وزیراعظم کا دورئہ سعودی عرب۔ٹرمپ کی داخلی مشکلات

June 14, 2017

خدا کرے وزیراعظم نوازشریف اور جنرل قمر باجوہ اپنے تازہ دورہ سعودی عرب سے اس مشکل اور پیچیدہ صورتحال کا کوئی واضحاور عوامی حل لیکر لوٹیںجو وہ اپنے متفکر پاکستانی عوام کو بھی بتاسکیں۔صدر ڈونلڈٹرمپ کے دورہ کے بعد بعض سعودی فیصلوں اور اقدامات سے جو خطرناک صورتحال پیدا ہوئی ہے اس کا جوابی حل اس لئے بھی پاکستان کیلئے ضروری ہے کہ صدر ٹرمپ کے دورہ اور اس کےبعد خطے میںصورتحال کی تیز تبدیلی نے پورے خطے کے عوام بالخصوص پاکستانی عوام میںعالمی طاقتوں اور اپنے حکمرانوں کے بارے میں ’’خفیہ سودے بازیوں‘‘ سیکرٹ پلان اور عقائد کی بنیاد پر مسلمانوںکی تقسیم اور تصادم کے خطرات کی بناءپر عوامی اعتماد کو نقصان پہنچایا لہٰذا جو بھی کچھ طے پائے اسے پاکستانی عوام کے سامنے لانا بڑا ضروری ہے۔ ورنہ بھارت، سعودی عرب اور امریکہ کے مابین تعلقات اور تعاون کی موجودہ کیفیت ایسی ہے کہ پاک۔سعودی مذاکرات کے حقائق اسلام آباد کی بجائے نئی دلی اور واشنگٹن کے راستے ہی دنیا کے سامنے آجائیںگے اور پھر اس میں بھارت یا امریکی مفادات اور ٹوئسٹبھی شامل رہے گا۔ خطے میں پہلے ہی اربوںڈالرز کے غیرملکی اسلحہ جنگی طیاروں اور جنگی ٹیکنالوجی کے انبار لگے ہوئے ہیں۔ امریکی سینٹرل کمان کے تربیت یافتہ امریکی فوج بھی خطے میں موجود ہے بلکہ عراق، شام وغیرہ میں آپریشن بھی جاری ہیں۔جس پیمانے پر امریکی اسلحہ کی فوری خریداری کا آرڈر دیا گیا، آخر یہ تمام ہتھیار اور فوجی تیاریاںکسی نمائش یا جشن کیلئے نہیںبلکہ اس کا استعمال ایک منطقی ضرورت ہے۔خطے کی صورتحال خطرات کی جانب بڑھ رہی ہے۔ خصوصاً ایران، افغانستان اور بھارت سے سرحدیںمشترک ہیں تو آجکل ان تینوں کے ساتھ ہمارے تعلقات بھی کشیدہ ہیں۔ بھارت کے ساتھ کشمیر کی کنٹرول لائن کے آرپار تو چھوٹی موٹی غیراعلانیہ پاک۔بھارت جنگ بھی ایک عرصہ سے جاری ہے۔ 800 ارب ڈالرزکے اخراجات دو ہزار سے زائد امریکی فوجی اموات اور ہزاروں زخمی و معذور امریکی فوجی 10 سال افغانستان میںجنگ اور قیام کے باوجود افغانستان میں امن قائم نہیں کرسکے۔ امریکہ کو اس قدر طویل جنگ کے بعد بھی اپنی ناکامی کا بڑا قلق ہے لہٰذا ڈونلڈٹرمپ جیسا منفرد امریکی صدر اور کمانڈر انچیف افغانستان میں مزید امریکی افواج بھی بھیج سکتا ہے۔کسی کو اب اس خوش فہمی میںنہیںرہنا چاہئے کہ افغانستان میں اگر امریکی افواج میں اضافہ کیا گیا تو یہ اقدام پاکستان کیلئے مفید ثابت ہوگا کیونکہ امریکی افواج افغانستان میں ہی دہشت گردی کیخلاف مصروف رہیں گی اور دہشت گردوںسے پاکستانی سرحدوںسے باہر ہی افغان سرزمین پر مصروف بھی رہیںگی اور پاکستان کے تعاون کی طلبگار ہوںگی۔ اس بار افغانستان میںآنے والی امریکی افواج نئی حکمت عملی، نئے ایجنڈا اور مختلف مقاصد کے ساتھ آئیںگی۔خطے میں اب ماضی کے مقابلے میںکئی نئے ’’اسٹیک ہولڈرز‘‘ بھی آچکے ہیں۔ نیز امریکی صدر ٹرمپ کے بارے میں کسی اقدام، حکمت عملی اور فیصلے کا وقت متعین نہیںکیا جاسکتا۔ وہ غیرمتوقع فیصلے اور اقدام کسی بھی وقت کرسکتے ہیں۔ وہ بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے امریکی فوج کے حمایت یافتہ کردوں سے ’’وہائٹ فاسفورس‘‘ کے کیمیکل ہتھیاروں کو عراق اور شام کے سویلین آبادی والے علاقوں میںاستعمال کراچکے ہیں، اس بارے میں ’’واشنگٹن پوسٹ‘‘ بھی رپورٹکرچکا ہے۔ اسی طرح اگر کسی کو یہ توقع ہے کہ امریکہ کی داخلی سیاست اور بحرانوں میں گھرے ہوئے ڈونلڈ ٹرمپ اپنے اسی دبائو میںدھنس کر رہ جائیںگے اور بیرونی دنیا پر توجہ نہیںدے سکیں گےتو یہ بھی درست تجزیہ یوںنہیں کہ وہ داخلی سیاست اور بحران کا رخموڑنے اور امریکی قوم کو بیرونی خطرات کے نام پر متحد کرنے کیلئے کسی بیرونی محاذپر علاقائی جنگ بھی چھیڑسکتے ہیں۔ اس وقت بھی ڈونلڈ ٹرمپ اور ان کی حکومت روس سے رابطوں کے اسکینڈل کی تحقیقات کے علاوہ کئی اسکینڈلوں میں مزید الجھی ہوئی ہے۔غیرملکی شخصیات اور حکومتوں سے کاروبار، اپنے ہوٹلوںکیلئے بزنس کا حصول امریکی قانون کے تحت صدرمملکت کیلئے ممنوع ہے مگر ٹرمپ کے مخالفین ثبوتوںکے ساتھ مقدمہ دائرکررہے ہیں کہ صدر ٹرمپ اس قانون کی خلاف ورزی اور مفادات کے ٹکرائو کے قانون کی خلاف ورزی کررہے ہیں۔ اب تو ریاست میری لینڈ اور واشنگٹن ڈی سی کی حکومتوںنے بھی صدر ٹرمپ کے خلاف آئین کی خلاف ورزی کا مقدمہ عدالت میں داخل کردیا ہے اور یہ مقدمہ خاصا سنجیدہ معاملہ ہوتا نظر آتا ہے۔ایف بی آئی کے ڈائریکٹر جیمز کومی کو بھی اچانک فائر کرچکے ہیں اور اس بارے میں ایف بی آئی کے ڈائریکٹر بھی سینیٹ کی انٹیلی جنس کمیٹی کے سامنے بہت سے انکشافات کرکے صدر ٹرمپ کو مشتعل کرچکے ہیں۔تازہ شنید یہ بھی ہے کہ وہ روس سے رابطوںکے اسکینڈل کی تحقیقات کیلئے خصوصی اختیارات کے حامل آزاد و خودمختار اسپیشل پراسیکیوٹر کی تقرری پر بھی ناراض ہیں اور اس اسپیشل پراسیکیوٹر کو بھی ’’فائر‘‘ کرنے کے بارے میںسوچ رہے ہیں۔ اگر ایسا ہوا تو ٹرمپ کا یہ تاریخی اقدام ایک تاریخی ہنگامہ کھڑا کردے گا کیونکہ صدر نکسن کے واٹر گیٹ، بل کلنٹن کے مونیکا لیونسکی اور اس سے قبل چند مزید اہم امور پر محکمہ انصاف کی جانب سے مقرر کئے جانے والے اسپیشل پراسیکیوٹرز کو کسی بھی صدر نے ’’فائر‘‘ نہیں کیا۔ ٹرمپ یونیورسٹی کا اسکینڈل بھاری جرمانے اور رقم کی واپسی کے بعد ختم سمجھئے لیکن ٹرمپ فائونڈیشن اور اب بیٹے ایرک ٹرمپ کی نان پرافٹتنظیم کے بارے میں نیویارک اسٹیٹکے اٹارنی جنرل نے بعضبے قاعدگیوں کی تحقیقات کا کام بھی شروع کررکھا ہے۔ ان کے اٹارنی جنرل جیف سیشن بھی الزامات کے نرغے میں ہیں اور صدر ٹرمپ سے بھی وہ ناراض اور اپنے عہدے سے استعفیٰ دینے پر مائل نظر آتے ہیں۔ ری پبلکن پارٹی اور ڈیموکریٹک پارٹی کے درمیان ’’جنگ‘‘ کی تیاریاںہورہی ہیں۔مگر صدر ٹرمپ ابھی تک اپنے منہ زور ٹوئیٹرز کے ساتھ ڈٹے ہوئے ہیں۔ اس تمام تر غیرمتوقع صورتحال اور غیرروایتی صدر ٹرمپ کی اپنی پیدا کردہ مشکلات کے باوجود امریکہ کا عدالتی، عسکری، عالمی جاسوسی (سی آئی اے) اور ایگزیکٹو نظام بدستور موثر انداز میں کام کررہے ہیں۔ امریکہ کی دو اپیل کورٹس نےایک بار پھر صدر ٹرمپ کے مسلمان ملکوں سے امریکہ کیلئے ٹریول پر بین کے قانون پر عمل کو روک دیا ہے جو ٹرمپ کے صدر ہونے کے باوجود عدالتی آرڈر کے تحت حکم امتناع یعنی ناقابل عمل ہے۔ صدر ٹرمپ کی داخلی محاذپر مشکلات، بحران اور ناکامیاں بیان کرنے کا مقصدصرف یہ واضحکرنا ہے کہ عالمی طاقت امریکہ کی فوج اور سی آئی اے مشرق وسطیٰ، افغانستان سمیت دنیا بھر میںامریکی مفادات کی حفاظت کیلئے مصروف ہے اور داخلی حالات کی اونچ نیچ کی پروا کئے بغیر اپنے مشن میں مصروف رہتی ہے۔ سی آئی اے تو قانونی طور پر صرف بیرونی دنیا میںکام کرنے کی پابند ہے۔دنیا کے حکمرانوں اور ملکوں کی جاسوسی کرنا، انہیں اپنا ایجنٹیا ہمدرد بنانا اور حکومتی اور معاشرتی اداروں میں اپنی رسائی پیدا کرنا سی آئی اےکا کام ہے تو امریکی فوج کی مختلف کمان اپنے ڈیوٹی کے علاقوں میںمصروف کار ہیں۔ مشرق وسطیٰ میں جغرافیہ، تاریخ اور بہت کچھ تبدیل کرنے کیلئے امریکی فوج نے اپنی تمام تیاریاں مکمل کرلی ہیں۔ سی آئی اے بھی خاموشی سے سرگرم ہے۔ جنگ کے خطرات ابھر آئےہیں۔ روس اور چین بھی آگاہ اور تیار ہیں۔ غیرعرب ملک ترکی اور پاکستان بھی ان خطرات کے اثرات کی لپیٹمیںہیں۔ بھارت افغان کمزوریوںکا فائدہ اٹھاکر پاکستان سے ازلی دشمنی کا فائدہ اٹھاکر اپنے توسیعی عزائم پورے کرنا چاہتا ہے اور ایشیائی سپرطاقت کا درجہ چاہتا ہے۔ مسلم ممالک کا خطہ پہلے ہی سے دہشت گردی اور تصادم کے ہاتھوںتباہی کا شکار ہے اور اسرائیل اب مسلمانوںکے بائیکاٹ اور فلسطینیوںسے تصادم کے مرحلے سے باہر نکل کر تباہ شدہ شام و عراق کو اپنے زیراثر لینے کیلئے تیار ہے۔ سعودی عرب، یو اے ای اور دیگر عرب ممالک بھی مصر کی طرح اسرائیل کی حقیقت تسلیم کرچکے اور رسمی و سفارتی قبولیت کے قریب ہیں۔ او آئی سی کو تو عملاً تحلیل ہی سمجھئے۔ امت مسلمہ کی وحدت کا عملی نمونہ بھی آپ کے سامنے آچکا اپنے مفاد کے سوا کسی کو کسی سے غرض نہیں۔ان حالات میں وزیراعظم نوازشریف دورہ سعودی عرب پر گئے۔ رہی بات پاکستان کے مصالحانہ رول ادا کرنے کی تو عرض ہے کہ جس ملک پاکستان کے لیڈر اور اشرافیہ اپنی تمام دولت خلیجی ملکوںمیںجمع رکھ کر رہائش خرید کر اقتدار سے محرومی کے دنوں ان ممالک میں پناہ گزین ہوکر زندگی گزاریں اور ان کی حکومتوں کے رحم و کرم پر ہوںتو پھر ان مالدارممالک اور ان کے حکمرانوں کے درمیان مصالحت کرانے کی ہمت و صلاحیت کہاں رہتی ہے۔