عوام کو سب بے وقوف بنا رہے ہیں!!

July 06, 2017

اگر پاکستان کی کوئی ایک ایسی سیاسی جماعت ہے جس نے کوئی سبق نہیں سیکھنا تو اُس کا نام پاکستان پیپلز پارٹی ہے۔ کرپشن اور نااہل حکمرانی نے ماضی میں چاروں صوبوں میں پھیلی اس سیاسی جماعت کو آج سندھ تک محدود کر دیا ہے لیکن پی پی پی کی قیادت کا حال یہ ہے کہ اُسی ڈگر پر چلے جا رہی ہے جس نے کسی وقت ملک کی سب سے بڑی سیاسی قوت کو مکمل تباہی کے دہانے پر لا کھڑا کر دیا ہے۔ اس تباہی میں آصف علی زرداری صاحب کا بہت اہم کردار ہے جو بے نظیر بھٹو کی شہادت کے بعد پی پی پی کے کرتادھرتا ہیں۔ کبھی کبھی تو محسوس ہوتا ہے کہ زرداری صاحب شاید آئے ہی اس مقصد کے لیے ہیں کہ اس پارٹی کو مکمل ختم کر دیا جائے۔ یعنی جو کام کوئی ملٹری ڈکٹیٹر اور پیپلز پارٹی کے بڑے بڑے سیاسی مخالف نہ کر سکے وہ زرداری صاحب گزشتہ آٹھ دس سال سے بڑی تیزی سے کر رہے ہیں۔ کرپشن اور نااہل حکمرانی کی وجہ سے پی پی پی بُری طرح سے 2013 کا الیکشن ہار گئی لیکن صوبہ سندھ تک محدود ہونے کے باوجود پی پی پی کی سندھ حکومت کو آج بھی کرپشن اور نا اہل حکمرانی کی وجہ سے نمبر ون مانا جاتا ہے۔ پنجاب اور خیبر پختون خوا میں پی پی پی کے رہنما تیزی سے ایک ایک کر کے ذوالفقار علی بھٹو کی بنائی ہوئی اس سیاسی جماعت کو چھوڑ کر دوسری سیاسی جماعتوں خصوصاً تحریک انصاف میں شامل ہو رہے ہیں لیکن اس صورتحال سے فکر مند ہونے اور اپنے معاملات کو بہتر بنانے کی بجائے پی پی پی نے کرپشن کو کنٹرول کرنے کے لیے جو چھوٹا موٹا کام نیب کر رہی ہے اُس کے خاتمہ کے لیے بھی سندھ اسمبلی سے ایک بل پاس کروا دیا۔ یہ قانونی بحث اپنی جگہ کہ آیا کوئی صوبائی قانون وفاقی قانون کا دائرہ اختیار محدود کر سکتا ہے لیکن افسوس اس بات کا ہے کہ کرپشن کے خاتمہ کی بجائے سندھ حکومت کرپشن کے خاتمہ کے لیے بنائے گئے اداروں کو ہی ختم کرنے کے در پر ہے۔ اگرچہ یہ ہمارے لیے ایک المیہ سے کم نہیں لیکن زرداری صاحب کو یہ کریڈٹ تو جاتا ہے کہ جب وہ کرپشن کو بُرا نہیں مانتے تو اس کے خاتمہ کے لیے بنائے گئے اداروں کو قائم رکھنے کے بھی حق میں نہیں۔ وفاق میں گزشتہ پی پی پی کی حکومت کے ایک وزیر نے کرپشن کے سوال پر ایک ٹاک شو میں یہ بات صاف صاف کہہ دی کہ کیا کرپشن کرنا اُن کا حق نہیں۔ اس لیے جو کرپشن کرنے کو اپنا حق سمجھتے ہیں تو اُن کے لیے کرپشن کے خاتمہ کے لیے بنائے گئے کسی بھی ادارے کی حیثیت تو ایک رکاوٹ اور ظلم و زیادتی کی ہو گی۔ ویسے سچ پوچھیں تو نیب کے حالات بھی کوئی اچھے نہیں۔ اس ادارے کو ہر کسی نے اپنے اپنے مقاصد کے لیے استعمال کیا۔ جنرل مشرف جس نے اس ادارہ کو بنایا اس کو اپنی سیاست کے لیے استعمال کیا۔ گزشتہ پی پی پی دور میں نیب کو اُس وقت کی حکمران پارٹی کے اہم رہنمائوں کے کرپشن کیس ختم کرنے کے لیے استعمال کیا گیا۔ موجودہ ن لیگ کے دور میں بھی نیب کا حال ویسا ہی ہے ۔ اگر پی پی پی دور میں اُس وقت کی حکمران پارٹی کے رہنمائوں کے کیس ختم کروائے گئے تو موجودہ ن لیگی دور میں نیب نے موجودہ حکمرانوں کے کیس ختم کروائے ۔ پاناما اسکینڈل نے دنیا کو ہلا کر رکھ دیا لیکن نیب نے اس اسکینڈل کی طرف دیکھنا گوارا نہ کیا کیوں کہ اس میں شریف فیملی کا نام آ گیا۔ نیب نے کارروائی نہ کی تو معاملہ سپریم کورٹ چلا گیا اور پھر جے آئی ٹی بن گئی جس کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ اُس کے پیچھے کوئی اور ہی طاقت کام کر رہی ہے۔ اس صورتحال میں ن لیگ اور شریف فیملی پریشان ہے اور وزیر اعظم سمیت کئی لیگی رہنما یہ سوال پوچھ رہے ہیں کہ یہ کیسا احتساب ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ یہ تو ایک خاندان کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ ہو سکتا ہے کہ جے آئی ٹی کے کام میں کچھ مسئلے ہوں اور کوئی سازش بھی بنے جا رہی ہو لیکن یہاں سوال ن لیگ اور وزیر اعظم سے یہ بنتا ہے کہ وہ متنازعہ احتساب پر سوال کیسے اٹھا سکتے ہیں جب وہ خود ایک خود مختاراحتساب کا نظام اس ملک کو دینے میں ناکام ہوئے۔ گلہ تو کوئی دوسرا کرے۔ اگر حکمران بار بار وعدے کرنے کے باوجود ایک خود مختار احتساب کا نظام نہیں بنائیں گے تو پھر جب اُن کی اپنی پکڑ کوئی اور کرے گا تو دوسروں سے شکایت کیسی۔ تحریک انصاف بھی احتساب کا نعرہ لے کر آئی اور اس نعرہ کو وزیر اعظم کی کرسی کے حصول کے لیے استعمال کیا جارہا ہے۔ اگر کرپشن کے خاتمہ میں تحریک انصاف بھی واقعی اتنی ہی مخلص ہوتی تو خیبر پختون خوا میں احتساب کا جو نظام بنایا اُسے کام کرنے کی اجازت دی جاتی۔ خیبر پختون خوا کے احتساب کے نظام نے گزشتہ تین سالوں کے دوران ابھی تک ایک بھی کرپٹ کو سزا نہ دی۔ دوسری طرف ماضی میں جن پی پی پی کے رہنمائوں پر تحریک انصاف کرپشن کا الزامات لگاتی رہی انہیں اب اپنی پارٹی میں بھی شامل کیا جا رہا ہے اس طرح تحریک انصاف نے اپنے آپ کو ایک ایسے ڈرائی کلینر کا درجہ دے دیا ہے جس میں شامل ہو کر سب صاف ستھرے ہو جاتے ہیں۔ گویا اگر پی پی پی احتساب کے کسی ادارہ کو ہی برداشت نہیں کرنا چاہتی تو ن لیگ اور تحریک انصاف بھی کرپشن کے خاتمہ کے لیے کوئی ایسا نظام نہیں لانا چاہتے جو سیاست دانوں، ججوں، جرنیلوں، افسر شاہی سب پر برابری کی بنیاد پر لاگو ہو۔ عدلیہ اور اسٹیبلشمنٹ سیاستدانوں کے احتساب تو چاہتے ہیں لیکن اپنے معاملہ میں وہ کسی دوسرے کے عمل دخل کو برداشت نہیں کرتے۔یعنی سب اپنی اپنی پسند کا احتساب کا نظام چاہتے ہیں جس میں خود کو بچانا اور دوسرے کو پھنسانا مقصود ہوتا ہے۔ جہاں تک عوام کا تعلق ہے انہیں سب بے وقوف بنا رہے ہیں۔

.