مودی کا واشنگٹن ایجنڈا اور پاکستان کی جیت

June 21, 2017

یوں تو امریکہ میں پاکستانی کمیونٹی اپنےحقوق اور اپنی بقاکی جدوجہد خود ہی کررہی ہے گوکہ پاکستان سے امریکہ آنے والا ہر حکمراں، وزیر اور اپوزیشن لیڈر ان پاکستانیوں کو ’’قابل فخر‘‘ اہم اثاثہ اور پاکستان کے ’’اصل سفیر‘‘ کے خطابات کی زبانی طور پر بارش کرکے خوش کردیتا ہے لیکن عملی طور پر پاکستان پہنچتے ہی سب کچھ بھلادیا جاتا ہے۔ بلکہ اجنبیوںجیسا سلوک کیا جاتا ہے۔ انہیںصرف ’’فارن ایکسچینج‘‘ فراہم کرنےکی اے ٹی ایم سمجھ کر حکومت اور کرائم مافیا دونوں ہی ’’اکھاڑنے‘‘ کے چکر میں رہتے ہیں اور یہ سلوک ایئرپورٹ سے اترنے سے لیکر واپسی کیلئے ائیرپورٹ آنے تک جاری رہتا ہے۔ مگر امریکہ کینیڈا برطانیہ اور دیگر ملکوںمیںآباد یہ پاکستانی بھی عجیب مخلوق ہیں۔ ان کی اولادیںپیدائشی امریکن کینیڈین اور برٹش شہری ہیں اور خود بھی روزگار، جائیدادیں اور زندگی کے تمام معمولات و ضروریات انہی ملکوں میں پوری کرتے ہیںلیکن ابھی تک خود ان پاکستانیوں اور ان کی اولاد کے دل آج بھی پاکستان کے ساتھ دھڑکتے ہیں۔ امریکی کانگریس کے اراکین، امریکی انتظامیہ سے پاکستان کی حمایت اور پاک۔امریکہ تعلقات کی بہتری کیلئے مسلسل رضاکارانہ خدمت کیلئے سب کچھ چھوڑکر وقت نکالنا امریکہ کے پاکستانیوںکا طرہ امتیاز ہے۔ پاکستان کی کرکٹٹیم نے ایک بڑے عرصہ کے بعد منظم ہوکر بھارتی ٹیم کو مثالی شکست دیکر ورلڈچیمپئن شپ تاریخی انداز میں جیت لی تو رات بھر جاگ کر تراویحاور عبادت اور پھر سحری سے لیکر دوپہر تک ٹی وی پر میچ سے جکڑے ہوئے یہ پاکستانی ٹیم کی جیت کی خوشیاںمنانے باہر نکل آئے۔ امریکہ اور برطانیہ میں وقت کا فرق اور امریکہ بھر میں’’فادرز ڈے‘‘ کی چہل پہل کے ہجوم میںگھرے ہوئے ان پاکستانیوں نے تھکاوٹ کے باوجود نیویارک اور نیوجرسی کے علاقوں میںپاکستانی ٹیم کی کامیابی پر ’’وکٹری ریلی‘‘ نکال ڈالی۔ سینکڑوںخاندان پاکستانی جھنڈوںکے ساتھ نکل کر اپنے بچوںسمیت جمع ہوگئے۔ ڈاکٹرز، پروفیسرز، بزنس مین، ٹیکسی ڈرائیور یعنی ہر طبقہ کا پاکستانی یکساں جذبے کے ساتھ خوش ہوکر نعرے لگاتا اس پاکستانی کار ریلی میں شریک تھا۔نیو جرسی میں یہ ریلی سب سے بڑی ریلی تھی۔ امریکہ بھر کے دیگر علاقوں اور شہروں میں بھی اسی انداز سے خوشیاں پاکستانیوں نے منائیں، ان کو اس سے غرض نہیںکہ پاکستان کے حکمراں اور پالیسی ساز ان کے ساتھ کیا سلوک کرتے ہیں؟بلکہ ’’وکٹری ریلی‘‘میں شریک ایک معمر خاتون تین نسلوںیعنی بیٹے اور ان کی اولاد سمیت یہ دعا کرتی دیکھی گئیںکہ ’’اے اللہ اس کرکٹٹیم کی طرحہمیںسیاستدانوں کی بھی ایسی ٹیم عطا کر جو ہمارے پاکستان کو کرسی کی ذاتی سیاست سے نکال کر قوم کو اتحاد اور خوشحالی کی طرف لے جائے۔ سفارتکاروں کی بھی ایک ٹیم دے جو پاکستان کا عالمی وقار بلند کرسکیں اور ایسے بیوروکریٹس کی بھی ایک ٹیم جو ملک میںقانون اور اصول کی برتری اور یکساںسلوک کا ماحول پیدا کرسکیں‘‘۔پاکستانی کمیونٹی ڈونلڈ ٹرمپ کی صدارت کے دور میں اپنے حقوق وسائل کیلئے بھی خود اپنی جدوجہد کررہے ہیں بلکہ ہمارے متعدد حکمرانوں کے غلط فیصلوں اور اقدامات سے پاک۔امریکہ تعلقات میں رنجشوں کا کفارہ بھی یہ بیچارے پاکستانی مختلف صورتوں میں ادا کرتے چلے آرہے ہیں۔ مگر پاکستان سے لگائو میں فرق نہیںآنے دیتے۔ امریکہ کے پاکستانیوںکو اسی ہفتے بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کے دو روزہ دورہ امریکہ سے پیدا شدہ چیلنج کا یوںسامنا ہے کہ کشمیری برادری کی قیادت مودی کی آمد پر مقبوضہ کشمیر میں بھارتی مظالم پر وہائٹہائوس کےسامنے احتجاج کرنے کا پروگرام رکھتی ہے لیکن بھارتی میڈیا کی تنقید سے بے نیاز نریندر مودی امریکی میڈیا سے الفاظکی جنگ میںمصروف صدر ڈونلڈٹرمپ کی دعوت پر 25جون کو یعنی عین عیدالفطر کے روز امریکہ پہنچیںگے اور پیر 26جون کو وہائٹ ہائوس میںصدر ٹرمپ سے ملاقات کریں گے۔ امریکہ کے پاکستانی عیدالفطر کی خوشیوںمیںمصروف ہوں گے۔ چیلنج یہ ہے کہ کتنے پاکستانی اور کشمیری 26 جون بھارت کے نریندر مودی کے خلاف مقبوضہ کشمیر کے انسانوںپر لرزہ خیز مظالم پر احتجاج کیلئے وقت نکالتے ہیں؟
نریندر مودی ایک بڑے ایجنڈے کے ساتھ واشنگٹن آرہے ہیںجبکہ صدر ٹرمپ خود تحقیقات، سخت تنقید اوربرصغیر کیلئے کنفیوژن کا شکار ہیں اور ابھی تک کوئی واضحپالیسی نہیںرکھتے۔ وہ ماحولیات کی تبدیلی کے پیرس ایگریمنٹسے امریکہ کو نکالنے کا اعلان کرتے ہوئےبھارت پر یہ چوٹبھی کرچکے ہیں کہ بھارت اس معاہدے میں اس لئے موجود ہے کہ دوسرے ملکوںسے اربوںڈالرز کی غیرملکی امداد حاصل کرسکے۔ سابق صدر اوباما نے تو بھارت کو چین کے مقابلے میں کھڑا کرنے کی دلیل پر بھارت کو اپنا ترجیحی پارٹنر بناکر تمام مراعات اور نوازشات لٹادی تھیںمگر صدر ٹرمپ نے اوباما کی اس پالیسی کو جاری رکھنے کی بجائے چین کے ساتھ براہ راست تعلقات کو فروغدینے کی راہ اپنالی ہے جس پر بھارت پریشان ہے۔ ڈونلڈٹرمپ نے سعودی عرب کا دورہ کرکے اور قطر سعودی تنازع کھڑا کرکے مغربی ایشیا کو ایک نئے بحران میں تو دھکیل دیا ہے لیکن مغربی ایشیا اور جنوبی ایشیاکے بارے میں ابھی کوئی واضحپالیسی اختیا رنہیں کی۔ افغانستان میں مزید امریکی فوجیوںکو بھیجنے کے فیصلہ پر بھی عمل ابھی اتنا یقینی نہیں ہے۔ واشنگٹن میں فارن پالیسی کی اسٹیبلشمنٹابھی تک پریشان اور کنفیوژڈ ہے۔ اس غیرواضح اور کنفیوژن کے ماحول میں بھارتی وزیراعظم اپنے ایجنڈے کے ساتھ واشنگٹن آرہے ہیں۔ میری معلومات کے مطابق ان کے ایجنڈے کی صورتحال کچھ ہوں ہے۔ (1) صدر جارج بش کے دور میں 2006 میںبھارت۔امریکہ نیوکلیئر ایگریمنٹ ہوا تھا اس پر عملدرآمد کرنے میںحائل رکاوٹوں کو دور کیا جائے۔چین نے نیوکلیئر سپلائرز گروپ میںبھارت کا داخلہ روک رکھا ہے اس مسئلہ کے حل کیلئے متبادل طریقہ اختیار کیا جائے (2) صدر ٹرمپ کے مشیر جنرل لیکماسٹر نئی دہلی کے دورہ کے دوران افغانستان میں داعش کے حوالے سے بھارت کے ساتھ جو گفتگو کرکے آئے تھے اسے امریکہ مزید آگے بڑھائے (3)صدر ٹرمپ نے اپنے ایگزیکٹو آرڈر کے ذریعہ ویزا سسٹم اور امیگریشن کیلئے جو سختیاں نافذکررکھی ہیں اس کی وجہ سے ہر سال کئی ہزار بھارتیوںکو H-1B ویزا جاری کرنے میں دشواریاںحائل ہیں، بھارت کی خواہش ہے کہ اس بارے میں سختیاںدور کرکے صدر اوباما کے دور جیسی نرم پالیسی جاری کریں (4)پاکستان اور چین پائیدار دوستی اور سی پیک پر عمل بھی بھارت کیلئے پریشانی کا باعثبنا ہوا ہے اور وہ اس صورتحال کو بڑھا چڑھاکر امریکہ کو بلیک میل کرکے ایک طرف پاکستان۔امریکہ تعلقات میں رخنہ ڈالنا چاہتا ہے تو دوسری طرف اپنے لئے مزید امریکی مراعات چاہتا ہے (5)دہشت گردی کے خاتمہ کے نام پر وہ پاکستان کے خلاف محاذ کو امریکی تعاون سے گرم کرناچاہتا ہے (6)مقبوضہ کشمیرکی صورتحال سے پریشان نریندر مودی جنوبی ایشیا میںٹرمپ کی غیرواضحپالیسی اور چین سے براہ راست امریکی تعلقات کی استواری سے بھی پریشان ہیں لہٰذا ان کا مقصد پاک چین مضبوط تعلقات اور سی پیک کی عملی تصویر کو امریکی اور بھارتی مفادات کیلئے مشترکہ خطرہ قرار دیکر پاک امریکہ تعلقات میںتلخی پیدا کرنا اور امریکہ بھارت قربتوں کی کوشش کرنا ہے (7)افغانستان میںبھارت امریکی حمایت و تعاون سے افغان حکومت پر اپنا اثر و نفوذمزید گہرا کرناچاہتا ہےتاکہ پاکستان کےخلاف افغان جانب سے بھی خطرات میں شدت اور اضافہ ہوسکے (8)بھارت امریکہ سے تجارت کو مزید فروغدینا چاہتا ہے اور یہ موضوع بھی مودی کے ایجنڈے پر موجود ہے (9)بھارت اس وقت امریکی اسلحہ کا بہت بڑا بلکہ سب سے بڑا خریدار ہے (سعودی معاہدہ کے علاوہ) اور وہ اسرائیل کے ساتھ بھی دفاعی، جاسوسی اور مشرق وسطیٰکے مستقبل کے حوالےسے تعاون میں شریک ہے وہ امریکہ سے بھی تعاون چاہتا ہے۔
گوکہ بھارتی وزیراعظم ٹرمپ سے تین مرتبہ ٹیلیفونک گفتگو کرچکے ہیں لیکن اپنے داخلی بحران اور مشکلات میں الجھے ہوئے صدر ٹرمپ کی بعض ایسی ترجیحات اور اقدامات ہیںجو بھارتی وزیراعظم کے ایجنڈے کی مخالفت میں ہیںمثلاً امریکہ پیرس معاہدہ کا مخالف ہے جبکہ بھارت اس میںشریک ہے ،امیگریشن کے قوانین اور ویزا سسٹم پر نظرثانی کرنے کے احکامات صدر ٹرمپ جاری کرچکے ہیں جبکہ وزیراعظم مودی نرمی چاہتے ہیں،تجارت کے شعبے میں بھارت۔
امریکہ تجارت میں موجودہ توازن بھارت کے حق میںہے جبکہ صدر ٹرمپ تجارت کےشعبے میں امریکہ فرسٹ قرار دیکر امریکی مصنوعات کو فروغ اور دیگر ملکوںسے کم امپورٹکے حق میںہیں ، بھارت نیوکلیئر سپلائرز گروپ میں چینی مخالفت کا نعم البدل امریکہ سے چاہتا ہے مگر صدر ٹرمپ نے اس بارے میں بھی ابھی کوئی پالیسی نہیںبنائی ، افغانستان کے بارے میں بھی ابھی تک صدر ٹرمپ کی پالیسی واضح نہیں ہے۔ ٹرمپ داخلی بحران، روس کی امریکی انتخابات میںمداخلت اور ٹرمپ سے رابطوں کے بحران سے نکلیں گے تو طے کریںگے،امریکہ میں بھارتی تارکین وطن سے بھی ہونے والی زیادتیاں صدر ٹرمپ کی انتخابی مہم کے اعلان شدہ بیانات کا نتیجہ ہیں اور مسلم کمیونٹی بھی بھارتیوںسے زیادہ اس کا شکار ہے۔ لہٰذا صدر ٹرمپ اب اس معاملے میں اپنے حلقہ انتخاب کے ووٹرز کی سوچ کے پابند ہیں۔دو ٹوک الفاظمیں بھارتی وزیراعظم کا دو روزہ دورہ امریکہ عملی نتائج کم اور تصویری خبرنامہ پر زیادہ مرکوز ہوگا۔ مگر خدا لگتی ایک بات یہ بھی ہے کہ امریکہ کا دورہ کرنے والے پاکستانی حکمرانوں کو یہ توفیق کبھی نہیںہوئی کہ وہ اپنے شہریوںکیلئے امریکی ویزا میںمراعات، تعداد اور امریکہ میںآباد پاکستانی تارکین وطن کے مسائل پر وہائٹہائوس میں کبھی کوئی سوال اٹھاسکیں یا امریکی صدر سے مطالبہ کرسکیں مگر نریندر مودی اپنے اس دورہ میںٹرمپ کے موقف سے اختلاف کرتے ہوئے اپنے شہریوں کیلئے ویزا اور امریکہ میںسلو ک کے حوالے سے ایجنڈا لیکر آرہےہیں، خدا پاکستانی حکمرانوں کو بھی ایسی جرات اور توفیق دے۔