گزرا ہوا ایک بہت برادن!

May 01, 2017

ابھی عمران خان کے دس ارب روپے ’’بقیہ‘‘ تھے کہ ڈان لیکس پر آئی ایس پی آر کی ٹوئٹ نے ایک ہنگامہ کھڑا کردیا، میں اس حوالے سے پہلے انصار عباسی کی تجزیاتی رپورٹ کا جواب دونگا اور اس کے بعد اگر کچھ عرض کرسکا تو عرض کروں گا۔ انصار عباسی کے نزدیک یہ ناقابل یقین بھی ہے اور بدقسمتی بھی کہ وزیر اعظم پاکستان نے انکوائری کمیشن کی سفارشات پر عملدرآمد کے لئے تین متعلقہ وزارتوں کو حکم جاری کیا لیکن سر عام وزیر اعظم کے اقدامات سے اختلاف کیا گیا اور اسے مسترد بھی کردیا۔ اس ٹوئٹ کے الفاظ ’’ڈان لیکس اعلامیہ نامکمل ہے‘‘ اور انکوائری بورڈ کی سفارشات کے مطابق نہیں ہے۔ اعلامیہ مسترد کیا جاتا ہے۔ واضح طور پر منتظم اعلیٰ کے عہدے کو نقصان پہنچاتے ہیں اور یہ تاثر دیتے ہی جیسے فوج آئین سے بالاتر کوئی ادارہ ہے۔ پاکستان کے اس شش و پنج پر وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان کی طرف سے بہترین تبصرہ آیا ہے کہ یہ بحران جمہوریت کے لئے مہلک ہے اور بااصرار کہاہے کہ ادارے ٹوئٹ کے ذریعے ایک دوسرے سے بات نہیں کرتے،فوج کسی بھی وجہ سے درست یا غلط وزیر اعظم کے 29اپریل 2017کے حکم نامے سے ناخوش ہوسکتی ہے لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ ٹوئٹ کرنا چاہئے جس طرح انہوں نے ہفتے کو کیا۔ جبکہ بہترین لائحہ عمل یہ ہوتا کہ وہ وزیر اعظم کے دفتر سے رابطہ کرتے اور اپنے تحفظات پہنچاتے۔ ریٹنگ کے بھوکے ٹی وی چینلز کے لئے ٹوئٹ نے پوائنٹ اسکورنگ کا موقع فراہم کردیا ہے جو سیاسی افراتفری اور سول ا ور فوج کے درمیان غلط فہمی کو بھڑکانے کا باعث بنے گا۔ پہلے سے تیار تجزیہ کاروں نے بھی یہ دیکھے بغیر کے حکومت نے کیا جاری کیا ہے اس میں اپنا حصہ ڈالا۔ وزیر اعظم کا آرڈر مکمل طور پر غلط پڑھاگیا اور غلط سمجھا گیا۔ آرڈر نہ تو ڈان لیکس پر انکوائری کمیٹی کے انکشافات کی عکاسی کرتا تھا اور نہ ہی عوام کے لئے تھا۔ وزیر اعظم کے حکم میں صرف یہ کہا گیا تھا کہ چیف ایگزیکٹو نے کمیٹی کی سفارشات منظور کرلی ہیں اور متعلقہ وزارتوں کو ہدایت کی ہے کہ ان سفارشات پر عملدرآمد کے لئے ضروری اقدامات کریں۔ یہ حکم متعلقہ وزارت اور محکموں کے لئے تھا، ٹوئٹ نے حکومت کو شرمندہ کیا ہے اور ملک کے چیف ایگزیکٹو کو شرمندہ کرنے والی صورتحال پیدا کی ہے۔ ٹوئٹ سے پیدا ہونے والی صورتحال کو غیر ملکی میڈیا خصوصاً بھارتی میڈیا نے پوری طرح پاکستان کی سویلین اور فوجی قیادت کو تقسیم کرنے کے لئے استعمال کیا ہے۔
میرے خیال میں یہ تبصرہ بہت جامع ہے اور ان سیاسی اور صحافتی بھکاریوں کو مایوس کرنے والا ہے جو اس بات پر بھنگڑے ڈال رہے ہیں کہ 2013کے انتخابات سے آج تک ہونے والے ضمنی انتخابات میں تو پاکستان کے بیس کروڑ عوام نے اپنی حکومت پر مکمل اعتماد کا اظہار کیا اور اس دوران سول اور فوجی قیادت میں بہت سے معاملات پر تقریباً ایک ہی پیج پر نظر آئیں بلکہ ہمارے آرمی چیف قمر جاوید باجوہ نے تو جمہوریت بلکہ پارلیمانی جمہوریت سے اپنے عشق تک کا اظہار کیا، چنانچہ ان حالات میں متذکرہ ٹوئٹ کو میں کسی سازش کا پیش خیمہ نہیں سمجھتا بلکہ میں ہمیشہ کی طرح اس مرتبہ بھی حسن ظن سے کام لیتے ہوئے اسے ایک دفتری زبان وبیان کا تساہل قرار دوں گا۔ ایسا تو ماضی میں بدترین حالات میں بھی کبھی نہیں ہوا کہ وزیر اعظم نے سفارشات کے عین مطابق و متعلقہ وزارت ا ور محکموں کو کوئی حکم جاری کیا ہو اور اسے مسترد کردیا جائے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ سیاسی تجزیہ نگاروں نے اس صورتحال کو پاکستان کیلئے بین الاقوامی سبکی اور پریشانی کا باعث قرار دیا ہے۔ مجھے کل مجیب شامی ،شاہزیب خانزادہ، حفیظ اللہ نیازی، رانا جواد، منیب فاروق اور دوسرے بہت سے صائب الرائے تجزیہ کاروں کی گفتگو سننے کا موقع ملا ، سب کی اجتماعی پریشانی یہی تھی ، مگر سوال پیدا ہوتا ہے کہ جو ہونا تھا، وہ ہوگیا اب کیا کیا جائے۔ عمران خان تو وزیر اعظم بننے کے لئے ملک و قوم کے مفاد کو بھی دائو پر لگانے کے لئے تیار رہتے ہیں۔ یہی حال ان کے’’ہم نوائوں‘‘ کا ہے ، میرے خیال میں جیسا کہ تقریباً سبھی نے یہ کیا ہے کہ اگر پہلے پراپر طریقے سے اپنے تحفظات وزیر اعظم تک نہیں پہنچائے گئے تو اب فوری طور پر باہمی رابطہ ہونا چاہئے، جو جگ ہنسائی ہونا تھی وہ ہوگئی، جو آگ لگنا تھی لگ گئی، جو کچھ جھلسنا تھا وہ جھلس گیا، اب جو بچا ہے وہ بچایا جائے۔ ہمیں اپنے آشیانے کا ایک ایک تنکا عزیز ہے اور اس کی حفاظت کسی ایک کی نہیں ہم سب کی ذمہ داری ہے۔ دیکھتے ہیں اس ذمہ داری کی ادائیگی کے لئے کون کون آگے بڑھتا ہے اور وہ خواہ پانی کے چند قطرے اس آگ پر ڈال سکتا ہو ، وہ آئے اور اس آگ کو بجھانے میں اپنا کردار ادا کرے۔ اس میں واقعی کوئی شبہ نہیں کہ یہ دن ہماری جمہوریت کے لئے بدترین دن تھا، مگر ہم نے اس شر میں سے خیر تلاش کرنا ہے اور اسے قوم میں تقسیم کرنا ہے۔
آخر میں غالب کا ایک شعر پرویز رشید کی نذر؎
ہم کہاں کے دانا تھے، کس ہنر میںیکتا تھے
بے سبب ہوا غالبؔ دشمن آسماں اپنا



.