کاروشی

June 04, 2017

ایک زمانہ تھا، جس چیز پر’’میڈان جاپان‘‘ لکھا ہوتا ہم آنکھیں بند کرکے اس کے معیار کی گواہی دے دیا کرتے تھے، ٹرانسسٹر سے لے کر ٹی وی تک اور فریج سے لےکر استری تک جاپان کی بنی ہوئی کوئی بھی چیز شاذو نادر ہی خراب ہوا کرتی تھی۔ غالبا ً اب جاپان نے چھوٹی موٹی چیزیں بنانا بند کر دی ہیں یا شاید یہ ہم تک نہیں پہنچتیں مگر جاپانیوں کے اعلیٰ معیار کا اصول اب بھی ویسا ہی ہے۔ پڑھے لکھے لوگ جاپان کی اس ترقی کا راز یہ بتاتے ہیں کہ جاپانی انتھک محنت کرتے ہیں، کام، کام اور بس کام کے اصول پر کاربند رہتے ہیں، کام میں کوتاہی کی نشاندہی ہو جائے تو خود کشی کر لیتے ہیں جو ان کی روایت کا حصہ ہے، ارب پتی بھی ہو جائیں تو کمپنی ملازمین کی طرح فیکٹری کی کینٹین میں قطار میں لگ کر کھانے کا انتظار کرتے ہیں، شاندار گاڑی کے مالک ہونے کے باوجود عام آدمی کی طرح ٹرین میں سفر کرتے ہیں، انتہا درجے کے خوش اخلاق ہیں، کسی کو موت کا پروانہ بھی جاری کرنا ہو تو یوں کرتے ہیں جیسے شادی کی مبارکباد دے رہے ہوں، کام کے اوقات میں ذاتی فون کال کرنے کو گناہ کبیرہ سمجھتے ہیں، پابندی وقت کےلئے جان کی بازی لگا دیتے ہیں وغیرہ وغیرہ۔ دل تو چاہ رہا ہے کہ جاپانیوں کا پاکستانیوں کے’’ورک کلچر‘‘ سے موازنہ کرکے روح کو طراوت بخشی جائے مگر پہلے ایک لطیفہ یاد آگیا۔ بیرون ملک مقیم ایک پاکستانی سے کسی گورے نے پوچھا تم دن میں کتنے گھنٹے کام کرتے ہو؟ اس نے جواب دیا چوبیس گھنٹے۔ ’’وہ کیسے؟‘‘ گوراحیرت سے بولا۔ ’’وہ ایسے کہ صبح آٹھ گھنٹے میں دفتر میں کام کرتا ہوں ، اس کے بعد آٹھ گھنٹے ایک فیکٹری میں لگاتا ہوں اور اس کے بعد آٹھ گھنٹے پاکستانی سفارتخانے میں ڈیوٹی دیتا ہوں۔‘‘ اس پر گورے نے پوچھا کہ پھر تم سوتے کس وقت ہو؟ پاکستانی نے اطمینان سے جواب دیا’’میں نے بتایا نا کہ آٹھ گھنٹے پاکستانی سفارتخانے میں بھی ڈیوٹی کرتا ہوں!‘‘
واپس جاپان چلتے ہیں۔ جاپان کا شمار ان ممالک میں ہوتاہے جہاں طویل ترین دفتری اوقات ہیں، مسلسل کام کرنے کی یہ لگن یقیناً جاپان کی ترقی کےلئے ایندھن کا کام کرتی ہے مگر ترقی کا یہ ایندھن اب انسانی جان مانگ رہا ہے، جاپانی نوجوان’’نااویا‘‘ کی کہانی اسی ترقی کا نوحہ ہے۔ نااویا کو کمپیوٹر کا جنون تھا، کالج سے فراغت کے بعد ملازمت بھی ایک ٹیلی کام کمپنی میں ملی، جاپان کی ٹیلی کام مارکیٹ میں ملازمت کا حصول خالہ جی کا گھر نہیں، یہ بات وہ اچھی طرح جانتا تھا، سو اپنی قابلیت کا سکہ جمانے کےلئے اس نے دن رات کام کیا، کبھی کبھی آخری ٹرین کے نکل جانے کے بعد بھی وہ کام کرتا رہتا اور پھر اسے رات دفتر میں اپنے ڈیسک پر سر رکھ کر سو کے گزارنی پڑتی۔ ایک مرتبہ اپنے باپ کے مرنے پر جب وہ گھر آیا تو اس کی آنکھ لگ گئی، وہ گھنٹوں سوتا رہا، اس نے ماں سے کہا مجھے مت جگانا، سخت نیند آرہی ہے، شاید مہینوں بعد اسے مکمل نیند نصیب ہوئی تھی، مگر آرام کا یہ وقفہ مختصر ثابت ہوا، ’’محنت‘‘ نےبالآخر نااویا کی جان لےلی اور جاپان کی ترقی میں اپنا حصہ ڈال کر وہ ستائیس برس کی عمر میں رخصت ہوگیا۔ کام کی زیادتی کی وجہ سے ہونے والی موت کو جاپانی ’’کاروشی‘‘ کہتے ہیں۔ یہ کوئی نئی بات نہیں، اس قسم کا پہلا کیس1960 میں رپورٹ ہوا تھا مگر اب کچھ عرصے سے ان کیسوں میں نمایاں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔2015 میں کرسمس کے موقع پر ایسی ہی ایک چوبیس سالہ نوجوان لڑکی جان کی بازی ہار گئی ، وہ ایک اشتہاری کمپنی میں کام کرتی تھی، موت کی وجہ یہ معلوم ہوئی کہ ایک ماہ کے دوران اس نے سو گھنٹے اوور ٹائم کیا تھا اور اس دوران اسے پوری نیند نصیب نہیں ہوئی تھی ۔ کمپنی کے صدر نے اس کی موت کے ایک برس بعد استعفیٰ دیا۔ جو لوگ جاپان میں رہتے ہیں، وہ ایک حیرت انگیز بات بتاتے ہیں۔ علی الصبح دفتر پہنچنے کےلئے آپ کو ٹرین پکڑنی ہوتی ہے، اس لئے کم از کم دو گھنٹے کا وقت درکار ہے، مثلاً ٹوکیو جیسے شہر میں یہ حال ہے کہ آپ چاہے جتنی جلدی پہنچ جائیں ہر ٹرین کی بوگی آپ کو یوں بھری ہوئی ملے گی جیسے ڈبیا میں تاش کے پتے۔ ٹوکیو انتظامیہ نے باقاعدہ ا سٹاف مقرر کر رکھا ہے جو لوگوں کو ٹرین میں دھکیل کر ٹرین کے دروازے بند کرکے انہیں بوگیوں میں’’پیک‘‘ کرتا ہے۔ یہ بات ذہن میں رہے کہ جاپان میں تقریباً ہر دوسرا شخص کروڑ پتی ہے اور ہر کسی کے پاس شاندار گاڑی ہے مگر گاڑی کا سفر ٹرین سےبھی زیادہ وقت مانگتا ہے سو مجبوراً لاکھوں کی تنخواہ پانے والے یہ ترقی یافتہ ملک کے امیر کبیر شہری روزانہ مزدوروں کی طرح ٹرین کی بوگیوں میں بند ہو کے دفتر جاتے ہیں، جاپان کی’’ترقی‘‘ میں اپنا حصہ ڈالتے ہیں اور شام کو اسی طرح ٹرینوں میں’’پیک‘‘ ہو کے واپس آجاتے ہیں۔
میرے پاس زیادہ سوجھ بوجھ تو نہیں اور نہ ہی کوئی ایسا آلہ ہے جس کی مدد سے میں زندگی کی باریکیوں کے حیران کن تجزیئے بیان کرکے اپنی دانشوری جھاڑوں اور آپ کو متاثر کرسکوں(ویسے یہ اور بات ہے کہ اپنے ہاں دانشور ہونے کےلئے کسی دانش کی ضرورت نہیں فقط خود کو دانشور کہنا ہی کافی ہے) بہرکیف، ترقی کا یہ ماڈ ل کم از کم میری فہم سے بالا تر ہے جس میں انسان بطور ایندھن استعمال ہوتے ہیں اور ملکی معیشت کے اشارئیے انسانی جسموں کو روندتے ہوئے اوپر کو جاتے ہیں۔ مجھے سمجھ نہیں آتا کہ ایسی’’اعلیٰ‘‘ ملازمت کس کام کی جس میں انسان ایک مشین کے پرزے کی طرح کام کرے، ناکارہ ہونے پر جسے پھینک کر تبدیل کر دیا جائے۔ ایسی دولت کا کیا فائدہ جس سے آپ راحت ہی نہ کشید کر سکیں، اگر زندگی کے شب و روز ٹرین کی بوگیوں میں اذیت ناک سفر کرکے ہی گزارتے ہیں تو پھر کون سا جاپان اور کون سی ترقی! ٹھیک ہے کہ یہ تصویر کا ایک رخ ہے، جاپان کا دوسرا رخ بہت روشن اور دلکش بھی ہے اور وہ جاپانیوں کی اسی انتھک محنت کا ہی ثمر ہے مگر فی الحال میری سوئی ترقی کے اس ماڈل پر ہی اٹکی ہے جس میں انسانی زندگی کی قدر کا تعین روزانہ انجام دئیے گئے کام کی بنیاد پر کیا جاتا ہے۔ ماں نے اپنا جوان بیٹا کھو دیا، جاپان مگر ترقی کر رہا ہے، ممکن ہے ایسا ہی، میری سمجھ تو یہاں کام نہیں کرتی۔
کالم کی دُم:قانون دان شریف الدین پیرزادہ چورانوے برس کی عمر میں انتقال فرما گئے ہیں۔ ہماری روایات کے مطابق مرنے والے کی برائیاں نہیں کی جاتیں مگر ضروری نہیں کہ مرنے والی کی تعریفیں بھی کی جائیں۔ دنیا کی تمام ڈگریاں اور قانون کا علم اگر کسی شخص کو گھول کر پلا دیا جائے تو بھی شاید وہ شریف الدین پیرزادہ کا مقابلہ نہیں کر پائے گا۔ یہ تمام علم مگر انہوں نے پاکستان میں آمریت اور فوجی ڈکٹیٹروں کے اقتدار کو دوام بخشنے میں خرچ کیا۔ غیر ملکی جامعات سے ڈگریاں تو مل جاتی ہیں مگر اعلیٰ کردار نہیں ملتا، کیا ہی اچھا ہوتا اگر شریف الدین پیرزادہ 12اکتوبر کا مارشل لگانے والے ڈکٹیٹر کو یہ مشورہ بھی دے ڈالتے کہ بطور چیف ایگزیکٹو پرویز مشرف جسے چاہیں اعلیٰ کردار کی سند بھی عطا فرما دیں گے اور ان کے اس اقدام کو کسی عدالت میں چیلنج بھی نہیں کیا جا سکے گا، کم از کم اس سے وہ تمام پڑھے لکھے لوگ تو استفادہ کر لیتے جو آمریت کی حمایت میں نڈھال ہوئے رہتے ہیں۔



.