کٹھ پتلیوں کا کھیل ختم نہیں ہوگا؟

June 20, 2017

مدت ہوئی، مداریوں کے ہاتھ سجائے کھیل کٹھ پتلی تماشہ دیکھے ہوئے، شاید شہر اقتدار میں کئی ’’مداریوں‘‘ اور اس کے ’’کرداروں‘‘ نے اپنے اپنے اسٹیج سجا کر حقیقی پتلی تماشہ کا گویا شوق ہی ختم کر ڈالا ہے، منظر وہی ہے، دورافتادہ علاقے، کسی گاؤں اور کبھی کبھار شہر میں ایک شخص کندھے پر ’’پوٹلی‘‘ اٹھائے ڈگڈی بجاتے ہوئے کسی مصروف جگہ کے کونے پر آوازے کستا دکھائی دیتا تھا، اسٹیج سجے، مجمع لگے نہ لگے، ڈگڈگی کی آواز گزرنے والوں کو اپنی طرف کھینچتی رہتی، پھر پردہ لٹکتا، ’’پوٹلی‘‘ سے ’’کردار‘‘ نکلتے اور کہانی کی ڈوری سے بندھی بے جان ’’پتلیوں‘‘ کا ’’تماشہ‘‘ شروع ہو جاتا، یوں مجمع کی ’’انٹرٹینمنٹ‘‘ اور ’’مداری‘‘ کا روزگار چلتا رہتا، خدا کا شکر کہ اہل سیاست و ریاست نے اس شو اور اس کے کردار کو بدستور زندہ رکھا ہوا ہے، جو ہر وقت انگلیوں کے اشاروں کیلئے منتظر ومضطرب رہتے ہیں، وسائل اپنے ہوتے ہیں نہ حقیقی سوچ، حتی کہ اپنے خیالات و حالات بھی دوسروں کے مرہون منت ہوتے ہیں، یوں کارزار سیاست و ریاست کا چلن چلتا رہتا ہے اور عوام بےجان و بے امان کٹھ پتلیوں کا تماشہ روز دیکھتے رہتے ہیں۔
خود کو احتساب کیلئے پیش کرنے کی ’’تاریخ رقم‘‘ کرنیوالے دعویدار وزیراعظم کہتے ہیں ’’وہ زمانے گئے کہ سب کچھ پردوں کے پیچھے چھپا رہتا تھا، اب کٹھ پتلیوں کے کھیل نہیں کھیلے جاسکتے۔‘‘ قبل ازیں انہوں نے ایسے ہی جذبات کا اظہار دو سال پہلے دھرنے ’’اٹھ‘‘ جانے کے بعد میٹروبس کے افتتاح کے موقع پر کیا تھا اور وہ دعویٰ تھا کہ اب ڈگڈی بجانے والا کا کھیل نہیں چلے گا؟؟ بات کیا ہے اور مخاطب کون، یہ کوئی نئی یا ڈھکی چھپی بات نہیں، ہاں تلخ حقیقت ضرور ہے کہ ’’سویلین مارشل لا ایڈمنسٹریٹر‘‘ بھٹو اور ڈکٹیٹر مشرف کے ’’مظالم‘‘ کا ذکر کرتے ہوئے عوام پر ظلم کرنے والے ڈکٹیٹر ضیا کی نوازشات کا ذکر ہمیشہ بھول جانا میاں صاحب کا مزاج ہے لیکن انسان سیاستدان بن جائے تو وقت کے ساتھ ’’جمہوری‘‘ ہو ہی جاتا ہے، میاں صاحب بھی ڈکٹیٹر کی سیاسی کیاری میں پل کر جواں ہوئے تو سخت جمہوری ہوگئے اور ایسے کہ شاہراہ جمہوریت پر ’’ڈیموکریٹک ڈریگ ریس‘‘ میں دوران اقتدار دو مرتبہ کچلے گئے اور تیسری مرتبہ بھرپور کوششوں اور روایتی تیزرفتاری کے باعث کئی مرتبہ ’’حادثے‘‘ کا شکار ہوتے ہوتے بچے ہیں لیکن ’’ٹکرانے‘‘ کی خواہش بدرجہ اتم موجود ہے۔
بعض رازداں دعویٰ کرتے ہیں کہ آپ کی مکمل جمہوری نظام کی شدید خواہش اور اقدامات نے ہی ’’مشکلات و خطرات‘‘ کو دعوت دی۔ ان میں اقتدار میں آتے ہی پارلیمنٹ سے ایک قرارداد کے ذریعے دفاعی بجٹ ایوان میں لانے اور آرمی چیف کے اختیارات کو ’’متوازن‘‘ کرنے کی مہم جوئی، پاکستان کا خون کرنے والوں کو’’مذاکرات‘‘ سےراہ راست پر لانے کی سعی لاحاصل۔ بڑھتی بھارتی جارحیت کے جواب میں دشمن ہمسائے سے’’غیرمشروط دوستی‘‘ کی ناکام خواہش، مسلم دشمن مودی کو خفیہ ملاقاتوں سے ’’رام‘‘ کرنے کا عزم ناکام، ’’قلم کمان‘‘ پر حملے کے بعد ’’غلیل‘‘ کی بجائے ’’دلیل‘‘ کے ساتھ کھڑے ہونے کی جرات اظہار، نئی افغان قیادت سے گٹھ جوڑ کر کے ’’اسٹرٹیجک ڈیپتھ‘‘ کی قبر کھودنے کی کوشش، سنگین غداری کیس کے ’’طاقتور‘‘ ملزم کو کٹہرے میں کھڑا کرنے کی نامراد سازش اور سب سے بڑھ کر اندرونی سلامتی میں ’’مطلوبہ‘‘ حصہ نہ ڈالنے کی کوتاہیاں شامل ہیں اور یہی سنگین الزامات آپ کے خلاف ایف آئی آر بھی ہیں؟ لیکن ایک معصوم پاکستانی کا سوال ہے کہ اگر اسلامی جمہوریہ پاکستان میں یہ سب ’’سخت گناہ‘‘ اور ’’بدترین جرائم‘‘ ہی تصور کر لیے جائیں تو 20کروڑ عوام کے مینڈیٹ کو کیا سمجھا جائے؟ عوام نے آپ اور منتخب پارلیمنٹ کو آزادانہ اور قومی مفاد میں فیصلوں کا جو اختیار دیا ہے اس کو کیا نام دیا جائے؟ آپ پرعوامی اعتماد اس بات کا غماز نہیں کہ دفاعی، خارجی، اندرونی وبیرونی سیکورٹی اور معاشی محاذوں کے معاملات میں’’غیرمقبول‘‘ فیصلہ کرسکیں؟ کیا عوام نے ووٹ اس لئے نہیں دئیے کہ آپ آئین اور قانون کی بالادستی کے لئے غیر مفاہمانہ اور غیرمتزلزل اقدامات اٹھائیں؟ کیا ’’اسٹرٹیجک جینئس‘‘ 20 کروڑ عوام سے زیادہ ذہین ہیں؟ کیا وہ قاعدے، قانون اور سیاسی و جمہوری سمجھ بوجھ میں کہیں زیادہ مشاق ومشتاق ہیں؟ سب سے بڑھ کر کیا وہ20 کروڑ عوام کو بے وقوف سمجھتے ہیں؟ کیا ملک وقوم کی تقدیر کو سنوارنا صرف انہی کی سمجھداری اور ذمہ داری ہے؟
لیکن جناب وزیراعظم، سب تلخ حقیقتوں کے باوجود ووٹ دینے والے توقعات وخواہش تو دور کی بات محض زندہ رہنے کی تگ ودو میں روز مرمر کے نہ جیتے، آپ نے اس مینڈیٹ کو ملحوظ خاطر رکھا ہوتا تو آج لوگ بجلی، پانی، گیس، روزگار اور امن کی تلاش میں سراپا احتجاج نہ ہوتے، ایک وقت کے کھانے کی تگ و دو میں خودکشیاں کرنے پر مجبور نہ ہوتے، سرحدوں اور ملک میں خانہ جنگی کی صورت حال پیدا ہونے کے خدشات نہ ہوتے، ملکی وغیر ملکی بھاری قرضوں کی بجائے خود انحصاری کا پہیہ چلاتے تو صنعت و زراعت سمیت تمام ملکی ادارے اپنی بقا کے لئے چیخ وپکار نہ کررہے ہوتے، ٹھوس اور عوام دوست فیصلے لئے ہوتے تو عوام محفوظ و مطمئن ہوتے، آپ کو پیشیوں پر چند وزراء اور درجن بھر کارکنوں کی بجائے عوام کا ٹھاٹھیں مارتا سمندر نظر آتا، یہ معصوم پاکستانی والہانہ انداز میں آپ کو کندھوں پر اٹھائے پھرتے، پھولوں کے ہار پہناتے اور آپ کو عوام کے رستے بند کرنے کی ضرورت بھی نہ پڑتی۔ یہ بھی سچ ہےکہ ڈکٹیٹرشپ ہو یا جمہوریت اس ملک میں حقیقی احتساب کبھی نہیں ہوا نہ ہم اس کےعادی ہیں ہاں اگرپہلی مرتبہ احتساب کا عمل بطور وزیراعظم آپ سے شروع ہو رہا ہے تو یہ بھی نظام کی مضبوطی کی طرف پہلا قدم ہے اور یہ ’’تجربہ‘‘ کامیاب رہا تو وقت دور نہیں کہ اس ملک میں ججوں، جرنیلوں، جرنلسٹ اور بیوروکرٹیس سمیت پوری اشرافیہ بھی احتساب کی باریک چھلنی سے گزرے گی۔ جمہوری اداروں کی مضبوطی اور جوابدہی کے نظام کو مضبوط بنانے کی جدوجہد کا دعویٰ اور خواہش اپنی جگہ لیکن جناب وزیراعظم وقت آگیا ہے کہ پہلے اپنا گھر صاف کیا جائے اور اپنے اندر جاری کٹھ پتلی کے تماشے کا اختتام کیا جائے، بلاشبہ ہر سطح پر کٹھ پتلی تماشے ضرور بند ہونے چاہئیں لیکن بدعنوانی اور کرپشن کے دروازے بھی ہمیشہ کے لئے بند ہونے چاہئیں، راتوں رات، امیر کبیر، شہزادے بننے کی روایات اور کہانیاں بھی ختم ہونی چاہئیں، اگر کوئی اربوں کھربوں کامال بنانے کا جواز پیش نہیں کرسکتا تو اسے قومی جذبے اور عوام کی محبت میں عوام پر نچھاور کا اعلان کرے یا اس غریب ملک کو خیرات ہی کردے، جب تک منصب پر بیٹھی مقتدر قوتوں کے مقاصد وعزائم وطن عزیز کے ساتھ حقیقی تعلق میں نہیں بدلتے، ملکی نظام درپردہ کی بجائے عوام کے حقیقی منتخب نمائندوں اور تمام اداروں کے ایک صفحے پر ہو کر نہیں چلایا جاتا، جب تک بیرونی ایجنڈے کو مسترد اور عوامی ایجنڈے کو ترجیح نہیں بنایا جاتا یہ کٹھ پتلی تماشہ جاری رہیگا۔

.