سعودی کسٹم کے خط نے اماراتی خط پر سنگین سوالات پیدا کر دیئے

July 28, 2017

اسلام آباد (احمد نورانی)سعودی کسٹم کی ایک تصدیق شدہ دستاویز سے ظاہر ہوتا ہے کہ ستمبر تا دسمبر 2001 کی تاریخوں میں متحدہ عرب امارات سے مشینری کے ٹرکس سعودی کسٹم کے پاس پہنچے تھے جیسا کہ شریف خاندان نے پاناما کیس میں سپریم کورٹ کے سامنے اپنے جواب میں بیان کیا تھا۔

سعودی عرب کی سرکاری دستاویز نے یو اے ای کے خط کی سچائی پر سنگین سوالات پیدا کر دیئےہیں، جس میں ٹرکس کی ایسی کسی نقل و حرکت کی تردید کی گئی تھی اور کچھ غلط اور چالاکی سے پوچھے گئے سوالات کے کچھ اور جواب دیے تھے۔ سعودی کسٹم کے سرکاری لیٹر سے ظاہر ہوتا ہے کہ 28 انٹریز کی گئیں جو تصدیق کرتی ہیں کہ متحدہ عرب امارات سے ٹرکس مشینری لے کر سعودی عرب آئے تھے۔

جے آئی ٹی کے سوالات کے جواب میں یو اے ای کے خط میں تمام جوابات مشکوک تھے اور واضح بات بیان نہیں کر رہے تھے جبکہ سعودی عرب کے خط میں ٹرکوں کی نقل و حرکت کی واضح طور پر تصدیق کی گئی ہے۔

جے آئی ٹی میں ہوشیار افراد نے اس سلسلے میں تفصیلات طلب نہیں کی تھیں لہذا اس وقت ریکارڈ کو مکمل کرنے کی کوشش کی گئی کیونکہ یہ کسی فورم کو درکار نہیں تھا۔ اگرچہ جے آئی ٹی کسی بھی الزام کے حوالے سے فیصلہ کن شہادت سامنے لانے میں ناکام رہی ہے لیکن اس تازہ ترین پیش رفت نے جے آئی ٹی کی جانب سے پہلے سے اخذ کردہ دو واضح غلط نتائج میں ایک اور نکتے کا اضافہ ہوگیا ہے۔ یہ ثابت کرنے کے لئے کہ شریف خاندان 1990 سے ہی لندن کے فلیٹوں کا مالک ہے، جے آئی ٹی نے واضح الفاظ میں اعلان کیا کہ التوفیق لون ڈیفالٹ کیس میں لندن ہائی کورٹ نے ان چار پارک لین فلیٹس کو منسلک کیا تھا کیونکہ قرض حدیبیہ پیپرز ملز اور شریف خاندان کے ارکان نے حاصل کیا تھا، لہذا اس سب سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ فلیٹس 1990 سے شریف خاندان کی ملکیت تھے۔ شریف خاندان التوفیق انوسٹمنٹ سے قرض کی اصل دستاویزات لے کر آگیااور یہ ثابت کیا کہ لندن کے فلیٹس کو کبھی بطور وثیقہ استعمال نہیں کیا۔

1990 میں لاکھوں ڈالرز پاکستان آئے، شریف خاندان نے بیان کیا کہ یہ ضروری تھا کہ اسٹیٹ بینک آف پاکستان اور ایس ای سی پی کو قرض کے ذرائع سمیت تمام معاہدوں اور تفصیلات سے آگاہ کیا جائے۔ تمام تفصیلات ایس بی پی اور ایس ای سی پی کو پیش کی گئی تھیںلیکن جے آئی ٹی نے ملزمان کی درخواستوں کے باوجود کبھی یہ ریکارڈ طلب نہیں کیا۔

بعدا زاں دی نیوز کی جانب سے حاصل کردہ دستاویزات سے یہ حقیقت ثابت ہوئی کہ التوفیق لون کے لئے جو واحد وثیقہ استعمال کیا گیا وہ حدیبیہ پیپرز ملز کا منقولہ اثاثے بشمول پلانٹ اور مشینری استعمال کیے گئے تھے۔

اس حوالے سے جے آئی ٹی کی فائنڈنگ بالکل غلط ثابت ہوئی۔ ایک اور نکتہ جس پر جے آئی ٹی بالکل غلط ثابت ہوئی وہ یہ دعوی تھا کہ وزیراعظم نواز شریف یو اے ای میں ایک آف شور کمپنی کے مالک ہیں اور انہوں نے اس کا اعلان نہیں کیا ہے۔بعد میں یہ ثابت ہوا کہ مذکورہ کمپنی ایف زید ای کپیٹل مکمل طور پر شریف خاندا ن کے ایک رکن کی ملکیت تھی ، آف شور کمپنی نہیں تھی اور وزیراعظم کمپنی کے اعزازی چیئرمین تھے تا کہ یو اے ای کے حکام سے اقامہ، ویزا اور سفر کی سہولت لی جاسکےاور اس کا 2013 کے الیکشن میں نامزدگی فارم میں اس کا مناسب طور پر اعلان کیا گیا۔ یہ واحد دستاویز تھی جہاں اس کے بارے میں اعلان کیا جاسکتا تھا۔ اس نکتے پر بھی جے آئی ٹی کی فائنڈنگ بالکل غلط ثابت ہوئی۔

باقی ماندہ الزامات پر جے آئی ٹی کچھ حقائق سامنے لائی لیکن ایک بھی حتمی شہادت پیش نہیں کی گئی جو مخصوص الزامات کو ثابت کرتی۔ اس حقیقت کے باوجود کہ جے آئی ٹی شریف خاندان کی جانب سے لندن فلیٹس کی خریداری میں منی ٹریل سے وزیراعظم کا کوئی بھی تعلق ثابت کرنے میں ناکام رہی ، جے آئی ٹی نے وزیراعظم کے خلاف نیب کے قانون کو لاگو کرنے کی سفارش کی۔