کس کے گھر جائے گا سیلاب بلا

July 07, 2017

حیران ہوں، برطانیہ میں آباد مسلمانوں کو کیا ہوا؟ ان میں ایک حیرت انگیز تبدیلی آئی ہے۔ یہ اب جیسے ہیں، پہلے تو نہ تھے۔ دہشت گردی کی کھل کر مخالفت کرنے لگے ہیں۔ یہی نہیں، دہشت گردوں کی لاشیں وصول کرنے اور ان کی نماز جنازہ پڑھنے سے انکار کرنے لگے ہیں۔ اور تازہ کمال یہ ہوا کہ لندن کی ایک چوبیس منزلہ عمارت میں آدھی رات کے وقت آگ بھڑک اٹھی اور اس میں آباد کتنے ہی لوگ تو اندر پھنس کر اور جھلس کر مرگئے اور جو بچے وہ دیکھتے دیکھتے باہر سڑکوں پر آگئے۔ اس وقت علاقے کے مسلمانوں نے کمال کیا۔ انہوں نے ہر ذات پات کے مصیبت زدگان کے لئے اپنی مسجد کے دروازے کھول دئیے اور بے گھر ہونے والے اتنے بڑے مجمع کو پہلا کھانا علاقے کے مسلمانوں نے پیش کیا۔ یہ بات اہم ہے کہ عمارت میں جن لوگوں کے گھر بار تباہ ہوگئے ان میں بہت تھوڑے سے مسلمان تھے۔ اس کے بعد ٹیلی وژن کی آنکھ مسلسل یہ منظر دکھاتی رہی کہ بے گھر ہونے والوں کے لئے مسجد میں امدادی سامان کے ڈھیر لگ گئے۔ شہر بھر کے لوگ ضرورت کی اشیا اٹھائے علاقے کی مسجد پہنچنے لگے اور ہر طرف مسلمانوں کی تعریف ہونے لگی۔
اس واقعہ سے ہٹ کر بھی برطانیہ کے مسلمانوں نے دہشت گردی کے خلاف ڈٹ کر رویّہ اختیار کیا اور نہ صرف قتل و غارت کے واقعات کی کھل کر مذمت کی بلکہ نو عمر لڑکے لڑکیوں کی موسیقی کی ایک بہت بڑی محفل میں بارود کا تباہ کن دھماکہ کرنے والے مسلمان کو اس کے اپنے گھر والوں نے بھی معاف نہیں کیا۔
اسی طرح کا اُن ہی دنوں کا ایک اور واقعہ دنیا کی توجہ کا مرکز بنا۔ اس واقعہ نے بھی برطانیہ کے مسلمانوں کو سرخرو کیا۔ ہوا یہ کہ دو افسوسناک واقعات کے بعد جن میں دہشت گردوں نے عام بے قصور لوگوں پر بڑی موٹر گاڑیاں چڑھا کر انہیں لمحہ بھر میں ہلا ک کیا، ایک سر پھرے برطانوی باشندے کے سر میں بدلہ لینے کی دھن سمائی۔ وہ ویلز کے دور دراز علاقے سے ایک بڑی وین چلا کر لندن آیا اور مشرقی لندن کی ایک بڑی مسجد کے باہر جہاں روزہ دار اپنی عبادات میں مصروف تھے، اس شخص نے ان کے مجمع پر اپنی گاڑی چڑھا دی۔ اسی آہ و بکا کے دوران وہ شخص اپنی گاڑی سے اتر کر فرار ہونے کی کوشش کر رہا تھا کہ مجمع نے اسے پکڑ لیا۔ اب اس شخص کا جو حشر ہونا تھا اسے تصور کرنا مشکل نہیں۔ قریب تھا کہ بپھرا ہوا مجمع قاتل کو مارڈالے، مسجد کے پیش امام اور ان کے دو ایک ساتھیوں نے خود کو حملہ آور کے اوپر گرادیا اور جب تک پولیس نے آکر اس کو گرفتار نہیں کرلیا، و ہ اس کے اوپر ڈھال بنے رہے۔ اس پر پیش امام اور ان کے ساتھیوں کو خوب سراہا گیا۔ ایک قابل ذکر بات یہ دیکھی کہ یہ لوگ کثرت سے ٹیلی وژن پر آکر بولے اور اس اعتماد کے ساتھ اچھی انگریزی بولے جو اس سے پہلے کم ہی سننے میں آتی تھی۔ یہ بات میں خاص طور پر اجاگر کرنا چاہتا ہوں۔ ان کے لب و لہجے سے صاف لگا کہ اب میڈیا پر آکر ہمارے جو لوگ بولتے ہیں، ان کا تعلق ہماری اس نسل سے ہے جو برطانیہ ہی میں پید ا ہوئی یا یہیں پلی بڑھی۔ ان کا انداز گفتگو، بات میں استدلال کا ڈھنگ اور لب و لہجہ ظاہر کرتا تھا کہ یہ وہ نسل نہیں جس کے لوگ طیاروں میں بھر کر ویزا کی پابندی لگنے سے پہلے جوق در جوق برطانیہ چلے آئے اور یہاں آکر بھی یہاں کے نہ ہوئے۔ اب جو لوگ ہماری طرف سے بول رہے ہیں، ان کا انداز ہم سے مختلف نہیں۔ ایک وقت تھا کہ مسلمانوں پر بڑ ے الزام لگا کرتے تھے، سب سے بڑھ کر یہ کہ یہ لوگ دہشت گردی کے خلاف آواز نہیں اٹھاتے، قتل و غارت کی مذمت نہیں کرتے، انہیںکبھی شدت پسندی کے خلاف احتجاج یا مظاہرہ کرتے نہیں دیکھا۔ اس طر ح کی شکایتوں کا سلسلہ نہ صرف جاری تھا بلکہ ہم چپ رہنے پر مجبور تھے کیونکہ یہ شکایتیں کچھ ایسی بے جا بھی نہ تھیں۔اوپر سے غضب یہ ہوا کہ برطانیہ کے جن علاقوں میں مسلمان کثرت سے آباد ہیں اور مسجدیں او رمدرسے سرگرم عمل ہیں، وہاں کے بعض لوگ گمراہ کرنے والی باتوں میں آنے لگے۔ کتنے یہ تو چھپتے چھپاتے ترکی کے راستے شام اور عراق کی جانب سدھار گئے۔ وہ بھی اس اعلان کے ساتھ کہ وہاں جاکر ’خلافت‘ کے پاک و پاکیزہ نظام کا لطف اٹھائیں گے اور اس کے بعد اگلا ٹھکانہ بہشت بریں سے کم نہ ہوگا۔
ذہنوں میں اس طر ح کے خیالات گھولنے کا عمل نہایت خاموشی سے لیکن بڑی ہی سر گرمی کے ساتھ جاری تھا۔ جن نوجوانوں کی سوشل میڈیا تک رسائی تھی یا دوسرے لفظوں میں جن کے اپنے کمروں کے کسی گوشے میں کمپیوٹرلگا ہوا تھا وہ لڑکے لڑکیاں ان لوگوں کے دائرے میں شامل ہو رہے تھے جنہیں عام اصطلاح میں بھرتی کرنے والے کہا جاتا تھا۔ کتنے ہی نو عمر لڑکے لڑکیوں کے دماغوں کو کس چابک دستی سے پلٹا گیا کہ اُس وقت یقین نہ آتا تھا۔ جوان لڑکیاں راتوں کو گھر سے نکل کر ترکی کے راستے شام اور عراق جا پہنچیں اور پریس نے انہیں ’داعش کی دلہنوں‘ کا نام دیا۔وہاں جاکر وہ خلافت کے نام پر تباہی پھیلانے والے جنگجوئوں سے نتھی ہوگئیں اور تازہ اطلاعات کے مطابق اکثر نہ صرف بیوہ ہو چکی ہیں بلکہ اپنی یورپ کی زندگی کو یاد کر کر کے رورہی ہیں۔میں نے چونکہ ان حالات پر نگاہ رکھی ہے اس لئے آج کی آخری بات بڑے وثوق سے کہنا چاہتا ہوں۔ عراق میں وہ قوتیں پسپا ہو رہی ہیں جنہیں کبھی داعش اور کبھی مملکت اسلامیہ کہا گیا۔ ایک دنیا جانتی ہے کہ امریکی صدر جارج بش اور برطانوی وزیر اعظم ٹونی بلیئر نے تاریخ کی سب سے بڑی حماقت کر کے عراق پر جو چڑھائی کی تھی اور اس کے بعد صدام حسین کی جس فوج کو کھڑے کھڑے برطرف کردیا تھا اسی فوج نے ظالم اور بے رحم سپاہ کی شکل اختیار کرلی اور دہشت اور بربریت کی ایسی داستان رقم کی کہ جب کبھی اس کی تفصیل دنیا کے سامنے آئے گی، دنیا شرمندہ ہوکر سر ڈال دے گی۔ وہ سپاہ اب پسپائی اختیار کر رہی ہے لیکن آثار صاف کہہ رہے ہیں کہ ایک بڑا ناسور تو مٹ جائے گا مگر پھر جا بجا جو ان گنت پھوڑ ے نکلنا شروع ہوگئے ہیں، ان کا علاج کون کرے گا۔ کبھی کسی نے سوچا کہ یہ سیلاب بلا اب کس کے گھر جائے گا؟