان کہلائیں گے؟ یا ایسے کسی غیر مسلم نظام کو اوڑھنا بچھونا بنانے کے بعد کیا مسلم عوام دائرہ اسلام میں شامل سمجھے جائیں گے؟ کیا انفرادی مسلمان یا مسلم عوام جو ایک مغربی طرز زندگی اپنا لیں اور اسلامی تعلیمات سے بظاہر کنارہ کشی اختیار کر لیں، کیا مسلمان کہلانے میں حق بجانب ہوں گے یا انہیں بھی غیر مسلم ہی سمجھا جائے؟ یہ ہے اُن سوالات کا خلاصہ جو اُس بیانئے کا موجب بنتے ہیں جس پر بحث جاری ہے۔ خلط مبحث یہ ہے کہ کچھ قابل احترام لکھاریوں کی رائے میں ہمیں کسی بیانئے کی ضروت ہی نہیں اور اگر ہے بھی تو آئین کی صورت میں ہمارا ایک بیانیہ موجود ہے۔ یہ بات کسی حد تک تو درست سمجھی جا سکتی ہے مگر جب تک ہم اِن سوالات کا دوٹوک اور غیر مبہم جواب نہیں دیں گے تب تک بیانئے کا مسئلہ حل نہیں ہو گا۔ یہ سوالات گزشتہ دو دہائیوں سے گردش میں ہیں، ان کے جوابات کی روشنی میں ہی انتہا پسندی کا بیانیہ تشکیل پاتا ہے، انہی سوالات کے ارد گرد ہی بیانئے کی پوری بحث گھومتی ہے۔ اگر بیانئے کے کسی ڈرافٹ میں اِن سوالات کا تسلی بخش جواب نہیں تو وہ سرے سے کوئی بیانیہ ہی نہیں۔ لطیفہ یہ بھی ہے کہ بیانئے کا یہ ڈرافٹ کسی فرد نے اپنی آزاد حیثیت میں تیار نہیں کرنا بلکہ یہ حکومت کا کام ہے اور کام صرف ان سوالات کا جواب تیار کرنا نہیں بلکہ پورے معاشرے کو اور آنے والی نسلوں کو دوٹوک انداز میں یہ بتانا ہے کہ ہماری ریاست کا بیانیہ اس ضمن میں کیا ہے۔ خاکسار کی تھوڑی بہت تحقیق کے مطابق اس ضمن میں کے پی میں باچا خان اسکولز نے اپنے نصاب کو اس بیانئے کی روشنی میں تشکیل دینا شروع کیا ہے جبکہ باقی صوبے اور اسکول فی الحال دھنیا پی کے سو رہے ہیں۔
رہی بات یہ کہ اِن سوالات کا کیا جواب ہے، اِن کی روشنی میں بیانیہ کیسے تشکیل پا سکتا ہے، کیا یہ کام صرف ریاست کا ہے، اسے کیسے کیا جانا چاہئے؟ یہ ذکر پھر کبھی۔



.