سیاسی ڈرائی کلیننگ

June 25, 2017

کراچی (تجزیہ : مظہر عباس) ہماری سیاست کے پاکیزہ نہ ہونے کی محض یہی ایک وجہ نہیں کہ حکمرا ں طبقے کا کبھی مواخذہ ہوا اور نہ انہیں اپنے کرتوتوںکی سزا دی گئی بلکہ احتساب کا نام یا احتساب بیورو ہمیشہ سیاست دانوں کو ’’دھونے‘‘ کے لئے استعمال کیا گیا۔ ’’پہلے احتساب، پھر انتخاب‘‘ کا لگایا گیا نعرہ ہمیں آج بھی یاد ہے۔ اس بار کیا یہ کوئی مختلف ہوگا؟ سیاسی جماعتوں نے بھی اپنی ’’ڈرائی کلیننگ شاپس‘‘ کھول رکھی ہیں۔ جو کوئی بھی شامل ہوتاہووہ دھلا ہوابن جاتا ہے۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ ساتھ چھوڑ جانے پر اس کی پارٹی کو منحرف کی تمام خامیاں، خرابیاں اور برائیاں یاد آجاتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ لوگوں کا سسٹم اور اسکے تحت رہنمائوں پر اعتماد نہیں رہا۔ ایک طرف تو وزیراعظم نواز شریف اور ان کے اہل خانہ کو پاناما کیس میں سپریم کورٹ کے ہاتھوں خلاف معمول تحقیقات کاسامنا ہے تو دوسری جانب پرانے سیاسی چہرے تحریک انصاف میں شمولیت اختیار کرتے جارہے ہیں۔ کیونکہ وہ اسے مستقبل کی پارٹی کی حیثیت سے اسے دیکھتے ہیں۔ مسلم لیگ (ن) اور پیپلزپارٹی کے برخلاف تحریک انصاف نے حال ہی میں ڈرائی کلیننگ کا ایک طریقہ کار طے کیا۔ ماضی میں وفاداریاں تبدیل کرنے والوں کے لئے ’’لوٹے‘‘ کی اصطلاح استعمال ہوتی رہی اب اس کی جگہ لفظ ’’ڈرائی کلین‘‘ نے لے لی ہے۔ جبکہ مسلم لیگ (ن)اور پیپلزپارٹی ایک دوسرے کے لوٹے قبول کرنے کے بڑے عادی رہے۔ توقع تھی تحریک انصاف ان سے مختلف ہوگی کیونکہ عمران خان بڑی توقعات کے ساتھ سیاست میں آئے وہ مسلم لیگ (ن) اور پیپلزپارٹی کے خلاف کرپشن کے حوالے سے ڈٹے رہے یہی وجہ ہے کہ لوگوں کے لئے وہ ’’تھرڈ آپشن‘‘ بن گئے۔ اپنی پارٹی میں شامل ہونےو الوں کے دفاع میں عمران خان کہتے ہیں کہ پارٹی کااعلیٰ رہنما ہی خامیوںا ور خوبیوں کا ذمہ دار ہوتا ہے لہٰذا جو شخص وفاداریاں تبدیل کرنےوالوں سے نفرت کرتاتھا، اب بتدریج انتخاب جیتنے کی صلاحیت رکھنے والوں کے تعاقب میں ہیں۔ سوائے چند کے تحریک انصاف کے دیرینہ رہنما پچھلی صفوں میں چلے گئے ہیں ۔ اب انہیں نواز شریف کی بعد کی سیاست کے نتائج اور آئندہ عام انتخابات میں تحریک انصاف کے امکانات کا انتظار ہے۔ یہ اطلاعات کہ تحریک انصاف کے 19؍ ارکان قومی و صوبائی اسمبلی مسلم لیگ (ن)میں شامل ہوجائیں گے اس سے صاف ظاہر ہوتاہے کہ حکمراں جماعت نے بھی ڈرائی کلیننگ شاپ کھول لی ہے۔ سندھ میں بھی دیگر کئی جماعتوں کے رہنما پیپلزپارٹی میں شامل ہونے لگے ہیں۔ انٹیلی جنس اداروں پر بھی ایم کیو ایم کی ڈرائی کلیننگ کا الزام لگتا رہاہے جس کا مقصد کراچی سمیت سندھ کے شہری علاقوں میں نیا پولیٹکل آرڈر لایا جانا بتایا جاتا ہے۔ ماضی میں اسٹیبلشمنٹ سیاست دانوں کو ڈرائی کلین کیا کرتی تھی حتیٰ کہ سیاسی جماعتیں اور گروپ بھی تشکیل دیئے جاتے رہے۔ مجھے سنجیدگی سے توقع ہے کہ سپریم کورٹ پاناما کیس کے فوری بعد کرپشن کو ادارہ جاتی شکل دینے والے کیس مہر ان بینک یا اصغر خان کیس کا حتمی فیصلہ کردے گی۔اگر سپریم کورٹ اصغر خان کیس میں بھی جے آئی ٹی بناتی ہے توان کو بلائے جنہوں نے سیاست دانوں کو پیسے دیئے اور جنہوں نے قبول کئے تو کم از کم کچھ ’’ڈرائی کلیننگ شاپس‘‘ تو بند کی جاسکتی ہیں۔ ملک کی 70؍ سالہ تاریخ میں ریاست کے چاروں ستونوں کو قابل مواخذہ بنانے کے لئے قانون نہیں بنا سکے۔ ایک پرانے بیورو کریٹ کا کہنا ہےکہ اعلیٰ افسران کو اسلام آباد اور دیگر متمول علاقوںمیں پلاٹس الاٹ کئے جانے کا مقصد ہی انہیں کرپشن سے روکنا تھا لیکن اس کے بجائے وہ مزید کرپٹ ہوگئے۔ ریاست نے خفیہ فنڈز کے ذریعہ بھی کرپشن کو فروغ دیا تاریخ میں پہلی بار سپریم کورٹ نے حامد میر اور ابصار عالم کی پٹیشن پر وزارت اطلاعات کے خفیہ فنڈ کو ختم کیا۔ مجھ سمیت کچھ صحافی بھی اس مقدمے میں فریق رہے۔ پبلک اکائونٹس کمیٹی میں کچھ جری ارکان نے سوال اٹھایا تھاکہ ملٹری اسٹیبلشمنٹ اور عدلیہ سمیت تمام ادارے پارلیمنٹ کو جوابدہ کیوں نہیں بنائے جاتے لیکن اس میں کچھ زیادہ پیش رفت نہیں ہوسکی۔ عدلیہ سے بحیثیت ادارہ بڑی توقعات رہیں۔ تاہم سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کے دور میں اس وقت پیپلزپارٹی کی حکومت نے ان پر احتساب کے نام پر انتقامی کارروائیاں کرنے کا الزام عائد کیا۔ جنرل ضیاء الحق اور جنرل پرویز مشرف نے بدقسمتی سے ملک کے اعلیٰ انٹیلی جنس اداروں کو کرپشن الزامات عائد کرنے کے لئے استعمال کیا تاکہ سیاست دانوں کو دھمکیاں دے کر انہیں ’’شاہ پارٹی‘‘ میں شامل ہونے پر مجبور کیا جاسکے۔ اگر آپ جاننا چاہتے ہوں کہ سیاست دانوں کو کس طرح ڈرائی کلین کیا جاتا رہا تو 1985ء، 1990ءاور 1996ء کے ادوار پر نظر ڈالئے جب جونیجو، بے نظیر بھٹو اور نواز شریف برطرف ہوئے اور ہر حکومت کے خاتمے پر اس کے 50؍ فیصد وزراء اور رہنماء ڈرائی کلین کرکے نئی حکومت میں شامل کئے جاتے رہے۔ پہلے جونیجو مرحوم کے خلاف شریفوں کو، پھر جام صادق علی مرحوم اور بعد ازاں بے نظیر کے خلاف غلام مصطفیٰ جتوئی کو ڈرائی کلین کیا گیا۔ ہم نے درآمد شدہ ڈرائی کلین رہنمائوں کا بھی مشاہدہ کیا۔ پاناما کیس کا فیصلہ آنے میں ابھی بہت کچھ ’’اگر مگر‘‘ موجود ہے جو آئندہ ماہ کے وسط میں فیصلہ کن رخ اختیار کرے گا۔لیکن کیا اس سے بڑے پیمانے پر بلاامتیاز احتساب ہوجائے گا؟ یا سپریم کورٹ فیصلے کے بعد یہ عمل ختم ہوجائےگا۔ اس کا مشاہدہ باقی ہے۔ جہاں تک ڈرائی کلیننگ شاپس کا تعلق ہے جب تک یہ سیاسی جماعتوں یا اندرون اسٹیبلشمنٹ چلتی رہیں گی بلا امتیاز اور بلا تفریق احتساب کا خواب شرمندہ تعبیر نہ ہوسکے گا ۔ جو کرپٹ ہے، اس کی پکڑ اور گرفت ہونی چاہئے نہ کہ اسے پناہ یا سایہ فراہم کیا جائے۔