مشرق وسطیٰ میں امریکی کردار ؟

June 17, 2017

چند روز قبل ہی سعودی عرب کو 110ارب ڈالر کے ہتھیار فروخت کرنے کے کئی معاہدوں کے بعد امریکہ نے قطر کیساتھ بھی 12ارب ڈالر مالیت کے جنگی طیارے فروخت کرنے کا جو معاہدہ کیا ہے اسے بعض حلقے خلیجی بحران کے پس منظر میں حیرت سے دیکھ رہے ہیں۔ پچھلے مہینے امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنا عہدہ سنبھالنے کے بعد غیر ملکی دورہ شروع کیا تو ان کا پہلا پڑائو سعودی عرب تھا جہاں انہو ں نے امریکہ عرب اسلامی سربراہ کانفرنس میں 50سے زائد سربراہان ریاست و مملکت سے خطاب کیا۔مگران کے واشنگٹن واپس پہنچتے تک کئی ریاستیں دہشت گردوں کی اعانت کا الزام لگاتے ہوئے دوحہ سے اپنے سفارتی تعلقات منقطع کرچکی تھیں۔ صدر ٹرمپ نےایک طرف اس سفارتی بائیکاٹ کا کریڈٹ لیا تو دوسری طرف فریقین کے درمیان مصالحتی کردار ادا کرنے کی پیشکش بھی کر ڈالی۔ اب واشنگٹن اور دوحہ کے درمیان ہتھیاروں کی خرید و فروخت کا نیا معاہدہ ہوچکا ہے اور امریکہ نے طویل فاصلے تک مار کرنے والے میزائل شام میں منتقل کردیئے ہیں تو اسے بھی داعش کے خلاف جاری جنگ کا حصہ کہا جائے گا۔ القاعدہ اور طالبان کی طرح داعش بھی بہت سے ملکوں میں ایسے حالات پیدا کرنے کی ذمہ دار ہے جن میں دفاعی ہتھیاروں کی مانگ بڑھ رہی ہے۔ سوویت یونین کے ٹوٹنے کے وقت نیٹو کے سیکرٹری جنرل کے پالیسی بیان میں اسلام اور مسلمانوں کو دشمن قرار دینے اور صدر جارج ڈبلیو بش کی تقریر میں ’’زبان پھسلنے کے باعث‘‘ کروسیڈ کا لفظ استعمال ہونے سے لے کر صدر ٹرمپ کے ریڈیکل اسلامی انتہا پسندی سے نمٹنے کے اعلانات تک افغانستان عراق، مشرق وسطیٰ اور خلیجی ممالک میں جو کچھ ہوچکا ہے وہ کرہ ارض کے امن اور امریکہ کے سپر پاور کے کردار پر سوالیہ نشان ہے۔ مسلم ملکوں کو خود بھی اپنی طاقت مجتمع کرنے پر توجہ دینا چاہئے اور واشنگٹن کو بھی یہ ادراک ہونا چاہئے کہ ان ریاستوں کا انتشار یا عدم استحکام مہاجرین کے سیلاب سمیت کیسے کیسے مسائل کو جنم دے سکتا ہے۔

.