آئل ٹینکرز یا موت کے ہرکارے؟

July 09, 2017

احمد پور شرقیہ میں آئل ٹینکر حادثے میں موقع پر زندہ جل کر نذر اجل ہونے والوں کے بعد زخمیوں کے جان کی بازی ہارنے کی اطلاعات کا تسلسل جاری ہے مگر یہ کہنا مشکل معلوم ہوتا ہے کہ حکومتی حلقوں اور متعلقہ سرکاری مشینری نے اس کا کوئی اثر لیا ہے۔ آئل ٹینکر سمیت آتشگیر مادے لے جانے والی گاڑیوں کی مصروف سڑکوں پر اور ٹریفک کے دبائو کے اوقات میں تاحال نظر نہ آنے والی کمی کی صورتحال پر قابو پانے کی اب تک ایک امید پیدا ہوئی ہے تو اس کی وجہ لاہور ہائیکورٹ میں جاری کارروائی ہے۔چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ نے جمعہ کے روز تک ہونے والی 217اموات پر نجی آئل کمپنی پر اوگرا کی طرف سے عائد کئے گئے صرف ایک کروڑ جرمانے کو سمجھ سے بالاتر اور متاثرین کے معاوضے کو بھی کم قرار دیتے ہوئے اپنے ریمارکس میں واضح کیا ہے کہ تیل کمپنی سمیت جو بھی سانحہ کا ذمہ دار نکلا اسے نتائج بھگتنا ہوں گے۔ آئل اینڈ گیس ریگولیٹری اٹھارٹی نے سانحہ احمد پور شرقیہ سے متعلق اپنی رپورٹ میںمتعلقہ آئل کمپنی کو پاکستان پٹرولیم رولز 1937کی خلاف ورزی پر ایک کروڑ روپے جرمانے کا مستوجب قرار دیا ہے اور جاں بحق اور زخمی ہونے والوں کے لواحقین کو فی کس بالاترتیب 10لاکھ اور 5لاکھ روپے معاوضہ ادا کرنے کا حکم دینے پر اکتفا کیا گیا ہے۔ لاہور ہائی کورٹ کی کارروائی کے دوران چیف جسٹس سید منصور علی شاہ نے وفاقی حکومت کو 1963کے پٹرولیم ایکٹ کا فوری جائزہ لینے کی ہدایت کی جس کے تحت لائسنس کی تجدید نہ کرانے والوں کو 500روپے جرمانہ اور 6ماہ کی سزا سنائی جا سکتی ہے۔جبکہ تیل کمپنی کا احتیاطی تدابیر سے عاری جو ٹینکر احمد پور شرقیہ میں انسانی جانوں کے اتلاف کا ذریعہ بنا اس کا لائسنس 31جنوری 2016کو ختم ہوچکا تھا۔ انسانی زندگیوں کی حفاظت کیلئے بنائے جانے والے قوانین میں سزائیں اتنی سخت ضرور ہونی چاہئیں کہ متعلقہ افراد اور کمپنیوں کو قوانین پس پشت ڈالنے کی ہمت نہ ہو ۔قوانین کی خلاف ورزی سے تجاہل عارفانہ بلا قیمت نہیں ہوتا۔ قیمت وصول کرکے انسانی جانوں کے زیاں کا سبب بننے والے اہلکاروں کو بھی بخشا نہیں جانا چاہئے۔