برطانوی مسلم خاتون کی امتیازی سلوک پر ائرلائن کے خلاف عدالتی چارہ جوئی

July 24, 2017

لندن (نیوزڈیسک)ایک برطانوی خاتون جسے ایک طیارے میں آرٹ کی شامی کتاب پڑھتے دیکھ کر کائونٹر ٹیررازم پولیس نے پوچھ گچھ کی تھی، کہا ہے کہ انہیں یہ کہنے پر مجبور کر دیا گیا ہے کہ وہ معافی مانگنے کے لئے عدالت جائیں۔ تھامسن کیبن کریو نے2016ء میں ہنی مون منانے کے لئے ترکی جانے والی فائزہ شاہین کے بارے میں حکام کو آگاہ کیا تھا۔ خاتون کے وکلاء نے بی بی سی کے وکٹوریہ ڈربی شائر پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ان کی موکلہ کو یقین ہے کہ اسے صرف اس کی نسل کے باعث ٹارگٹ کیا گیا۔

دوسری جانب تھامسن کا کہنا تھا کہ اس کے کریو کسی بھی قابل تشویش بات پر احتیاطی اقدامات کے تحت رپورٹ کے لئے تربیت یافتہ ہیں۔ فائزہ شاہین جوکہ ایک مسلمان ہیں اورمینٹل ہیلتھ کیئر میں کام کرتی ہیں۔ نوجوانوں میں انتہا پسندی کی علامات دیکھنا ان کی ذمہ داریوں میں شامل ہے۔ وہ ترکی جانے والی پرواز میں ’’سیریا سپیکس: آرٹ اینڈ کلچر فرام دی فرنٹ لائن‘‘کا مطالعہ کر رہی تھیں۔

کتاب شامی آرٹسٹوں اور رائٹرز کے ادب، تصاویر، نغمات اور کارٹونز کا مجموعہ ہے۔ دو ہفتے بعد برطانیہ واپسی پر انہیں پولیس نے روکا۔ فائزہ شاہین اور ان کے شوہر کو ڈنکاسٹر ائرپورٹ پر پوچھ گچھ کے لئے ایک کمرے میں پہنچا دیا گیا جہاں30منٹ تک ان سے تفتیش کی گئی۔ اس دوران ان سے کتاب، ان کے کام اور جو زبانیں وہ جانتی ہیں اس کے بارے میں سوالات کئے گئے۔ ان کا کہنا تھا کہ میں بہت اَپ سیٹ اور ذہنی دبائو کا شکار ہوئی۔ انہوں نے وضاحت کی کہ ایک سال گزر گیا تھامسن ائرویز قانونی کارروائی کے باوجود وضاحت یا معافی مانگنے میں ناکام رہی۔ اس صورتحال نے مجھے مجبور کر دیا کہ میں ایکوئلٹی ایکٹ کے تحت عدالت سے ڈیکلریشن حاصل کروں۔

ان کی لیگل ٹیم نے بتایا کہ وہ تھامسن کو تحریری طور پر آگاہ کر چکی ہے کہ کمپنی کو یقین ہے کہ ان کی موکلہ امتیازی سلوک کی متاثرہ ہے۔ آئی ٹی این سالیسٹرز کے روی نائیک کا کہنا ہے کہ ایکوئلٹی ایکٹ میں کسی بھی شخص کے ساتھ اس کے مذہب، نسل اور کسی بھی وجہ سے امتیازی سلوک کے خلاف مضبوط تحفظ فراہم کیا گیا ہے۔