پاک ایران تجارتی مذاکرات!

April 07, 2017

ایران کی جانب سے پاکستانی پھلوں، ٹیکسٹائل اور چمڑےکی مصنوعات، فٹ ویئر، سبزیوں، چاول اور کینو کی درآمد پر ڈیوٹی90فیصد سے بڑھا کر دو سو فیصدکرنے کے نتیجے میں ایران کیلئے پاکستان کی برآمدات میں خطرناک حد تک کمی واقع ہو گئی ہے۔2008-09میں یہ برآمدات ایک ارب 32 کروڑ ڈالر کی سطح پر تھیں جو اب گھٹ کر 31 کروڑ80 لاکھ ڈالر پر آگئی ہیں۔ اس کی بنیادی وجہ یہ بتائی گئی ہے کہ پاکستانی بنکوں کی جانب سے ایرانی بنکوں کے ساتھ منتقلیوں کا کوئی تنازعہ ہے جسے طے کرنے کیلئے بنک آف ایران اور سٹیٹ بنک آف پاکستان میں مذاکرات شروع ہو چکے ہیں۔حکومت پاکستان نے بھی تجارتی ڈپلومیسی بروئے کار لانے کا بروقت فیصلہ کیا ہے۔دونوں ملکوں کے مشترکہ اقتصادی کمیشن کا دو روزہ اجلاس17 اپریل کو تہران میں طلب کرلیا گیا ہے ۔ پاکستان اور ایران کے تجارتی و اقتصادی تعلقات دونوں ملکوں کے مفاد میں ہیں۔گزشتہ سال مارچ میں ایرانی صدر حسن روحانی کے دورے کے موقع پر باہمی تجارت کا حجم5ارب ڈالر تک لے جانے پر اتفاق ہوا تھا۔ بھارت سے ایران کا تجارتی حجم اس وقت 18 ارب ڈالر ہے حالانکہ ان کی سرحدیں بھی آپس میں نہیں ملتیں۔ پاکستان اور ایران نہ صرف مشترکہ سرحد بلکہ تاریخی ثقافتی اور مذہبی رشتوں میں بھی منسلک ہیں۔ ایران گیس فراہم کرنے کیلئے پاکستان کی سرحد تک پائپ لائن بچھا چکا ہے جبکہ پاکستان نے بین الاقوامی پابندیوں کی وجہ سے اس سمت میں تاحال کوئی پیش رفت نہیں کی ۔ دونوں ملکوں کا سامان تجارت ایک دوسرے کیلئے سستا بھی ہے اور پُرکشش بھی اس لئے کوئی وجہ نہیں کہ چھوٹے موٹے تکنیکی مسائل افہام و تفہیم سے حل نہ کر لئے جا ئیں پاکستان ایرانی دلچسپی کے اہم معاملات میں ہمیشہ تہران کے ساتھ کھڑا ہے اور ایران نے بھی مسئلہ کشمیر سمیت تمام مسائل پر پاکستان کی ہمیشہ حمایت کی ہے۔ دوستی اورخیر سگالی کا ماحول برقرار رکھتے ہوئے دونوں ملکوں کو اقتصادی اور تجارتی معاملات میں بھی باہمی مفاد میں ایک دوسرے کے ساتھ کھڑے رہنا چاہئے۔

.